خوشی اور غم
اللہ تعالیٰ نے جب حضرت آدم علیہ السلام کا پتلا بنایا تو اس کے بنانے کے بعد اس پتلے میں انتالیس دن رنج و غم اور پریشانی کی ہوائیں چلائیں اور صرف ایک دن خوشی اور بے فکری کی ہوا چلائی۔ یہی وجہ ہے کہ انسان غمگین زیادہ اور خوش کم رہتا ہے۔ کبھی کبھی بغیر کسی وجہ کے دل اداس ہوجاتا ہے۔ دولت‘ عزت‘ شہرت ہونے کے باوجود تفکرات اور پریشانیاں انسانوں کا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔
مہمان رحمت باری تعالیٰ
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا ’’اے مالک جب تو خوش ہوتا ہے تو کیا کام کرتا ہے‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں بارش برساتا ہوں‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پھر عرض کیا جب تو اس سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں بیٹیاں پیدا کرتا ہوں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پھر عرض کیا یا باری تعالیٰ جب تو سب سے زیادہ خوش ہوتا ہے تو… اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں مہمان بھیجتا ہوں۔
موٹاپا اور خوف خدا
کسی بزرگ نے کیا خوب فرمایا ہے کہ جس شخص کے دل میں خوف خدا ہوگا اس کا جسم کبھی بھی بھاری نہیں ہوگا۔
موت اور ہنسی
ایک دفعہ کچھ لوگ قہقہہ لگا کر ہنس رہے تھے آپ ﷺ نے دیکھا تو فرمایا ’’کیا ان کو اپنی موت یاد نہیں‘‘ قہقہا لگا کر ہنسنے والوں کے دل مردہ ہوجایا کرتے ہیں۔
موت کی کیفیت
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص فرماتے ہیں کہ میرے والد (عمر بن العاص) اکثر فرمایا کرتے تھے کہ اس آدمی پر مجھے بہت تعجب ہوتا ہے جس پر موت کے آثار ظاہر ہونے لگیں اور اس کے ہوش وحواس بھی قائم ہوں اور اس کی زبان بھی بند نہ ہوئی ہو اور وہ پھر بھی موت کی کیفیت نہ بتائے۔ اتفاق سے جب ان کی اپنی موت کا وقت قریب آیا تو ان کے ہوش وحواس بھی باقی تھے اور زبان بھی کھلی ہوئی تھی۔ میں نے کہا اباجان! آپ تو ایسی حالت میںموت کی کیفیت نہ بتانے والے پر تعجب کا اظہار فرمایا کرتے تھے اور اب آپ ہی موت کی کچھ کیفیت بیان فرمادیں۔ فرمایا: بیٹا! اس وقت موت کی حالت بیان کرنا ناممکن ہے لیکن میں کوشش کرتا ہوں اور فرمایا ’’اللہ کی قسم ایسے معلوم ہورہا ہے کہ جیسے میرے کندھوں پر پہاڑ رکھا ہوا ہے اور میری روح سوئی کے ناکے میں سے نکل رہی ہے اور میرے پیٹ میں کانٹے بھرے ہوئے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ آسمان اور زمین دونوں آپس میں مل گئے ہیں اور میں ان کے درمیان دبا ہوا ہوں۔
اللہ اکبر! اے مسلمانو! اس ذات کی طرف جلد پلٹ آؤ جو پیدا کرنے‘ کھلانے‘ سلانے اور مارنے پر قادر ہے۔
پیام موت… اور حضرت موسیٰ علیہ السلام
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا موت کا فرشتہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا اور کہا آپ کا رب آپ کو بلارہا ہے۔ یعنی یہ موت کا پیغام تھا۔ یہ سن کر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ملک الموت کو تھپڑ دے مارا۔ ان کی آنکھ باہر نکل آئی۔ ملک الموت اللہ تعالیٰ کی طرف گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھ کو درست کیا اور کہا میرے بندے یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف جاؤ اور کہو اگر آپ دنیا کی زندگی چاہتے ہیں تو اپنا ہاتھ بیل کی کمر پر رکھ دیں جتنے بال آپ کے ہاتھ کے نیچے آئیں گے آپ کی عمر کے اتنے سال بڑھادئیے جائیں گے۔ ملک الموت نے یہ پیام دیا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پوچھا: پھر کیا ہوگا؟ ملک الموت نے کہا ’’پھر موت آئیگی‘‘ اس پر موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ’’پھر ابھی موت آجائے‘‘ اور کہا اے رب مجھے بیت المقدس کے قریب ایک پتھر مارنے کے فاصلے پر کردے اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میں عوہاں ہوتا تو تمہیں موسی علیہ السلام کی قبر دکھاتا، جو اس راستے کے قریب سرخ ٹیلے کے پاس ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں