میں ان کے اوصاف حمیدہ سے واقف ہوں‘ وہ گھر آتے ہیں تو ہنستے ہوئے‘ باہر جاتے ہیں تو مسکراتے ہوئے‘ کچھ مانگو تو بخل نہیں کرتے اور خاموش رہو تو مانگنے کا انتظار نہیں کرتے‘ اگر کوئی کام کردو شکرگزار ہوتے ہیں اور خطا ہوجائے تومعاف کردیتے ہیں
حضرت سالم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اپنی خوش الحانی و حفظ قرآن کے باعث صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین میں نہایت عزت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے‘ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی تشریف آوری سے پہلےجس قدر مہاجرین مدینہ پہنچے تھے‘ (حضرت) سالمؓ مسجد قبا میں ان کی امامت کرتے تھے۔(بخاری کتا ب الصلوٰۃ باب امامۃ العبدوالمولی)
حضرت سالم رضی اللہ عنہٗ کی خوش الحانی: حضرت سالم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ ان بزرگوں میں تھے جو طبقہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ میں فن قراءت کے امام سمجھے جاتے تھے‘ آنحضرت ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ قرآن چار آدمیوں سے حاصل کرو یعنی ابن مسعود (رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ) سالم مولیٰ ابی حذیفہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ) ابی بن کعب اور معاذ بن جبل سے۔ خدائے پاک نے خوش گلو اس قدر بنایا تھا کہ جب آیات قرآنی تلاوت فرماتے تو لوگوں پر ایک محویت طاری ہوجاتی اور راہ گیر ٹھٹھککر سننے لگتے‘ ایک دفعہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہونے میں دیر ہوئی‘ آپ ﷺ نے توقف کی وجہ پوچھی تو بولیں کہ ایک قاری تلاوت کررہا تھا اس کے سننے میں دیر ہوگئی اور خوش الحانی کی اس قدر تعریف کی کہ آنحضرت ﷺ خود چادر سنبھالے ہوئے باہر تشریف لے آئے دیکھا تو سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہیں۔ آپ ﷺ نے خوش ہوکر فرمایا خدا کا شکر ہےکہ اس نے تمہارے جیسے شخص کو میری امت میں بنایا۔ (اصابہ تذکرۂ صالم رضی اللہ عنہٗ)
وہ مسجد قباء کے امام تھے‘ مہاجرین اولین جن میں حضرت ابوبکر وحضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین بھی شامل تھے‘ اکثر ان کے پیچھے نمازیں پڑھتے تھے۔ غرض قرآن کریم کی برکت اور علم و فضل نے ان کو غیرمعمولی عظمت و شرف کا مالک بنادیا تھا۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ ان کی بے حد تعریف فرمایا کرتے تھے‘ یہاں تک کہ جب دم واپسی کے وقت انہوں نے منصب خلافت کے متعلق وصیت فرمائی تو کہا ’’اگر سالم موجود ہوتے تو میں اس مسئلہ کو مجلس شوریٰ میں پیش نہ ہونے دیتا۔‘‘ یعنی وہ ان کو اپنا جانشین بناتے۔ (اسدالغابہ جلد۲ ص۲۴۶)
ایک ظرف جو علم سے بھرا ہوا: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے تبحرعلمی و ملکہ اجتہاد کے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین معترف تھے‘ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ جب ان کو دیکھتے تو چہرہ بشاش ہوجاتا اور فرماتے:’’ایک ظرف ہے جو علم سے بھرا ہوا ہے‘‘ایک مرتبہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے چند کوفیوں نے ان کے تقویٰ‘ حسن خلق اور تبحر علمی کی بے حد تعریف کی‘ انہوں نے پوچھا:’’کیا تم سچے دل سے کہتے ہو؟‘‘ بولے ’’ہاں!‘‘ فرمایا: ’’تم لوگوں نے عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ) کی جو کچھ تعریف کی ہے‘میں ان کو اس سے بھی بہتر خیال کرتا ہوں۔ (طبقات ابن سعد)
مہمان نوازی حضرت طلحہ رضی اللہ عنہٗ کا خاص شیوہ: مہمان نوازی حضرت طلحہ رضی اللہ عنہٗ کا خاص شیوہ تھا‘ ایک دفعہ سنی عذرہ کے تین آدمی مدینہ آکر مشرف بہ اسلام ہوئے‘ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: کون ان کی کفالت کا ذمہ لیتا ہے؟ حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے کھڑےہوکر عرض کی ’’میں یارسول اللہ ﷺ‘‘ اور تینوں نومسلم مہمانوں کو خوشی خوشی گھر لے آئے‘ ان میں سے دو نے یکے بعد دیگرے مختلف غزوات میں شہادت حاصل کی اور تیسرے نے بھی ایک مدت کے بعد حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے مکان میں وفات پائی۔ ان کو اپنے مہمانوں سے جو انس پیدا ہوگیا تھا اس کا اثر یہ تھا کہ ہر وقت ان کی یاد تازہ رہتی تھی اوررات کے وقت خواب میں ان ہی کا جلوہ نظر آتا تھا‘ ایک روز خواب دیکھا کہ وہ اپنے تینوں مہمانوں کے ساتھ جنت کے دروازہ پر کھڑے ہیں لیکن جو سب سے پیچھے مرا تھا وہ سب سے آگے ہے اور جو سب سے پہلے شہید ہوا تھا وہ سب سے پیچھے ہے‘ حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو اس تقدم وتاخر پرسخت تعجب ہوا‘ صبح کے وقت سرور کائنات ﷺ سے خواب کا واقعہ بیان کیا تو ارشاد ہوا‘ اس میں تعجب کی کیا بات ہے‘ جو زیادہ دنوں تک زندہ رہا اس کوعبادت و نیکو کاری کا زیادہ موقع ملا‘ اس لیے وہ جنت کے داخلہ میں اپنے ساتھیوں سے پیش تھا۔
حسن معاشرت: حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اپنے حسن معاشرت کے باعث بیوی بچوں میں نہایت محبوب تھے‘ وہ اپنے کنبہ میں جس لطف و محبت کے ساتھ زندگی بسر کرتے تھے‘ اس کا اندازہ صرف اس سےہوسکتا ہے کہ عتبہ بن ربیعہ کی لڑکی ام ابان سے اگرچہ بہت سےمعزز اشخاص نے شادی کی درخواست کی لیکن انہوں نے حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو سب پر ترجیح دی‘ لوگوں نے وجہ پوچھی تو کہا ’’میں ان کے اوصاف حمیدہ سے واقف ہوں‘ وہ گھر آتے ہیں تو ہنستے ہوئے‘ باہر جاتے ہیں تو مسکراتے ہوئے‘ کچھ مانگو تو بخل نہیں کرتے اور خاموش رہو تو مانگنے کا انتظار نہیں کرتے‘ اگر کوئی کام کردو شکرگزار ہوتے ہیں اور خطا ہوجائے تومعاف کردیتے ہیں۔ (کنزالعمال جلد۶ص۴۱۳)
ذوق علم: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو علم کی بڑی جستجو تھی‘ ان کا ذوق علم حرص کے درجہ تک پہنچ گیا تھا ان کی علمی حرص کا اعتراف خودآنحضرت ﷺ نے فرمایا: ایک مرتبہ انہوں نے آنحضرت ﷺ سے سوال کیا کہ ’’ قیامت کے دن کون خوش قسمت آپ ﷺکی شفاعت کا زیادہ مستحق ہوگا فرمایا کہ ’’ تمہاری حرص علی الحدیث کو دیکھ کر میرا پہلے سے خیال تھا کہ یہ سوال تم سے پہلی کوئی نہ کرے گا۔ (مسند احمد ابن حنبل جلد۲ ص۳۷۳)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں