اگر آپ اپنے بچے کے لیے کوئی مہنگا ٹیوٹر رکھ رہی ہیں تو ساری ذمہ داری اسی کے کاندھوں پر منتقل کرکے ایک کونے میں نہ بیٹھی رہیں جب آپ کے بچے کی ٹیوٹرجائے تو بچے کاکام ضرور دیکھیں۔ بچے کا ہوم ورک اگر ٹیوٹر کے آنے سے پہلے مکمل ہوچکا ہے تب بھی اسے ایک دفعہ دکھائیں۔
بچوں کا خراب رزلٹ ( نتیجہ) کوئی چھوٹا موٹا مسئلہ نہیں۔ ہر سال آپ ان دنوں میں ایسے ہی حالات سے دوچار ہوتے ہیں آپ کا بچہ گھر میں جا بجا ذہانت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ وہ آپ کا کہنا بھی مانتا ہے مگر امتحانات کے زمانے میں اس کے پیٹ اور سر میں درد ہونے لگتا ہے۔ وہ تیاری کے سخت معیارات سے جان چھڑانے کی کوشش کرتا ہے۔ آپ سوچتی ہیں کہ یہ وہی بچہ ہے جو اپنے دوستوں میں بے حد مقبول ہے۔ ٹیوشن میں دلچسپی لیتا ہے باہر آنے جانے اور خریداری کے وقت فعال نظر آتا ہے تو پھر اس بچے سے مایوس ہونے کی ضرورت قطعی نہیں۔ اس میں خداداد صلاحیتیں بہرحال موجود ہیں وہ موجودہ نتائج سے بہتر نتائج بھی دے سکتا ہے۔ اس ضمن میں دیکھا گیا ہے کہ والدین سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں اور اس دور میں وہ بچے پر ایک زیادہ فیس طلب کرنے والا ٹیوٹر تعینات کردیتے ہیں جی ہاں !کم از کم ایسا بچہ جس کے امتحانی نمبر گزشتہ برس کی کارکردگی سے خاصے کم آئے ہوں وہ اس نئے ٹیچر کو ایسے سخت گیر افسر سے تشبیہ دیتا ہے جس کی ماتحتی میں وہ پرسکون نہیں رہ سکتا۔
اگر آپ اپنے بچے کے لیے کوئی مہنگی ٹیچر رکھ رہی ہیں تو ساری ذمہ داری اسی کے کاندھوں پر منتقل کرکے ایک کونے میں نہ بیٹھی رہیں جب آپ کے بچے کی ٹیچرجائے تو بچے کا کام ضرور چیک کریں۔ بچے کا ہوم ورک اگر ٹیچر کے آنے سے پہلے مکمل ہوچکا ہے تب بھی اسے ایک دفعہ دکھائیں۔ ذاتی ٹیوشن کا مطلب ہے آپ کے بچے پر کوئی سنجیدہ شخصیت انفرادی توجہ دینے آئی ہے‘ ٹیوٹر جب بچے کو کسی مضمون میں دلچسپی نہ لیتا ہوا پائے تو دلچسپی کا انجکشن نہیں لگایا کرتا۔ یہ پڑھنے کا ذوق و شوق بچے کو شعوری کوشش سے آتا ہے مگر اس کیلئے بہترین اخلاقی مدد والدین ہی کرسکتے ہیں۔ اگر آپ مشترکہ خاندانی نظام میں رہتے ہیں تو گھر کا ماحول ہی بچے کو اس ذہنی بحران سے نکال دے گا۔ سب بچے مشترکہ بیٹھک میں اپنے بستے کتابیں لے کر بیٹھیں گے اور سنجیدگی سے پڑھائی کا ایک ماحول بنے گا۔ ہر بچہ ہوم ورک مکمل کرے گا مگر ماؤں کی ذمہ داری انہیں ایک کمرے میں جمع کرلینے سے ختم نہیں ہوجائے گی۔ ماؤں کو باری باری اس کمرے میں آنا چاہیے تاکہ بچے کی انفرادی مشکلات پر توجہ دے سکیں۔ بسا اوقات مائیں بہت مصروف ہوتی ہیں لیکن آپ کی پہلی ترجیح آپ کے بچے کی شخصیت ہونی چاہے آپ اسے نظر انداز کریں نہ ڈھیل دیں۔ اگر آپ اس وقت رات کے کھانے کی فکر میں گھلتی رہیں اور کچن کی ہو رہیں تو بچہ خود کو تنہا محسوس کرکے کتابیں بیگ میں بھرلے گا اور گلی میں کھیلنے کودنے نکل جائے گا۔
آپ کیا سمجھتی ہیں؟ اگر ایسا ہو تو بچے ابلاغ کی کمی کا شکار اور جذباتی رشتوں سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں پھر انہیں والدین کی قربتیں بھی تقسیم شدہ معلوم ہوتی ہیں ممکن ہے ایک وقت ایسا آئے گا کہ آپ اسے سکول کے بعد وہیں اسی عمارت میں کسی مضمون کی ٹیوشن پڑھنے پر اکسائیں بچہ اس وقت اس حد تک نڈھال ہوچکا ہوتا ہے کہ اسے دنیا زہر لگتی ہے۔ یہ آپ غلط کررہی ہیں یہ وقت اس کے نہانے دھونے‘ آرام کرنے‘ کھانا کھانے اور چھوٹا موٹا کھیل کھیلنے کا ہے۔ آپ بچے پر اضافی بوجھ لاد کر کبھی من چاہا نتیجہ حاصل نہیں کرسکیں گی اور یہ ایسے ممکن ہے کہ نتیجہ آنے پر اس کی شخصیت کو مثبت انداز فکر سے محسوس کیجئے۔ مار پیٹ یا سخت الفاظ میں سرزنش کے انداز انتہائی حاکمانہ طرز عمل ہوتا ہے۔ یہ مسائل کا حل بھی نہیں ہے۔ آپ علیحدہ کمرے میں بچے سے بات کریں۔ اس کے مسائل زیربحث لائیں۔ کچھ مسائل تو آپ کو پتا ہی ہوں گے کہ جیسے اسے حساب کے سوال حل کرنے میں دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آج آپ اسے نرمی سے ڈانٹ بھی سکتی ہیں۔ کوئی سن نہیں رہا ہے‘ سوائے بچے کے مگر اسے بدتمیز نااہل‘ جاہل اور احمق وغیرہ کہنے سے اس کے اندر اشتعال انگیزی اور غم و غصہ یا نفرت کے احساسات بیدار ہوں گے اور نتیجہ صفر رہے گا۔ بچہ بدتمیز بن کر دکھانے اور ترکی بہ ترکی جواب دے گا۔
رات کو سوتے وقت مسائل زیربحث آئیں تو: یہ اچھا وقت ہے۔ بچے کا گریڈ بہت زیادہ خراب ہو اور بچہ صبح کے وقت آپ کی باتیں نہ سمجھ پایا ہو تب اسے سوتے وقت بتانے کی ضرورت ہے کہ ’’پیارے بچے مجھے تمہارا رزلٹ کا رڈ دیکھ کر آج بہت شرم محسوس ہوئی ہے کیا تمہیں اپنے دوستوں اور اساتذہ کے سامنے اپنی بے عزتی محسوس نہیں ہوئی۔‘‘زیادہ بات کرنے کی ضرورت نہیں آپ کچھ دیر اس کے بستر پر رہیں اسے اپنی آغوش کی حرارت میں جذباتی تسکین لینے دیں اور عہد کریں کہ نئے سال میں ہم دونوں مل کر تعلیمی مسائل حل کرلیں گے۔ اچھا سا محنتی اور توجہ دینے والا کوئی ٹیوٹر رکھیں گے یا کمپیوٹر اور بیرونی سرگرمیوں کو بالکل ختم نہیں مگر کچھ دورانیہ کم کریں گے اب اپنے بچے کو سات سے آٹھ گھنٹے سونے پر آمادہ کرکے بستر سے باہر آجائیں۔ بچوں کو رات کو جلدی سونے اور علی الصبح بیدار ہونے کی عادت ڈالنی پڑے گی۔ خاص کر اتوار کی شب دیر تک تفریحات میں مشغول رکھنے سے احتراز کریں۔ اگر بچوں کو رات کو پڑھنے کی عادت ہے اور دیر تک ہوم ورک مکمل کرتے ہیں تو پھر انہیں دوپہر میں نیند پوری کرلینی چاہیے۔ ایسی صورت میں بچے دوپہر کو ایک سے ڈیڑھ گھنٹے باقاعدہ سوئیں۔ یہ روٹین ایک دفعہ سیٹ ہوجائے پھر بچے شام گہری ہونے پربھی متحرک اور ہشاش بشاش نظر آتے ہیں۔
پہلی ترجیح اگر بچہ ہے تو پھر اس کی تعلیم کیوں نہیں؟: ایسے والدین جو دونوں ملازمت پیشہ ہوں یا اس قدر سماجی تقریبات میں مصروف رہتے ہوں کہ انہیں اپنی خانگی زندگی کے بگاڑ کی وجہ سمجھ میں نہ آتی ہو۔ یہ صورتحال خطرناک ہے۔ بچوں کو اپنے قریب لانے ان کے تعلیمی مسائل حل کرنے اور آئندہ زندگی میں انہیں مقابلہ کی بھرپور فضا کیلئے تیار کرنا آپ کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ آپ خود ان کے ساتھ بیٹھ کر یہ ہوم ورک یا کلاس ورک دہرانے کی عادت ڈالیں۔ ڈکشنری سے راہ استوار رکھیں۔ ٹائم ٹیبل: صرف سکول ہی نہیں گھر میں مختلف کاموں کے اوقات کار کاتعین کرنا ضروری ہے۔ آپ نے بھی ناشتہ‘ دوپہر کے کھانے‘ نہانے‘ گھر صاف کرنے اور کھانا پکانے کے وقت مقرر کرنے ہوں گے۔ بچوں کی تربیت کے ضمن میں بھی یہ خیال پیش نظر رکھیں۔ انعام واکرام: ویسے تو بچے اس عہد کے خاصے چالاک ہوتے ہیں تاہم یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ جب بھی بچہ ماہانہ ٹیسٹوں میں کوئی نمایاں کامیابی حاصل کر آئے یا ہوم ورک اورکلاس کی کارکردگی بہتر ہونے پر اسے کاپی پر لال ستارہ یا شاباش جیسے لفظ لکھے ملیں‘ آپ ان کی پسندیدہ ڈش بنالیں یا بازار سے کچھ منگوالیں‘ مقصد بچے کی حوصلہ افزائی کرنا ہے لیکن ایک حد تک ہی اعزاز واکرام سے نوازا جانا چاہیے خواہ آپ کی مالی حیثیت بہت اچھی ہو مگر آپ کو دیکھنا یہ بھی ہے کہ بچے کو اصل ضرورت کس چیز کی ہے‘ بچے تو بچے ہم بڑے بھی اپنی چھوٹی یا بڑی کامیابی اور اچھی کارکردگی پر زبانی کلامی تعریف بھی چاہتے ہیں
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں