اکثر جانوروں میں سونگھنے کی حس بہت ہی تیز ہوتی ہے اور اسی حس کی مدد سے وہ دنیا میں بہت سی چیزوں کا سراغ لگا لیتے ہیں۔ انسانوں میں یہ حس اس قدر تیز نہیں ہوتی۔ کتوں کوشکار کرتے ہوئے دیکھ کر اس کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے وہ زمین اور فرش پر کسی بو کا تعاقب کرسکتے ہیں مگر یہ صلاحیت ہم میں نہیں پائی جاتی۔ کتا کسی بھی مجمع میں اپنے مالک کو محض اس کی بو پر تلاش کرلیتا ہے۔ کتوں کی اسی زبردست قوت سے فائدہ اٹھانے کیلئے اکثر ممالک میں پولیس ان سے سراغرسانی میں مدد لیتی ہے جس کی ان کو باضابطہ تربیت بھی دی جاتی ہے۔ ایسے تربیت یافتہ کتے کو جب کسی شخص کے تعاقب میں لگایا جانا مقصود ہو تو اس شخص کی مخصوص بو سے واقف کرادیا جاتا ہے اور کتامحض اس بو پر اس کا سراغ لگا لیتا ہے۔
اکثر چوپایوں میں سونگھنے کی حس تیز ہوتی ہے اور قوت بصارت مقابلتہً کمزور ہوتی ہے۔ برخلاف اس کے پرندوں کی قوت بصارت بہ نسبت قوت شامہ کے بہت تیز ہوتی ہے۔ دنیا میں اور بھی دوسرے جاندار ہیں جن میں سونگھنے کی حس تیز ہوتی ہے مثلاً کیڑے پتنگے وغیرہ… کیڑے اپنے مماس اور بالوں سے سونگھتے ہیں ان کی کوئی ناک نہیں ہوتی۔ اکثر کیڑے اپنے ہم نوع کو بو کے ذریعہ شناخت کرسکتے ہیں۔
شہد کی مکھیاں پھولوں اور رس اور زرگل کی خاطر جاتی ہیں جس کو وہ اپنے چھتوں میں شہد کی تیاری کیلئے ذخیرہ کرتی ہیں۔ ان مکھیوں کو پھولوں کے خوشنما رنگ اپنے طرف راغب کرتے ہیں۔ یا ان کی خوشبو… یہ مکھیاں رنگوں میں بھی تمیز کرسکتی ہیں۔ ان میں سونگھنے کی صلاحیت کا اندازہ کرنے کیلئے بھی ماہرین حیاتیات نے مختلف تجربے کیے۔ ایک باغ میں چھوٹی چھوٹی سوراخ دارڈبیوں کو ایک قطار میں رکھ دیا گیا۔ ان میں ایک ڈبیہ زرد رنگ کی تھی اور باقی سب سفید تھیں۔ صرف زردڈبیہ کے اندر شربت رکھا گیا اور دوسری خالی تھیں۔ کچھ ہی وقفہ بعد شہد کی مکھیاں آئیں بہت جلد زرد ڈبیہ میں شربت کی موجودگی کا انہوں نے پتہ لگایا دوسری دفعہ سفید ڈبیاں رکھی گئیں اور صرف ایک سفید ڈبیہ میں گلاب کی خوشبو اورشربت رکھے گئے مکھیاں اسی ڈبیہ پر پہنچیں۔ اس کے بعد ڈبیوںکو ایک قطار میں رکھا گیا جن میں صرف ایک زرد تھی اورباقی سب سفید اور صرف ایک سفید ڈبیہ میں خوشبو کو رکھا گیا۔ جب مکھیاںآئیں تو پہلے زرد ڈبیہ کی طرف گئیں لیکن قریب پہنچ کر خوشبودار سفید ڈبی کی طرف مڑگئیں۔ اس سے یہ قیاس قائم ہوا کہ مکھیاں دور ہوں تو پھولوں کو ان کے رنگ سے پہچانتی ہیں اور قریب پہنچتی ہیں تو ان کی خوشبو سے…
اکثر دودھ دینے والے جانوروں کی بصارت پرندوں کے مقابلے میں کمزور ہوتی ہے اور چند تو ایسے ہیں جو کہ انسانوں جتنا بھی نہیں دیکھ سکتے۔ ہماری آنکھیںبااعتبار عمل کے دوربین جیسی ہوتی ہیں یعنی ہم کسی شے کو دیکھتے ہیں تو اپنی دونوں آنکھوں کو اس شے پرمرکوز کردیتے ہیں۔ بعض دودھ دینے والے جانور دیکھتے وقت بالکل یہی عمل کرتے ہیں مثلاً بندر‘کتے اور بلیاں وغیرہ۔ لیکن دیگر تمام جانور اپنی آنکھیں صرف اسی وقت استعمال کرسکتے ہیں جب شے بالکل ان کے مقابل ہو۔ اگر شے کسی ایک جانب ہو تو وہ صرف اپنی ایک ہی آنکھ استعمال کرسکتے ہیں مثلاً گھوڑے‘ ہرن اور خرگوش وغیرہ۔ ان جانوروں کو قدرت نے شکار بنایا ہے شکاری نہیں اور وہ اپنے دشمن یا شکاری کے قریب سے بالکل نہیں دیکھ پاتے بلکہ کافی فاصلے سے شناخت کرلیتے ہیں۔ لیکن مچھلیوں‘ رینگنے والے جانوروں اورپرندوں میں قدرت نے یہ عجب قوت دی ہے کہ وہ اپنی ہر آنکھ کو علیحدہ علیحدہ طور پر حرکت دے سکتے ہیں۔ یہ عمل ہمارے لیے نہ صرف تعجب خیز بلکہ ناممکن ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں