اکثر دیکھا گیا ہے کہ بیوی کے ماں باپ اپنی بیٹی کے ساتھ تو زیادہ تعلق اور اپنائیت کا اظہار کرتے ہیں لیکن داماد کو غیریت کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ لہٰذا داماد اپنے آپ کو بیوی اور اس کی ماں باپ کے درمیان ایک طرح کا غیرمحسوس کرتا ہے
وہ ایک غریب لڑکا تھا۔ ایک فارم پر مزدوری کا کام کرتا تھا۔ حسن اتفاق سے اس کی شادی قصبے کے ایک امیر گھرانے کی لڑکی سے ہوگئی۔ لڑکی کی ماں اسے حقیر سمجھ کر اس کو پسندنہیں کرتی تھی اور کھلم کھلا اپنے داماد سے نفرت کا اظہار کیا کرتی۔ لڑکا اپنا الگ گھر بسانے کی استطاعت نہیں رکھتا تھا لہٰذا اسے 30/32 سال بطور گھر داماد مجبوراً گزارنے پڑے۔ بعدازاں میاں بیوی کینساس شہر چلے گئے اور وہاں سے اس لڑکے کی قسمت نے جو پلٹا کھایا سیدھا وائٹ ہاؤس جامقیم ہوا۔ یہ غریب لڑکا امریکہ کا صدر آنجہانی ہیری ٹرومین تھا لیکن اس کی ساس نے یہاں بھی اس کا پیچھا نہ چھوڑا۔ یہاں بھی اس کی حکمرانی چلتی تھی صدر کی بیٹی نے ایک بار ساس کے ہاتھوں اپنے باپ کی قابل رحم حالت کا یوں تجزیہ کیا تھا: ’’میرے باپ پر یہ ایک بہت بڑا بوجھ تھا لیکن انہوں نے یہ سب کچھ برداشت کرنے کی عادت بنالی تھی کیونکہ ان کو میری ماں سے بہت پیار تھا۔‘‘
مشہور مدبر سیاست دان اور انگلستان کے نامور وزیراعظم ونسٹن چرچل سے کون واقف نہیں۔ چرچل کی جب شادی ہوئی تو ہنی مون کے فوراً بعد اس کی بیوی کو پتہ چل گیا کہ اس کی شادی صرف چرچل ہی سے نہیں ہوئی بلکہ چرچل اور ان کی زور آور ماں دونوں سے ہوئی تھی کیونکہ اس کی ساس کی مرضی کے خلاف گھر کی تزئین و آرائش بھی ممکن نہ تھی لیکن ان دونوں نوجوانوں اور ان کی بیویوں نے اپنی سسرالی جنگوں کو بڑے صبرو تحمل سے سر کیا۔
ہمارے ہاں زیادہ تر مشترکہ خاندانی نظام چل رہا ہے جو آپ کی محبت اور خاندانی میل ملاپ کا اچھا ذریعہ خیال کیا جاتا ہے لیکن جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ آج ہمارے گھروں میں 90 فیصد ازدواجی ناچاقیاں میاں بیوی کے آپس کے اختلافات کی وجہ سے نہیں بلکہ فریقین کے سسرال کی بے جا اندرونی مداخلتوں اور خاندانی رقابتوں کی وجہ سے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ ہمارا معاشرتی طبقاتی معاشرہ ہے۔ نچلا طبقہ درمیانی طبقہ اور بالائی طبقہ۔ ہر طبقے میں اپنے اپنے انداز میں سسرالی جھمیلے اور رنجشیں پائی جاتی ہیں جو عمر بھر بلکہ مرنے کے بعد بھی چلتی رہتی ہیں۔ ساری عمر میاں بیوی کو ایک دوسرے سے ذہنی اور روحانی طور پر لطف اندوز ہونے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ جنسی نظام کے فطری تقاضوں کے تحت مباشرت بھی کرتے ہیں‘ بچے بھی پیدا ہوجاتے ہیں لیکن دونوں کے درمیان ایک طرح کی بیگانگی کی دیوار ہمیشہ حائل رہتی ہے۔ ایک دوسرے کا جیون ساتھی ہونے کے باوجود اجنبی ہوتے ہیں۔ دونوں کو اپنے اپنے خاندانوں سے اپنی اپنی دلچسپیاں‘ ہمدردیاں اور وابستگیاں قائم رہتی ہیں اور میاں بیوی کے آپس کے تعلقات پر بھی چھائی رہتی ہیں۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ بیوی کے ماں باپ اپنی بیٹی کے ساتھ تو زیادہ تعلق اور اپنائیت کا اظہار کرتے ہیں لیکن داماد کو غیریت کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ لہٰذا داماد اپنے آپ کو بیوی اور اس کی ماں باپ کے درمیان ایک طرح کا غیرمحسوس کرتا ہے۔ ان کے اس رویے کا احساس اس کے دل میں ہمیشہ کھٹکتا رہتا ہے اور یوں میاں بیوی کے آپسی تعلقات بھی متاثر ہوکر رہ جاتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ بیٹی تو ان کی بیٹی ہے ہی۔ لہٰذا بیٹی کی بجائے داماد پر زیادہ توجہ دیں تاکہ وہ بھی اپنے آپ کو نئے کنبے کا ایک فرد تصورکرے۔ بیوی بھی اپنے میاں کی اس الجھن کو ختم کرنے کیلئے مؤثر اقدام اٹھاسکتی ہے کہ اپنے والدین کو اپنے روئیے سے احساس دلا دے کہ وہ اور اس کا میاں اصل میں دونوں ایک ہی ہیں۔ اس طرح اس کے والدین دونوں ایک ہی ہیں۔ اس طرح اس کے والدین دونوں میں تفریق پیدا کرنے سے گریز کریں گے اور داماد کو بھی اپنی بیٹی کی طرح ہی قبول کرلیں گے اور دونوں کو اپنے فیصلے آپ کرنے کی اجازت دے دیں گے بعض اوقات بیوی کا تعلق کسی کھاتے پیتے گھرانے سے ہوتا ہے اس کے والدین عموماً اسے طرح طرح کے تحائف وغیرہ سے نوازتے رہتے ہیں لیکن بیٹی کے میاں کو عموماً نظرانداز کردیتے ہیں بلکہ بعض اوقات بیوی اگر ان تحائف میں سے کوئی چیز میاں کو دے دے تو وہ اس کا بھی بُرا مناتے ہیں۔ اس قسم کے یکطرفہ حسن سلوک سے بھی میاں بیوی کے درمیان تلخیاں پیدا ہونے لگتی ہیں جن کا اصل سبب بیوی کے ماں باپ ہوتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ اگر انہوں نے یہ شوق پورا کرنا ہی ہے تو پھر بیٹی اور داماد دونوں ہی کو اپنے تحائف سے نوازیں بصورت دیگر بیوی کو چاہیے کہ اپنے والدین سے تحائف وصول کرنے سے گریز کرے۔ بعض اوقات لڑکی کی ساس اپنی بہو کی خرید و فروخت یا دوسری سرگرمیوں پر کڑی نکتہ چینی کرتی ہے جس سے بہو اور بیٹے کے آپسی تعلقات متاثر ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ بہو کیلئے اس صورت حال سے نبٹنے کیلئے ایک نسخہ تجویز ہے جو یہ ہے کہ اپنی ساس کی خریدو فروخت اور ان کی پسندکے دیگر مشاغل کی بھرپور تعریف کرے۔ ’’امی! یہ کپڑا یا جوتا جو آپ نے خریدا ہے واقعی آپ کی پسند کی داد دینی پڑتی ہے۔ امی!آپ یہ جو گھر میں ذکرو تلاوت کرواتی ہیں سبحان اللہ! آپ تو واقعی جنتی ہیں بالکل اللہ والی ! وغیرہ وغیرہ!!!
یوں آپ کی ساس انشاء اللہ تعالیٰ آپ پر نقطہ چینی کرنا چھوڑ دے گی۔ بعض میاں بیوی اپنے سسرال والوں سے مالی اعانت پسند کرتے ہیں بعض اپنے سسر اور ساس کو اپنے ساتھ رکھنا اس لیے پسند کرتے ہیں کہ وہ ان کے گھر بار اور بچوں کی دیکھ بھال کریں گے اور وہ یکسوئی سے اپنا کاروبار کرسکیں گے۔ یاد رکھیں یہ دونوں مصلحتیں آپ کے خوشگوار سسرالی تعلقات کو بگاڑ کر رکھ دیں گی۔ آپ اور آپ کے میاں کے درمیان کشیدگی پیدا ہوجائے گی۔ مزید طرح طرح کی پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔
سسرال والوں کے ساتھ بہتر تعلقات پیدا کرنے کیلئے بہتر ہے کہ شادی سے پہلے ہی اپنے سسر اور ساس کو جس القاب سے پکارنا چاہیں متعین کرلیں۔ مثلاً انہیں ابو/ امی اچھا لگتا ہے یا انکل/آنٹی پسند ہے۔ شادی سے پہلے پہلے اپنے سسرال والوں کو اچھی طرح جاننے اور پہچاننے کی کوشش کریں تاکہ بعد میں آپ کو کوئی ذلت پیش نہ آئے اور تعلقات متاثر نہ ہوں۔ اگر آپ کو اپنی ساس یا سسر کے ساتھ اپنی سوچ یا عقیدے کے حوالے سے کوئی اختلاف ہو تو بلاتکلف اس کا اظہار کردیجئے۔ لیکن حفظ مراتب کا خیال رکھتے ہوئے اچھے انداز کے ساتھ یوں آپ کے تعلقات کشیدہ ہونے سے بچ جائیں گے اور آپ کا رسمی احترام بھی قائم رہے گا۔ ہر شوہر‘ ہر بہو‘ ہر ساس اور ہر سسر کا اللہ تعالیٰ حامی و ناصر ہو۔ آمین۔
چالیس سال بعد تین بیماریوں سے نجات
تندرست بندہ جب چالیس سال کا ہوجاتا ہے تو درج ذیل تین بلاؤں سے اسے نجات مل جاتی ہے۔ جنون،جذام، برص ۔(پرنسپل (ر) غلام قادر ہراج)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں