Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

دکھیاروں کی بددعاؤں نے در در کا محتاج کردیا

ماہنامہ عبقری - فروری 2016ء

 مجھے آج بھی وہ بددعائیں یاد ہیں جو اس یتیم اور بیوہ عورت نے روتے ہوئے ہمارے دروازے پر کھڑے ہوکر دی تھیں۔ جو جو الفاظ انہوں نے نکالے تھے وہ سب کچھ ہمارے ساتھ ہورہا ہے۔ہم دن بدن غربت‘ تنگدستی اور ذلت کی دلدل میں دھنستے جارہے ہیں۔

محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! امید کرتی ہوں آپ خیریت سے ہونگے اور جس طرح آپ عبقری کے ذریعے دکھی انسانیت کی خدمت کررہے ہیں اللہ پاک آپ کو اس کے لیے اجرعظیم عطا فرمائے۔ محترم حضرت حکیم صاحب! میں بھی پچھلے تین سال سے عبقری کی قاری ہوں اور یہ رسالہ مجھے بے حد پسند ہے۔ میں اب اپنی دوست کی زندگی کی کہانی اس کی زبانی سنانےجارہی ہوں جو کہ مکافات عمل پر مبنی ہے۔میں ایک متوسط گھرانے سےتعلق رکھتی ہوں اور میرے گھر کا ماحول بہت پیچیدہ ہے‘ میرے گھر کا ایک ایک فرد مطلب پرست اور جھوٹی انا والا ہے‘ سوائے میری والدہ اور بھائیوں کے۔ اگر آج میرے گھر کا ماحول ٹھیک نہیں ہے تو صرف میرے والد کی وجہ سے کیونکہ انہیں یہ احساس ہی نہیں ہے کہ میں اپنے بچوں کی تربیت کیسے کروں یا اپنے ماحول کو کیسے اچھا بناؤں۔ ہماری زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے‘ گھر میں کھانے کو کچھ نہیں ہے‘ ہم چاربہنیں جوان ہیں مگر میرے والد کو کچھ خبر نہیں۔ میری ماں سوچ سوچ کر بوڑھی ہورہی ہے۔ ہمارے ابو نے آج تک میری ماں سے کیا اپنی بیٹیوں سے سیدھے منہ بات نہیں کی۔ اگر ہم کچھ بول دیں یا کوئی مشورہ دے دیں تو ہمارے ساتھ وہ سلوک ہوتا ہےکہ مجھے یہاں لکھتے ہوئے بھی شرم آرہی ہے۔ ہمیں کسی قسم کا حق نہیں دیا گیا۔ پہلے ہمارے معاشی حالات بالکل ٹھیک تھے۔ کچھ عرصہ پہلے میرے والد نے ایک کاروبار شروع کیا‘ اس میں انہوں نے دوسرے لوگوں سے پیسے لے کر سود کی بنیاد پر نمبردو کام شروع کیا جس کی خبر ہمیں بالکل نہیں تھی جب بھی بات کرتے تو فخر اور شیخی سے کہتے کہ میرا بہت وسیع کاروبار ہے اور کتنے بندے میرے آگے کام کرتے ہیں۔ امی کو تو ابو نے کبھی یہ حق دیا ہی نہیں کہ وہ ان سےکچھ پوچھے یا ان کی کوئی رائے لے۔ پھر ابو عمرے کی ادائیگی کیلئے گئے جب واپس آئے تو کاروبار بالکل خراب ہوچکا تھا اور ان کو بہت بڑے خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر آہستہ آہستہ قرض دار دروازے تک آنے لگے جس کا سامنا ابو نہیں کرسکتے تھے کیونکہ حقیقت میں ابو ان لوگوں سےڈرتے تھے یہاں تک کہ ابو ان لوگوں کو قائل کرکے گھر آنے سے بھی نہیں روک سکتے تھے۔ جیسے تیسے کرکے اور جرگہ کرکے کم پیسوں میں اور ان کا حق کھا کر قرض اتارا۔ ان قرض داروں میں ایک بیوہ اور ایک یتیم بچی بھی تھی جو ابو سے اپنا حق مانگتے تھے لیکن ابو  نےان کی بھی نہ سنی اور جرگہ کرکے غلط فیصلوں سے یہ معاملہ رفع کیا۔ اب وہ لوگ ہمیں بہت زیادہ بددعائیں دیتے ہیں وہ بیوہ عورت بھی اور یتیم بچی بھی۔ لیکن اس بات کا احساس تک ابو کو ایک پل نہیں ہوا۔ آج ہم جن حالات میں سے گزر رہے ہیں صرف اور صرف ان کی بددعاؤں کا اثر ہے۔ مجھے آج بھی وہ بددعائیں یاد ہیں جو اس یتیم اور بیوہ عورت نے روتے ہوئے ہمارے دروازے پر کھڑے ہوکر دی تھیں۔ جو جو الفاظ انہوں نے نکالے تھے وہ سب کچھ ہمارے ساتھ ہورہا ہے۔ہم دن بدن غربت‘ تنگدستی اور ذلت کی دلدل میں دھنستے جارہے ہیں۔ ابو کے ایک مخلص دوست نےابو سے کہا بھی کہ آپ ان لوگوں کے پاس جائیں جن لوگوں کا ابو نے حق کھایا ہے اور ان سے معافی مانگیں کیونکہ آپ کے حالات دن بدن خراب ان کی بددعاؤں کی وجہ سے ہورہے ہیں مگر میرے ابو یہ ماننے کو بالکل بھی تیار نہیں ہیں یہاں تک کہ یہ مشورہ دینے والوں کو ابو نے خوب بے عزت کیا اور ان پر طرح طرح کی تہمتیں لگائیں۔
میں سچ کہتی ہوں حکیم صاحب! میں اپنے اس انا پسند اور جھوٹی شان و شوکت اور مطلب پرست ماحول سے تنگ آگئی ہوں۔ میرا بس نہیں چلتا کہ میں اپنے معاشرے کوٹھیک کرسکوں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی غلطیاں وہ کرتے ہیں تو پھر سزا ہمیں کیوں بھگتنی پڑتی ہے؟ان بددعاؤں کے بعد میرے ابو نے بہت سے نئے کاروبار کیے مگر سب میں نقصان ہی ہوا۔ اگر کسی کام میں کبھی منافع ہوتا بھی ہے تو کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ رونما ہوتا ہے کہ سارے پیسے ادھر لگ جاتے ہیں اور میرے والد پھر دونوں ہاتھ خالی لیکر بیٹھ جاتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ انہی یتیموں اور بیواؤں اور غریبوں کی بددعائیں ہیں جو آج تک ہم کسی ترقی پر نہیں پہنچے‘ تعلیم میں بھی بہت محنت کرتے ہیں لیکن سب سے بہت پیچھے ہیں۔ چند دن پہلے میرے بھائی کا اتنا زبردست حادثہ ہوا کہ اس کی ٹانگ فریکچر ہوگئی۔ ہماری زندگی میں کچھ بھی ٹھیک نہیں ہورہا۔ معاشی تنگی اتنی ہے کہ امی گھر کے پرانے برتن بیچ کر گزارہ کررہی ہیں۔ اب بھی اگر ہم بچے یا ان کی بیوی ان کو کوئی مشورہ دے دیں تو ہمیں غلط قسم کے طعنے اور گالیاں دے کر چپ کروادیتے ہیں اوروہ باتیں کریں گے جو ہماری سوچ سے بھی باہر ہوں گی۔ کبھی کبھی تو بہت دل کرتا ہے کہ اس گھر سے بہت دور چلی جاؤں؟ لیکن میں آخر کر بھی کیا سکتی ہوں؟۔ محترم حضرت حکیم صاحب! میری باتیں تو بہت ہیں اتنی زیادہ کہ لکھتے لکھتے صبح سے رات ہوجائے اور میری باتیں شاید ختم نہ ہوں۔ حضرت حکیم صاحب! میں صرف ایک بات پوچھنا چاہوں گی اور یہ ہی میری باتوں کا خلاصہ بھی ہے اور وہ یہ کہ ہمارے حالات جو دن بدن خراب ہوتے جارہے ہیں اور ترقی کی راہ کی طرف گامزن نہیں کررہے۔ ہروقت گھر میں توں توں مَیں مَیں کا ہونا‘ بے چینی‘ ناخوشی کا ہروقت کا احساس۔ بیماریاں ہر آئے دن‘ نمازوں میں دل نہ لگنا‘ ہر کام ہوتے ہوتے رہ جانا وغیرہ وغیرہ۔ کیا یہ سب ان کی بددعاؤں کا اثر ہے جن کا حق صرف اور صرف میرے ابو نے کھایا ہے اور جن میں بیوہ اور یتیم بھی شامل تھے۔ حضرت حکیم صاحب! ان لوگوں کا بچہ بچہ ہمیں بددعائیں دیتا ہے۔ اب دل روتا ہے اور برداشت کرنے کی سکت اب ہم میں مزید باقی نہیں ہے۔ اگر یہ سب ان لوگوں کی بددعاؤں کا اثر ہے تو ہم ان بددعاؤں کے اثر سے کس طرح نکل پائیں گے اور ابو کو کیسے سمجھائیں کیونکہ وہ کسی کی بھی بات نہیں مانتے اور اپنی غلطی کو تسلیم کرنے کیلئے بالکل بھی تیار نہیں ہیں۔ آخر سزا ہم کیوں بھگتے ہیں غلطیاں وہ کریں۔ لوگوں کا دل وہ دکھائیں اور سزا ہم کیوں بھگتیں۔ کیوں کیوں کیوں اور آخر کیوں؟

Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 490 reviews.