حضرت مولانا دامت برکاتہم العالیہ عالم اسلام کے عظیم داعی ہیں جن کے ہاتھ پر تقریباً 5 لاکھ سے زائد افراد اسلام قبول کرچکے ہیں۔ان کی نامور شہرہ آفاق کتاب ’’نسیم ہدایت کے جھونکے‘‘ پڑھنے کے قابل ہے۔
پرانے کھنڈر کی چھوٹی لکھوری اینٹوں سے ہم دونوں دکان بناتے باقاعدہ تختے ڈال کر کچی چھت تیار کرتے‘ دکان کے اندر چھوٹی چھوٹی الماریاں بناتے‘ دکان تیار کرکے یہ حقیر اور منصور بھائی (جو اب الحمدللہ ڈاکٹر منصور ہیں) پھوپھی اماں کے پاس جاتے اور پھوپھی اماں کو بلا کر اپنی دکان دکھاتے اور ان سے درخواست کرتے کہ دکان تیار ہے اب سامان لانے کیلئے ہمیں پیسے درکار ہیں‘ وہ دکان کی تعمیر پر ہمیں شاباشی دیتیں اور بڑی شفقت کے ساتھ کبھی پانچ اور کبھی دس روپے دکان میں سامان لانے کی لیے دیتیں۔ ہم دونوں کسی بڑی دکان اور کبھی کھتولی شہر جاکر دکان کا سامان خرید کر لاتے ٹافی‘ نمکین‘ چھوٹی بریڈ‘ کرکرے‘ مرمرے بسکٹ‘ کچھ کھلونے‘ لاکر دکان سجادی جاتی‘ دکان مع سامان کے تیار ہوتی تو خریداروں اور گاہکوں کی ضرورت پڑتی‘ کچھ نہ کچھ بچے بھی شوق سے اپنے والدین سے پیسے لے کر خریداری کیلئے آتے مگر ہمارے لیے سب سے بڑی خریدار پھوپھی اماں ہی ہوتی تھیں ہم لوگ ان کو بلا کر لاتے وہ پیسے لے کر آتیں اور دو تین بار میں سب سامان خرید لیتیں اور خرید کر وہ بچوں کو بلاتیں اور تقسیم کردیتیں اور سب سے زیادہ ہم دونوں کو دیتیں ہم کچھ کھاتے اور بچا کر پھر دکان میں سجادیتے جس کو وہ دوسرے وقت میں خرید کر ہمیں کھلادیتیں‘ پھوپھی اماں منصور بھائی کی پھوپھی اماں تھیں‘ اس راقم سطور کی بھی وہ رشتہ میں بہن ہوتی تھیں مگر ہم سب ان کو پھوپھی اماں کہتے تھے ان کی کافی بڑی عمر ہوئی ان کا انتقال ہوا تو یہ حقیر ان کے جنازہ میں شریک تھا اپنے بچپن کے دوست ڈاکٹر منصور صاحب سے پھوپھی اماں کی مثالی شفقت اور ممتا کا یہ حقیر ذکر رہا تھا خصوصاً دکان میں پیسے دے کر سودا ڈلوانا اور پھر ہمیں ہی دے دینا۔ ان کی حد درجہ احسان مندی اور ان کی محبت کے عظمت کے احساس کے ساتھ تذکرہ چل رہا تھا کہ اچانک قرآن حکیم کی یہ آیت مبارکہ جیسے کسی نے دکان میں پھونک دی ہو اِنَّ اللہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَہُمْ وَ اَمْوٰلَہُمْ بِاَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃَ (توبہ 111) (بے شک اللہ نے مومنین سے ان کی جانیں اور ان کا مال جنت کے بدلے میں خرید لیا ہے)
وہ ارحم الراحمین رب کریم جس نے دنیا میں اربوں پھوپھیوں‘ نانیوں اور ماؤں کے دل میں اپنی رحمت اور کرم کے سمندر میں سے شفقت اور رحم سے بھرے چند قطرے عطا کیے اس کی شان رحمت پر قربان جائیے کہ ہمیں وجود بخشاء بلاطلب ایمان و اسلام کی نعمت سے نوازا اور پھر اہل ایمان کے اس اپنے عطا کردہ جسم و مال کو جنت جیسی قیمت سے‘ جس کی عظمت یہ کہ کسی آنکھ نے اس جیسی چیز نہ دیکھی‘ نہ کسی کان نے سنی اور نہ کسی کے دل میں اس کا خیال آیا اور جو جائے رضا اور جائے دیدار الٰہی ہے اس کے بدلہ خرید بھی خود لیا اور پھر صد فیصد ختیار کے ساتھ ہمارے ہی سپرد کردیا۔
مرا سر تن ہمہ عیبم‘ بدادی و خریدی تو
زہے کالائے پر عیب و، زہے لطف خریداری
اس وقت سے آج تک اس حقیر کو حد درجہ شرمندگی ہے کہ ایسے کریم مولا کے احسان در احسان کے بعد جنت کے بدلے بکے ہوئے اس جسم و مال سے‘ ایسے کریم مالک کی نافرمانی اور اس عطا کے باوجود ناشکری اور ذرا سی تکلیف اور مشکل میں بے صبری کیسی کم ظرفی ہے۔ ایسے رب کریم کی محبت میں اور اس کے انعامات کا شکر بجالانے کے لیے آدمی جان اور مال قربان بھی کردے تو حق کہاں ادا ہونے والا ہے۔
جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں