شیخ محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ ایک بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں۔ان کا دل شیخ عبدالرحمن رحمۃ اللہ علیہ سے ملنے کو نہیں چاہتا تھا‘ وجہ یہ تھی کہ وہ ان کے پیرومرشد ابومدین رحمۃ اللہ علیہ سے بغض رکھتے تھے اپنے پیرومرشد اور مربی شیخ ابومدین رحمۃ اللہ علیہ سے بغض کی وجہ سے شیخ محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ کے دل میں بھی شیخ عبدالرحمن رحمۃ اللہ علیہ سے تکدر اور بغض کی کیفیت پیدا ہوگئی تھی‘ جمعہ کی رات تھی دو تہائی رات گزرچکی تھی‘ شیخ اکبر بن عربی رحمۃ اللہ علیہ نے خواب دیکھا‘ جناب رسول اللہ ﷺ تشریف فرما ہیں‘ فرما رہے ہیں اے محی الدین! کیابات ہے تم شیخ عبدالرحمن سے نہیں ملتے اور ان سے بغض رکھتے ہو‘ شیخ نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ! عبدالرحمن‘ میرے شیخ ابومدین رحمۃ اللہ علیہ سے بغض رکھتے ہیں‘ اس لیے میں ان سے نہیں ملتا‘ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا عبدالرحمن ہم سے محبت رکھتے ہیں؟ شیخ نے عرض کیا‘ بیشک یارسول اللہ ﷺ ہر مسلمان آپ سے حد درجہ محبت رکھتا ہے اور شیخ عبدالرحمن رحمۃ اللہ علیہ تو بڑے محدث ہیں وہ یقیناً آپ سے حد درجہ محبت رکھتے ہیں۔
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے محی الدین رحمۃ اللہ علیہ کیا وجہ ہے کہ تم ہماری محبت کی وجہ سے شیخ عبدالرحمن رحمۃ اللہ علیہ سے محبت نہیں کرتے اور اپنے شیخ سے بغض رکھنے کی وجہ سے ان سے بغض رکھتے ہو؟ کیا تمہارے نزدیک ہماری محبت کے مقابلہ میں شیخ کے بغض کی اہمیت زیادہ ہے؟ ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ کی آنکھ کھل گئی‘ ان کو حد درجہ ندامت تھی اور خیال آیا کہ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ شیخ عبدالرحمن رحمۃ اللہ علیہ میرے نبی ﷺ سے حد درجہ محبت رکھتے ہیں بلکہ وہ سچے عاشق رسول ﷺ ہیں‘ اس لیے مجھے اپنے آقا سے محبت رکھنے والے سے محبت رکھنی چاہیے۔
وہ فجر سے قبل اپنے گھر سے نکلے اور شیخ عبدالرحمن رحمۃ اللہ علیہ کے دروازے پر پہنچے‘ شیخ نماز کیلئے گھر سے نکلے تو محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ جیسے بڑے شیخ کو اپنے دروازے پر دیکھ کر حیرت میں آگئے‘ ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ ان سے چمٹ گئے‘ دل سے معافی مانگی‘ مجھ سے بڑی بھول ہورہی تھی‘ آپ تو میرے نبی ﷺ کے عاشقوں میں ہیں اور میں اپنے شیخ سے بغض کی وجہ سے آپ سے بغض رکھتا تھا‘ شیخ عبدالرحمن رحمۃ اللہ علیہ اس اخلاص اور جذبہ سے حد درجہ متاثر ہوئے اور دل میں خیال آیا کہ جس شیخ کے منتسبین کے اخلاص اور عشق رسول کا یہ حال ہے وہ یقیناً بڑا صاحب کمال ہے‘ مجھے بھی اس کی صحبت لازم پکڑنی چاہیے اور دن نکلنے کے بعد شیخ ابومدین رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت ہوگئے۔ تذکرہ نگاروں نے اس واقعہ کو محفوظ کرکے امت پر بڑا احسان کیا ہے‘ حب رسول ﷺ ایسا نقطہ اتحاد ہے جس پر مشرق سے مغرب تک پوری امت مسلمہ عاشقانہ طور پر متحد ہوسکتی ہے مگر شیطان کے جال میں پھنسے ہم لوگ فروعی چیزوں کو اصول کا درجہ دے کر اہل حق سے برسرپیکار ہیں۔
ہم میں سے اللہ‘ اس کے رسول‘ فرشتوں‘ کتابوں‘ تقدیر اور یوم آخرت پر ایمان میں سب متفق ہیں۔ اللہ ایک‘ رسول ایک‘ کعبہ ایک‘ قرآن ایک‘ سب کا کلمہ ایک‘ اسلام کے ارکان سب کے نزدیک ایک‘ پانچ وقت کی نماز پر سب متفق‘ زکوٰۃ اور روزہ و حج کے فرضیت پر سب متفق‘ یہاں تک کہ نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ اور حج کے شرائط وارکان سب کے نزدیک ایک‘ اس کے باوجود چند فروعی مسائل کو لیکر ایسا معرکہ حق و باطل ہوتا ہے جیسے سارا دین بس آمین بالجہر جیسی چیزوںمیں منحصر ہے‘ برصغیر کے ایک ملک میں سفر کے دوران لوگوں نے بتایا کہ یہاں کے تمام اہل دین دو اداروں کے مکاتب فکر میں بٹے ہوئے ہیں ایک طبقہ کہتا ہے کہ نماز کے بعد دعا مکروہ یا بدعت ہے اوردوسرے کی رائے یہ ہے کہ دعا مستحب ہے۔ اب ہر دین دار سے تعارف کیلئے معلوم کیا جاتا ہے کہ آپ کا تعلق کس طبقہ سے ہے؟
کاش ہم ملت کو اداروں‘ شخصیتوں‘ تحریکوں اور ذیلی نسبتوں سے جوڑنے کے بجائے اپنی کاوشوں‘ صلاحیتوں اور اپنے اداروں و تحریکوں اور پوری ملت اسلامیہ بلکہ پوری انسانیت کو‘ اللہ اور اس کے رسول سے جوڑنے کے مرکز اتحاد سے وابستہ کرتے تو قوم میں انتشار کے مرض میں مبتلا نہ ہوتی‘ کیا ایک ادنیٰ سے ادنیٰ مسلمان کیلئے کسی دوسرے مسلمان سے محبت رکھنے‘ اس کی کوتاہیوں اور غلطیوں کو نظرانداز کرنے کیلئے یہ بات کافی نہیں ہے کہ وہ ہمارے پیارے اور محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی اور والہانہ محبت رکھتا ہے
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں