راہ عزت و رفعت
جب حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ ملک شام میں تھے‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ وہاں تشریف لائے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ اور صحابہ رضی اللہ عنہ بھی چل رہے تھے۔‘ چلتے چلتے راستہ میں پانی کا ایک گھاٹ آگیا‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی اونٹنی پر سوار تھے‘ وہ اونٹنی سے نیچے اترے اور موزے اتار کر اپنے کندھے پر رکھ لیے اور اپنی اونٹنی کی نکیل پکڑ کر اس گھاٹ میں سے گزرنے لگے۔
حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے یہ صورتحال دیکھ کر عرض کیا ”اے امیرالمومنین! آپ یہ کیا کررہے ہیں کہ موزے اتار کر کندھے پر رکھ لیے ہیں اور اونٹنی کی نکیل پکڑ کر اس گھاٹ میں سے گزرنے لگے ہیں؟ مجھے اس بات سے بالکل خوشی نہیں ہوگی کہ اس شہر والے آپ کو اس حالت میں دیکھیں“ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی اس بات کو سن کر فرمایا افسوس! ابوعبیدہ( رضی اللہ عنہ )اگر آپ کے علاوہ کوئی اور یہ بات کہتا تو میں اسے ایسی سخت سزا دیتا جس سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری امت کو عبرت ہوتی ہم تو سب سے زیادہ ذلیل قوم تھے‘ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اسلام کے ذریعہ عزت عطا فرمائی‘ اب جس اسلام کے ذریعہ اللہ نے ہمیں عزت عطا فرمائی ہے ہم جب بھی اس کے علاوہ کسی اور چیز سے عزت حاصل کرنا چاہیں گے تو اللہ تعالیٰ ہمیں ذلیل کردیں گے۔
تین باتیں
ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا ”اے ابوالحسن! کئی مرتبہ آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں موجود ہوتے تھے اور ہم غائب ہوتے تھے اور کبھی ہم موجود ہوتے تھے اور آپ غیرحاضر‘ تین باتیں میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کیا وہ آپ کو معلوم ہیں؟“
”وہ تین باتیں کیا ہیں؟“ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا۔
”ایک آدمی کو ایک سے محبت ہوتی ہے حالانکہ اس نے اس میں کوئی خیر کی بات نہیں دیکھی ہوتی اور ایک آدمی کو ایک سے دوری ہوتی ہے حالانکہ اس نے اس میں کوئی بری بات نہیں دیکھی ہوتی‘ اس کی کیا وجہ ہے؟“ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ سوال سن کر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”ہاں! اس کا جواب مجھے معلوم ہے‘ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ انسانوں کی روحیں ازل میں ایک جگہ اکٹھی رکھی ہوئی تھیں‘ وہاں وہ ایک دوسرے کے قریب آکر دوسرے سے ملتی رہیں جن میں وہاں آپس کا تعارف ہوگیا ان میں یہاں دنیا میں الفت ہوجاتی ہے اور جن میں وہاں اجنبیت رہی وہ یہاں دنیا میں ایک دوسرے سے الگ رہتے ہیں۔“
یہ جواب سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ”ایک بات کا جواب مل گیا‘ دوسری بات یہ ہے کہ آدمی کوئی بات بیان کرتا ہے کبھی اسے بھول جاتا ہے‘ کبھی یاد آجاتی ہے‘ اس کی کیا وجہ ہے؟“
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا: ”میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ جیسے چاند کا بادل ہوتا ہے ایسے دل کا بھی بادل ہے چاند خوب چمک رہا ہوتا ہے تو بادل اس کے سامنے آجاتا ہے اور اندھیرا ہوجاتا ہے اور جب بادل چھٹ جاتا ہے چاند پھر چمکنے لگتا ہے ایسے ہی آدمی ایک بات بیان کرتا ہے وہ بادل اس پر چھا جاتا ہے تو وہ بات بھول جاتا ہے اور جب اس سے وہ بادل ہٹ جاتا ہے تو اسے وہ بات یاد آجاتی ہے۔
دو باتوں کا جواب مل گیا‘ تیسری بات یہ ہے کہ آدمی خواب دیکھتا ہے تو کوئی خواب سچا ہوتا ہے کوئی جھوٹا ہے‘ اس کی کیا وجہ ہے؟“ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت فرمایا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا جی ہاں! اس کا جواب بھی مجھے معلوم ہے میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب انسان گہری نیند سوجاتا ہے تو اس کی روح کو عرش تک چڑھا لیا جاتا ہے جو روح عرش پر پہنچ کر جاگتی ہے اس کا خواب تو سچا ہوتا ہے اور جو اس سے پہلے جاگ جاتی ہے اس کا خواب جھوٹا ہوتا ہے۔“
اپنے تینوں سوالوں کے جوابات سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ”میں ان تین باتوں کی تلاش میں ایک عرصہ سے لگا ہوا تھا اللہ کا شکر ہے کہ میں نے مرنے سے پہلے ان کو پالیا۔“
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اصول خلافت
حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد ان کی تدفین سے فارغ ہوکر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قبر مبارک کی مٹی ہاتھوں سے جھاڑی‘ پھر اسی جگہ کھڑے ہوکر بیان کیا اور اس میں فرمایا: ”اللہ تعالیٰ تمہارے ذریعہ سے مجھے اور میرے ذریعہ سے تمہیں آزمائیں گے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے میرے دو حضرات (رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ) کے بعد آپ لوگوں میں باقی رکھا ہے‘ اللہ کی قسم! ایسے نہیں ہوسکے گا کہ میرے پاس تمہارا کوئی کام پیش ہو اور میرے علاوہ کوئی اور اس کام کو کرے اور نہ ہی ایسے ہوسکے گا کہ تمہارا کوئی کام میری غیرموجودگی سے تعلق رکھتا ہو اور میں اس کی کفایت کرنے اور اس کے بارے میں ایمانداری اختیار کرنے میں کوتاہی کروں‘ اگر لوگ اچھے عمل کریں گے تو میں ان کے ساتھ اچھا سلوک کروں گا اور اگر برے عمل کریں گے تو میں انہیں عبرتناک سزا دوں گا۔“
اس واقعہ کو نقل کرنے والے تابعی حضرت حمید بن بلال رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دنیا سے جانے تک پہلے دن کے بیان کردہ اپنے اس اصول کے خلاف نہ کیا‘ ہمیشہ اسی پر قائم رہے۔
شوق نماز
جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو نیزہ مارا گیا تو ان پر غشی طاری ہونے لگی‘ کسی نے کہا ”اگر یہ زندہ ہیں تو پھر یہ نماز کے نام سے جتنی جلدی گھبرا کر اٹھیں گے اتنی جلدی اور کسی چیز کے نام سے نہیں اٹھیں گے“ لہٰذا کسی نے کہا ”امیرالمومنین! نماز ہوچکی ہے“ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہوش میں آگئے اور فرمایا ”نماز! اللہ کی قسم! جس نے نماز چھوڑ دی اس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں۔
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 286
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں