بس! اس لیے میں نے چاہا کہ میں اسکو ایسے معاف کردوں کہ قیامت میں ہم دونوں کا مقدمہ درج ہی
نہ ہو اور مجھے انصاف دلوانے کی وجہ سے آقا ﷺ کو تکلیف نہ ملے اور انتظار نہ کرنا پڑے۔
ایک دفعہ کالج میں میری ایک لڑکی سے ملاقات ہوئی‘ وہ سیکنڈ ایئر میں تھی اور میں تھرڈ ایئر میں‘ اس کی عادت تھی کہ کالج میں ہر آنے جانے والی لڑکی کو بہت پیار سے کھڑے ہوکر اونچی آواز میں سلام کرتی‘ اتنا پیارا اور مہذب انداز کہ حیران کردیتی اور ایسے محسوس ہوتا جیسے ہر لڑکی اس کی سگی رشتہ دار ہے۔ لڑکیاں حیران ہوں کہ یہ کیوں ہمیں سلام کرتی ہے؟ اسے تو ہم جانتے ہی نہیں تو وہ اکثر بڑے پیار سے جواب دیتی کہ تم بھی مسلمان ہو اور میں بھی مسلمان ہم سب آپس میں بہنیں ہیں۔۔۔ تو کیا تم اپنی اتنی قریبی رشتے دار کو بھی نہیں جانتی۔۔۔ اس کی اس عادت کی وجہ سے ہر لڑکی اس کی عزت کرتی اور سنت کا ثواب الگ کماتی اور اب میں آپ کو معافی کا ایک قصہ اس کی زبانی سناتی ہوں:۔
میں آپ کو ایک بزرگ کا واقعہ سناتی ہوں جو میں نے کہیں پڑھا تھا کہ ایک بزرگ جو کہ نہایت ضعیف اور لاچار تھے لیکن اسے حج کی شدید تمنا تھی‘ اس کیلئے اُس نے بہت عرصے سے ایک ایک روپیہ جمع کر کے حج کا ارادہ کیا جب وہ حج کیلئے روانہ ہوا تو اس کا مال اس کے پاس ایک تھیلے میں تھا جو وہ اپنے ساتھ لیے ہوئے تھا۔ سفر کے دوران راستے میں ایک نوجوان کو شرارت سوجھی‘ اس نے وہ تھیلا بزرگ سے چھین لیا اور بھاگ گیا کہ اچانک بھاگتے بھاگتے اُس کی آنکھیں بے نور ہوگئیں‘ نوجوان اندھا ہوگیا اور آگے جانے سے معذور‘ اپنی حالت محسوس کرکے نوجوان کو بہت پشیمانی ہوئی‘ بہت رویا دھویا اور لوگوں سے فریاد کی کہ راستے میں فلاں بزرگ کے ساتھ میں نے زیادتی کی جس کی مجھے سزا مل گئی ہے۔ خدارا! آپ لوگ جاکر اُس بزرگ کو تلاش کرلیں اور میری طرف سے معافی مانگ لیں‘ اس کا تھیلا بھی اُسے دے دیں اور التجا کروادیں کہ میری نظر واپس آجائے۔ لوگ تلاش کرنے لگے تو پتہ چلا کہ وہ بزرگ مسجد میں تشریف فرما ہیں‘ وہ لوگ انتظار کرنے لگے جب بزرگ باہر آئے تو لوگ جمع ہوگئے اور ساری بات ان سے کہہ دی اور نوجوان کیلئے معافی مانگی۔ اُس پر بزرگ فرمانے لگے کہ بھئی میں نے تو اس کو اسی وقت معاف کردیا تھا جس وقت یہ تھیلا چھین کر وہ بھاگ گیا کیونکہ محشر میں میرے اور آپ کے آقا حضور نبی اکرم ﷺ اُس وقت تک جنت میں نہیں جائیں گے جب تک اپنے سب امتیوں کو جنت میں داخل نہ کروادیں تو میں نہیں چاہتا کہ اتنے سارے امتیوں کے فیصلوں کے انتظار کے علاوہ آقا ﷺ میرے اور اس نوجوان کے درمیان فیصلے کے باعث بھی جنت سے دیری برداشت کریں۔ بس! اس لیے میں نے چاہا کہ میں اسکو ایسے معاف کردوں کہ قیامت میں ہم دونوں کا مقدمہ درج ہی نہ ہو اور مجھے انصاف دلوانے کی وجہ سے آقا ﷺ کی تکلیف نہ ملے اور انتظار نہ کرنا پڑے۔
سبحان اللہ! کیا محبت رسولﷺ تھی کیا خلوص نیت تھی‘ کتنی پیاری سوچ تھی۔یہ سن کر میں نے اُس لڑکی سے کہا کہ بھئی اب تو کسی کو معاف کرنا کوئی مشکل ہی نہیں رہا‘ جو کوئی زیادتی کرے گا بس اسی سوچ سے اس کو معاف کرتے رہیں گے۔ قارئین! اگر ہم سب اسی سوچ کو اسی نیت کو اپنالیں تو خود اندازہ لگائیں کہ اس سوچ اور اس نیت پر ہمارا اللہ اور نبیﷺ ہم سے کتنا راضی اور خوش ہونگے اور آخرت میں اپنی شفاعت اور قرب عطا فرمائیں گے۔ انشاء اللہ۔ واقعی معاف کرنا اتنا آسان ہوگیا کہ پوچھیں مت۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں