غار کے دہانے پر پہنچ گئے جس میں چمگادڑوں نے بسیرا کررکھا تھا۔ غار میں جگہ جگہ جانوروں کے ڈھانچے پڑے ہوئے تھے۔ یہ ڈھانچے اور ہڈیاں غالباً ان جانوروں کی تھیں جو یہ نہیں جانتے تھے کہ یہاں خونخوار چمگادڑوں کا مسکن ہے
میں نے خونخوار چمگادڑوں کے بارے میں بہت پڑھا اور سنا تھا‘ میری دلچسپی دن بدن خونخوار چمگادڑوں کے بارے میں بڑھتی ہی جارہی تھی۔ ان چمگادڑوں کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ سوتے میں انسان پر حملہ کرتی ہیں اور اس کا خون چوس لیتی ہیں۔ میں اور میرا دوست ان چمگادڑوں کی تلاش میں لاس سبینو پہنچ گئے۔ یہ مقام شمالی میکسیکو کے اس سرے پر واقع ہے جہاں اس کی سرحدیں ٹیکساس سے ملتی ہیں۔ یہ سرحدی گاؤں ایک پہاڑی پر آباد ہے۔ گھاس پھونس کے جھونپڑوں میں ریڈانڈین رہتے ہیں۔ وہ خونخوار چمگادڑوں کا ذکر ایسے کررہے تھے جیسے نیوجرسی کا ایک عام آدمی مچھروں کے بارے میں بات چیت کرتا ہے۔ سورج غروب ہوتے ہی ان جھونپڑوں کے مکین تمام دروازے بند کرلیتے کیونکہ اندھیرا ہوتے ہی خونخوار چمگادڑوں کے غول کے غول گاؤں پر ہلہ بول دیتے ہیں۔لاس سبینو میں پہلی رات ہمیں دیر تک نیند نہیں آئی۔ چمگادڑیں بار بار دروازے سے ٹکراتی تھیں۔ چند چمگادڑیں دراڑوں سے اندر آنے کی کوشش کررہی تھیں لیکن ہمارے میزبان نے اٹھ کر دراڑیں اچھی طرح بند کردیں۔
اس علاقہ کے دو رہائشی چمگادڑوں کو پکڑنے کیلئے ہمارے گائیڈ بننے پر تیار ہوگئے۔ یہ دونوں باپ بیٹا ان چمگادڑوں کے بارے میں مکمل واقفیت رکھتے تھے۔ ہماری منزل گاؤں سے دو میل کے فاصلے پر پھیلا ہوا ایک سلسلہ کوہ تھا۔دوسری صبح ہم چند گھنٹوں کی مسافت کے بعد اس غار کے دہانے پر پہنچ گئے جس میں چمگادڑوں نے بسیرا کررکھا تھا۔ غار میں جگہ جگہ جانوروں کے ڈھانچے پڑے ہوئے تھے۔ یہ ڈھانچے اور ہڈیاں غالباً ان جانوروں کی تھیں جو یہ نہیں جانتے تھے کہ یہاں خونخوار چمگادڑوں کا مسکن ہے۔ اب ہمارے چاروں طرف چمگادڑوں کی پھڑپھڑاہٹ سنائی دے رہی تھی۔ پہلے یہ غار کی دیواروں کے ساتھ چمٹی ہوئی تھیں ٹارچ کی روشنی میں ان کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے چھوٹے چھوٹے بونے خون آشام نگاہوں کے ساتھ ہمیں گھور رہے ہیں۔ انہیں ہماری موجودگی کا احساس ہوچکا تھا۔ وہ ہمارے سروں کے اردگرد منڈلارہی تھیں۔ نوجوان گائیڈ اپنا جال لہرا لہرا کر انہیں پھانسنے کی کوشش کررہے تھے۔ ایک بڑی سی چمگادڑ میری طرف لپکی تو میں نے اسے اچک لیا۔ میں نے دستانے پہنے ہوئے تھے۔ چمگادڑ کو پکڑتے ہی مجھے محسوس ہوا کہ اس کے منہ سے سفید جھاگ اڑ کر فضا میں پھیل گیا ہے۔ دراصل یہ میرے دستانے کا چمڑہ تھا جو اس نے تار تار کردیا تھا۔ کئی گھنٹوں کی کوشش کے بعد ہم پانچ چمگادڑیں پکڑنے میں کامیاب ہوگئے اور ہم نے لاکر اپنے کمرے میں بند کردیں۔
ایک دن میرا دوست غسل خانے میں چھپ گیا اورمیں بستر میں لیٹ گیا۔ ہماری پالتو چمگادڑیں چھت کے ساتھ لٹکی ہوئی تھیں۔ اچانک بڑی چمگادڑیں اڑ کر دیوار کے ساتھ چپک گئیں۔ ایک نے کمرے کا اچھی طرح جائزہ لیا اور دیوار سے اڑ کر میرے بستر پر آ بیٹھی۔ تھوڑی دیر بستر پر اِدھر اُدھر گھومنے کے بعد وہ میرے چہرے کی طرف بڑھنے لگی۔ خون پینے والی چمگادڑ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ انسانی جسم کے ایسے حصے کو تلاش کرتی ہے جہاں گوشت زیادہ ہوتا ہے۔ وہ اس حصے پر اپنی چونچ سے حملہ کرتی ہے۔ خون کی دھار بہتے ہی وہ اسے چوسنا شروع کردیتی ہے۔ جونہی اس چمگادڑ نے میرے ابھرے ہوئے عارض پر چونچ چلانا چاہی‘ میں نے مزاحمت کی۔ وہ ایک لمحے کے لیے پیچھے ہٹ گئی اور پھر اس نے میرے کان کی ایک لو میں اپنی چونچ گاڑ دی۔ اگر میرا دوست مداخلت نہ کرتا تو چمگادڑ اپنا کام کرچکی تھی۔ ان چمگادڑوں کی پرورش میں بڑی مشکل پیش آرہی تھی۔ میرا دوست صبح صبح مارکیٹ جاتا چمگادڑوں کیلئے قصاب سے تھوڑا سا خون حاصل کرتا اور پھر ڈراپر کے ذریعے چمگادڑوں کے منہ میں قطرہ قطرہ خون ٹپکاتا رہتا۔ یہ چمگادڑیں نہ تو کسی ذہانت کا مظاہرہ کرتی تھیں اور نہ یہ اندازہ ہوتا تھا کہ یہ ہم سے کبھی مانوس ہوسکیں گی۔ انہیں ہروقت خون کی تلاش رہتی تھی۔ اس لیے تنگ آکر میں نے ان سب کو آزاد کردیا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں