امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے جلال میں آ کر زمین پر ایک درہ مارا اور بلند آواز سے فرمایا: ’’اے زمین! ساکن ہوجا‘ کیا میں نے تیرے اوپر عدل نہیں کیا ہے؟‘‘ آپ کا فرمان جلالت شان سنتے ہی زمین ساکن ہوگئی
شکم مادر میں کیا ہے؟: حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہما راوی ہیں کہ امیرالمومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ نے اپنے مرض وفات میں اپنی صاحبزادی ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو وصیت فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ میری پیاری بیٹی! آج تک میرے پاس جو میرا مال تھا وہ آج وارثوں کا مال ہوچکا ہے اور میری اولاد میں تمہارے دونوں بھائی عبدالرحمٰن و محمد اور تمہاری دونوں بہنیں ہیں لہٰذا تم لوگ میرے مال کو قرآن مجید کے حکم کے مطابق تقسیم کرکے اپنا اپنا حصہ لے لینا۔یہ سن کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ اباجان! میری تو ایک ہی بہن ’’بی بی اسماء‘‘ ہیں‘ یہ میری دوسری بہن کون ہے؟ آپ نے فرمایا کہ میری بیوی ’’بنت خارجہ‘‘ جو حاملہ ہے‘ اس کے شکم میں لڑکی ہے‘ وہ تمہاری دوسری بہن ہے چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام ’’ام کلثوم‘‘ رکھا گیا۔ (تاریخ الخلفاء ص 57)اس حدیث کے بارے میں حضرت علامہ تاج الدین سبکی علیہ الرحمۃ نے تحریر فرمایا کہ اس حدیث سے امیرالمومنین حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی دو کرامتیں ثابت ہوتی ہیں۔ اول یہ کہ آپ کو قبل وفات یہ علم ہوگیا تھا کہ میں اسی مرض میں دنیا سے رحلت کروں گا اس لیے بوقت وصیت آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے یہ فرمایا: ’’ کہ میرا مال آج میرے وارثوں کا مال ہوچکا ہے‘‘ دوم یہ کہ حاملہ کے شکم میں لڑکا ہےیا لڑکی اور ظاہر ہے کہ ان دونوں باتوں کا وقت سے پہلے کردینا بلاشبہ و بالیقین پیغمبر کے جانشین حضرت امیرالمومنین ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی دو عظیم الشان کرامتیں ہیں۔ (ازالۃالخفاء مقصد 2 ص 21 و حجۃ اللہ ج 2 ص 860) مار سے زلزلہ ختم: امام الحرمین نے اپنی کتاب ’’الشامل‘‘ میں تحریر فرمایا ہے کہ ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں زلزلہ آگیا اور زمین زوروں کے ساتھ کانپنے اور ہلنے لگی۔ امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے جلال میں زمین پر ایک درہ مارا اور بلند آواز سے فرمایا: ’’اے زمین! ساکن ہوجا‘ کیا میں نے تیرے اوپر عدل نہیں کیا ہے؟‘‘ آپ کا فرمان جلالت شان سنتے ہی زمین ساکن ہوگئی اور زلزلہ ختم ہوگیا۔ (حجۃ اللہ ج2 ص 861 و ازالۃ الخفاء مقصد 2 ص172)
گستاخی کی سزا: حضرت ابو قلابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا بیان ہے کہ میں ملک شام کی سرزمین میں تھا تو میں نے ایک شخص کو بار ہا یہ صدا لگاتے ہوئے سنا کہ ’’ہائے افسوس! میرے لیے جہنم ہے‘‘ میں اٹھ کر اس کے پاس گیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس شخص کے دونوں ہاتھ اور پاؤں کٹے ہوئے ہیں اور وہ دونوں آنکھوں سے اندھا ہے اور اپنے چہرے کے بل زمین پر اوندھا پڑا ہوا بار بار لگاتار یہی کہہ رہا ہے کہ ’’ہائے افسوس! میرے لیے جہنم ہے‘‘ یہ منظر دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے اس سے پوچھا کہ اے شخص! تیرا کیا حال ہے؟ اورکیوں اور کس بنا پر تجھے اپنے جہنمی ہونے کا یقین ہے؟ یہ سن کر اس نے یہ کہا اے شخص! میرا حال نہ پوچھ‘ میں ان بدنصیب لوگوں میں سے ہوں جو امیرالمومنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو قتل کرنے کیلئے ان کے مکان میں گھس پڑے تھے۔ میں جب تلوار لے کر ان کے قریب پہنچا تو ان کی بیوی صاحبہ نے مجھے ڈانٹ کر شور مچانا شروع کردیا تو میں نے ان کی بیوی صاحبہ کو ایک تھپڑ ماردیا۔ یہ دیکھ کر امیرالمومنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے یہ دعا مانگی کہ ’’اللہ تعالیٰ تیرے دونوں ہاتھوں اور دونوں پاؤں کو کاٹ ڈالے اور تیری دونوں آنکھوں کو اندھی کردے اور تجھ کو جہنم میں جھونک دے‘‘ اے شخص! میں امیرالمومنین کے پرجلال چہرے کو دیکھ کر اور ان کی اس قاہرانہ دعا کو سن کر کانپ اٹھا اور میرے بدن کا ایک ایک رونگٹا کھڑا ہوگیا اور میں خوف و دہشت سے کانپتے ہوئے وہاں سے بھاگ نکلا۔ امیرالمومنین کی چار دعاؤں میں سے تین دعاؤں کی زد میں تو آچکا ہوں۔ تم دیکھ رہے ہو کہ میرے دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں کٹ چکے اور دونوں آنکھیں اندھی ہوچکیں۔ اب صرف چوتھی دعا یعنی میرا جہنم میں داخل ہونا باقی رہ گیا ہے اور مجھے یقین ہے کہ یہ معاملہ بھی یقیناً ہوکر رہے گا۔ چنانچہ اب میں اسی کا انتظار کررہا ہوں اور اپنے جرم کو بار بار یاد کرکے نادم و شرمسار ہورہا ہوں اور اپنے جہنمی ہونے کااقرار کرتا ہوں۔ (اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اللہ والوں کی بے ادبی و گستاخی کی لعنت سے محفوظ رکھے اور اپنے محبوبوں کی تعظیم و توقیر اور ان کے ادب و احترام کی توفیق بخشے۔ آمین!)
کٹا ہوا ہاتھ جوڑ دیا: روایت میں ہے کہ ایک حبشی غلام جو امیرالمومنین شیرخدا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا انتہائی مخلص محب تھا۔ شامت اعمال سے اس نے ایک مرتبہ چوری کرلی۔ لوگوں نے اس کو پکڑ کر دربار خلافت میں پیش کردیا اور غلام نے اپنے جرم کا اقرار بھی کرلیا۔ امیرالمومنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے اس کاہاتھ کاٹ دیا جب وہ اپنے گھر کو روانہ ہوا تو راستہ میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اور ابن الکراء سے اس کی ملاقات ہوگئی۔ ابن الکراء نے پوچھا کہ تمہارا ہاتھ کس نے کاٹا؟ تو غلام نے کہا امیرالمومنین و یعسوب المسلمین داماد رسول ﷺ و زوج بتول رضی اللہ تعالیٰ عنہٗم نے۔ ابن الکراء نے کہا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے تمہارا ہاتھ کاٹ ڈالا‘ پھر بھی تم اس قدر اعزاز و اکرام اورمدح و ثناء کے ساتھ ان کا نام لیتے ہو؟ غلام نے کہا کہ کیا ہوا؟ انہوں نے حق پر میرا ہاتھ کاٹا اور مجھے عذاب جہنم سے بچالیا۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے دونوں کی گفتگو سنی اور امیرالمومنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے اس کا تذکرہ کیا تو امیرالمومنین نے اس غلام کو بلوا کر اس کا کٹا ہوا ہاتھ اس کی کلائی پر رکھ کررومال سے چھپادیا پھر کچھ پڑھنا شروع کردیا۔ اتنے میں ایک غیبی ٓآواز آئی کہ رومال ہٹاؤ جب لوگوں نے رومال ہٹایا توغلام کا کٹا ہوا ہاتھ اس طرح کلائی سے جڑگیا تھا کہ کہیں کٹنے کا نشان بھی نہیں تھا۔ (تفسیر کبیر جلد 5 ص479)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں