تعلق رکھنے والے چند تاجروں نے حضرت سے درخواست کی کہ آپ گنج مراد آباد تشریف لے جارہے ہیں ہمیں بھی ساتھ لے چلیں‘ حضرت مولانا عبدالحی نے خوشی سے آمادگی ظاہر فرمائی‘ لکھنو سے چل کر گنج مراد آباد پہنچے‘ قصبہ میں پہنچ کر رکشہ سے مرشد روحانی حضرت مولانا فضل رحمٰن گنج مراد آبادی کی خانقاہ پہنچے‘ معلوم ہوا کہ حضرت بھی مسجد میں تشریف رکھتے ہیں‘ دوائے درد بیچنے والے اہلِ دل‘ اہل اللہ کو‘ اللہ نے خیر کا مرجع بنایا ہے‘ آنے والے بلکہ ارادہ کرنے والے لوگ ان کےدروازہ کی خیر کا کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہیں‘ ان کی خانقاہیں ایسی دکانیں ہیں جہاں ہر آنے والے کا نفع یقینی ہے۔ بقول شاعر: ؎
میخانہ کا محروم بھی محروم نہیں ہے
اہل اللہ کے یہاں آنے والے ہر شخص کو ان نورانی شخصیات سے جو فیض کم سے کم ملتا ہے وہ یہ ہے کہ اپنی ناکارگی اور گناہوں پر ندامت اور آخرت میں جواب دہی کی فکر پیدا ہوجاتی ہے۔ لکھنو کے یہ تاجر جو حضرت سے ملاقات کیلئے لکھنو سے چلے تو یہ احساس تھا کہ ہم تو دنیادار ہیں ہم جیسے گندے لوگ ایک اللہ والے سے ملنے کے لائق کہاں؟ حضرت مولانا عبدالحی اپنے شیخ سے ملاقات کے اشتیاق میں ذرا تیز قدموں سے چل کر جلدی سے مسجد میں داخل ہوگئے‘ یہ تاجر اور رئیس حضرات احساس ندامت میں ڈرتے ڈرتے ذرا پیچھے رہ گئے اور خیال یہ بھی آرہا تھا کہ ہم جیسے گندے دنیاداروں سے حضرت ملنا بھی پسند فرمائیں گے یا نہیں؟ حضرت شاہ صاحب مسجد کے اندر والی سہ دری میں دروازہ کی طرف منہ کیے ہوئے تشریف رکھتے تھے۔ لکھنو کے یہ تاجر مسجد کے صحن میں داخل ہوئے تو حضرت بے اختیار چیخ پڑے: نکالو‘ نکالو! یہ لوگ سمجھے حضرت ہم سے ملنا پسند نہیں فرماتے اس لیے فرمارہے ہیں کہ ان نالائقوں کو نکالو۔ فوراً مسجد سے باہر چلے گئے اور حد درجہ مایوسی کے ساتھ واپس اپنےر کشہ میں بیٹھ گئے کہ لکھنو واپس چلتے ہیں۔
حضرت مولانا عبدالحی نے حضرت شاہ صاحب سے ملاقات کی تو حضرت نے معلوم کیا: کیا اکیلے ہی آئے ہیں؟ مولانا نے عرض کیا: کچھ تاجر حضرات بھی ساتھ ہیں‘ پوچھا وہ کہاں ہیں؟ جواب دیا: حضرت نے فرمایا کہ نکالو تو وہ گھبرا کر واپس چلے گئے‘ حضرت نے ایک خادم کو جلدی دوڑایا‘ دیکھو ہمارے یہاں لکھنو سے مہمان آئے ہیں ان کو جلدی بلاؤ‘ خادم دوڑا اور حضرت کا حکم سنا کر ان کو لے آیا۔ حضرت نے تاجروں سے پوچھا کہ آپ مجھ سے ملنے ٓآئے تھے بغیر ملے کیوں واپس جارہے ہیں۔ ان بیچاروں نے جواب دیا کہ مسجد میں داخل ہوئے تو ہم نے سوچا کہ دنیا کے کتوں سے حضرت ملنا پسند نہیں فرماتے‘ اس لیے فرمارہے ہیں ان گنہگاروں کو نکالو نکالو‘ حضرت رونے لگے اور فرمایا: میرے بھائی مجھ سے زیادہ کون گنہگار ہوگا۔ اصل میں میں نے دیکھا کہ آپ سنت کے مطابق پہلے دایاں پاؤں رکھنے کے بجائے بایاں پاؤں داخل کررہے ہیں تو بے اختیار میں چیخ پڑا کہ میرے بھائی اللہ کے گھر میں بایاں پاؤں داخل کررہے ہو‘ اس کو نکالو‘ پہلے دایاں پاؤں مسجد میں داخل کرو۔ سچے نبی ﷺ کا ارشاد ہے:۔ لایومن احدکم حتی یکون ھواہ تبعالما جئت بہ۔ ترجمہ:’’کوئی آدمی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کی خواہش اس دین کے تابع نہ ہوجائے جس کو میں لے کر آیا ہوں‘‘یعنی سنت طبیعت بن جائے‘ سنت کے طبیعت بننے کا مطلب یہ ہے کہ مومن سے اس کا تو امکان نہیں کہ وہ خلاف سنت کام کرے بلکہ اگر خلاف سنت ماحول اس کو ملے‘ خلاف سنت شادیاں ہورہی ہوں‘ خلاف سنت صورتیں‘ خلاف سنت معاملات‘ خلاف سنت معاشرت اس کو دکھائی دے تو اس کا دم گھٹنے لگے‘ اس کی چیخ نکل جائے‘ جس طرح حضرت شاہ صاحب کی خلاف سنت پاؤں داخل کرتے دیکھ کرچیخ نکل گئی تھی کہ نکالو نکالو۔۔۔ کاش! اتباع سنت اور مزاج سنت کا کوئی حصہ ہمیں بھی نصیب ہوجائے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں