ایک مغربی مفکر کا قول ہے کہ ’’اچھا سپاہی جنگ کے پہلے ہی دن لڑکر مرنہیں جاتا بلکہ وہ زندہ رہتا ہے تاکہ اگلے دن وہ دشمن سے لڑسکے۔
یہ قول صرف معروف قسم کی بڑی بڑی جنگوں کیلئے نہیں ہے۔ وہ روزانہ پیش آنے والے عام مقابلوں کیلئے بھی ہے اگر کسی کے ساتھ آپ کی ان بن ہوجائے اور آپ فوراً ہی اس سے آخری لڑائی لڑنے کیلئے کھڑے ہوجائیں تو آپ ایک بُرے سپاہی ہیں۔ آپ اپنی زندگی میں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کرسکتے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر حالات میں آدمی پہلے دن زیادہ مؤثر لڑائی لڑنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا۔ اس لیے عقل مند وہ ہے جو پہلے دن لڑائی کو اوانڈ کرے۔
وہ لڑائی کے میدان سے ہٹ کر اپنے آپ کو مضبوط اور مستحکم بنانے کی کوشش کرے تاکہ یا تو اس کے مقابلہ میں اس کا حریف اتنا کمزور ہوجائے کہ وہ لڑائی کے بغیر ہتھیار ڈال دے۔ یا وہ خود اتنا طاقتور ہوجائے کہ وہ ہر معرکہ کو کامیابی کے ساتھ جیت سکے۔
اس اصول کی بہترین مثال اسلام کی تاریخ ہے۔ پیغمبر اسلام ﷺ نے اپنی پیغمبرانہ مدت کا نصف سے زیادہ حصہ مکہ میں گزارا۔ یہاں آپ کے مخالفین نے ہر قسم کا ظلم کیا۔ مگر آپ نے ان سے ٹکراؤ نہیں کیا۔ آپ یکطرفہ طور پر صبر کرتے رہے۔ مدینہ کی طرف ہجرت کے بعد جب پھر انہوں نے ظلم کیا تو آپ نے اپنی فوج کو منظم کرکے ان سے جنگ کی۔ اس کے بعد دوبارہ آپ حدیبیہ کے موقع پر جنگ سے رک گئے اس کے بعد جلد ہی وہ وقت آیا کہ دشمن نے کسی لڑائی کے بغیر ہتھیار رکھ کر اپنی شکست مان لی۔
پہلے دن آپ نے دشمن کے خلاف صبر کیا۔ دوسرے دن آپ نے دشمن سے مسلح مقابلہ کیا اور اس کے اوپر کامیابی حاصل کی۔ حدیبیہ کے ’’دوسرے دن‘‘ تو مقابلہ کی نوبت ہی نہیں آئی۔ دشمن نے بلامقابلہ شکست مان کر ہتھیار رکھ دئیے۔
’’آج‘‘ کا صحیح مصرف آج کو قربان کرنا نہیں بلکہ آج کو استعمال کرنا ہے جو لوگ اس حکمت کو جانیں وہی اس دنیا میں بڑی کامیابی حاصل کرتے ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں