آئیے نیکیوں کے اس مبارک ماہ میں عہد کریں کہ اے اللہ آج کے بعد ہم چغل خوری‘ عیب جوئی‘ حسد‘ غیبت‘نکتہ چینی‘ بے پردگی اور اس جیسی تمام معاشرتی خرابیوں سے دور رہیں گی اور ہمیشہ اپنے وقت کو قیمتی بنا کہ تیری یاد میں گزاریں گی‘
اے امت مسلمہ کی عزیز بہنو!جنت سال بھر سے سجائی جارہی ہے کچھ بہت ہی معزز مہمانوں کے استقبال کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ یہ کونسا موقع ہے کہ جنت کے سارے دروازے کھول دئیے گئے ہیں اور فرشتے ندا دے رہے ہیں کہ ”اے بھلائی کے طالب آگے بڑھ اور اے برائی کے طالب رک جا۔“ یہ کون سے دن ہیں کہ رحمت و مغفرت اور جنت کی سیل لگی ہے.... آوازیں دے دے کر بلایا جارہا ہے کہ آو اور اپنے گناہ معاف کرالو۔ آو! کہ رب مہربان ہے۔ اس سے جو کچھ مانگو گے وہ عطا کرے گا۔
رحمت کی موسلادھار بارش ہے۔ اپنے اپنے دامن پھیلا لو جتنی زیادہ رحمت سمیٹ سکتے ہو سمیٹ لو۔ آو آج شیاطین باندھ دئیے گئے ہیں۔ دوزخ کے دروازے بند کردئیے گئے ہیں۔ رب تمہارے قریب آنے کو بے تاب ہے۔ تمہیں اپنا بنانے کو تیار ہے۔ آگے تو بڑھو۔ اس کا دامن تو تھامو۔ اس سے مانگ کر تو دیکھو‘ اس کے آگے جھک کر تو دیکھو.... یہ جھکنے کے دن ہیں۔ یہ توبہ وانابت کے دن ہیں۔ یہ رمضان المبارک کے دن ہیں۔
رمضان آیا ہی چاہتا ہے‘ آئیے کچھ سوچیں کچھ طے کرلیں کہ رحمت و برکت کے اس بہتے دریا سے ہم کس طرح زیادہ سے زیادہ مستفید ہوسکتے ہیں؟کس طرح ہم جھولیاں بھر بھر کے اجر سمیٹ سکتے ہیں؟ رب کی رضا کے حصول کی کچھ منصوبہ بندی کچھ پلاننگ کیونکہ جو کام پلاننگ کے ساتھ کیا جاتا ہے وہ نتائج کے اعتبار سے ہمیشہ بہتر ہوتا ہے۔جونہی چاند نظر آئے مہینے کا آغاز دعا سے ہو۔ رب کے آگے ہاتھ پھیلادیںکیونکہ اس کی توفیق کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے۔رب سے مانگ لیں۔ محنت کی توفیق‘ عمل کی توفیق‘ اس کی رضا پانے کی تڑپ اور جستجو‘ اس کی محبت‘ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت‘ اس کے دین کی محبت.... اور .... مانگنے کی توفیق اور قبولیت کی استدعا....کیا بابرکت اور پرنور مہینہ ہے۔ راتوں کو صدائیں لگانے والے صدائیں لگاتے ہیں۔ روزہ دارو! اللہ کے پیارو! اٹھو سحری کا وقت ہوگیا ہے۔ یہ سحری کا وقت جاگنے کا وقت نہیں لیکن مومن جاگتا ہے۔ یہ کھانے کا وقت نہیں مگر مومن کھاتا ہے۔ اپنے نفس کو رب کی رضا‘ رب کی اطاعت پر مائل کرتا ہے۔ رب یقینا محبت سے یہ سب کچھ دیکھ رہا ہوتا ہے۔
میری عزیزبہنو! اب میں تمہیں کچھ نیک بیبیوں کا حال سنا رہی ہوں کہ وہ رمضان میںکیاکرتی تھیں۔ اللہ اللہ کیابا برکت زمانہ تھا‘آج دنیا کی کیا حالت ہے اور ہماری اس سے بھی بری‘ ایک تو ہماری دادی بی تھیں‘ ان کی تلاوت کی کیا حالت تھی۔ تہجد کی نماز میں کم از کم دو سے چار تک سپارے پڑھ لیتی تھیں پھر کلمہ کی تسبیح تو اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیںکہ کتنی پڑھتیں‘ ہمارے دادا جان جنہیں سب بھائی جی کہتے تھے ان کی رمضان کا چاند دیکھتے ہی تلاوت شروع ہوجاتی۔ سحری میں مردانے اور زنانے دسترخوان پر کل ملا کر پچاس ساٹھ آدمی تو ہوجاتے تھے‘ مجھے خوب یاد ہے دادی بی روغنی روٹی بھی ڈالتی جاتیں اور ساتھ میں تلاوت اور تسبیح جاری رہتی‘ ہماری والدہ جنہیں سب آپا بی کہتے تھے وہ بھی ساتھ روٹی ڈلواتیں اور ایک ماما بی ہوتیں۔ سب مستقل اللہ کا ذکر کرتی رہتیں‘ دن بھر میں دادی بی تو پکا یقین ہے کہ بیس سپارے تو پڑھ لیتی ہونگی۔اسی طرح میری حقیقی خالہ بی تھیں۔ ان کی بھی عبادت کا کیا حال بتاوں.... فجر کے بعد جو کلام پاک چوم کر کھول کر بیٹھتیں تو تین چار گھنٹے بعد اٹھتیں۔ روزانہ اسم ذات ”اللہ“ پانچ ہزار، کلمہ پانچ ہزار، درود شریف اور استغفار اس کے علاوہ دن بھر اپنی زبان کو اللہ کے ذکر سے تر رکھتی تھیں‘ یہ نہ سمجھنا کہ یہ بیبیاں گھر کا کام کچھ نہیں دیکھتیں تھیں۔ ماشاءاللہ ماشاءاللہ بھرا کنبہ‘ آیا گیا‘ دور نزدیک کے رشتے دار سحرو افطار میں تڑکے سے لگ جاتیں۔ کیا ہمت تھی ان کی اور دوسری بیبیوں کی۔ ایک ہماری ملانی بی تھیں جنہوں نے گھر بھر کی بچیوں اور لڑکیوں کو کلام پاک پڑھایا۔ کیا بیبیاں تھیںرمضان تو اصل ان کا تھا کیا نور برستا تھا ان پر، بچیوں کو قرآن پاک بھی پڑھارہی ہیں‘ ساتھ ساتھ اپنی بھی تلاوت جاری ہے گھر کے سارے کام کاج، پکانا، مصالحہ پیسنا، اور صحن دھونا سب خود کرتیں۔ تہجد کے وقت اٹھ کر جاڑوں میں ساڑھے تین بجے سے تلاوت اور تسبیح شروع ہوجاتی‘ نفل بیس تو ضرور ہوجاتے ہونگے۔
عزیز بہنو!غیبت اور چغلی سے بچو احادیث میں ان کی بڑی مذمت آئی ہے ”حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاغیبت (گناہ کے اعتبار سے)زنا سے بھی زیادہ سخت ہے۔”حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو خواتین کو لایا گیا‘ کہ یہ دونوں روزہ سے ہیں لیکن جان کنی کی حالت میں ہیں‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پیالہ دیا اور ان دونوں سے کہا کہ اس میں قے کرو تو انہوں نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کس چیز کی قے کریں؟ہم تو روزہ سے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ فرمایا‘ اس میں قے کرو‘ انہوں نے قے کی‘ تو تازہ گوشت کی بوٹیاں نکلیں‘ انہوں نے حیران ہوکر سوال کیا‘ ہم نے تو یہ نہیںکھایا‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے ایک مسلمان کی غیبت کی تھی اور کسی مسلمان کی غیبت کرنا اپنے مردہ مسلمان بھائی کا گوشت کھانے کے برابر ہے‘ یہ وہ گوشت ہے“۔
بہنو! ذرا سوچو! حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک زمانہ تھا وہ روزہ دارخواتین صحابیہ تھیں‘ ان سے ایسی غلطی ہوئی جس کو وہ غلطی ہی نہیں سمجھتی تھیں‘ اس واقعہ میں آنے والی امت کیلئے سبق تھا۔
آج 1400 سال کے بعد اس پرفتن دور میں ہم نے کبھی بیٹھ کر وہ گناہ سوچے ہیںجو غیرمحسوس طریقے سے ہماری ذات کے اندر‘ ہمارے گھروں کے اندر‘ ہمارے معاشرے کے اندر پیوست ہوچکے ہیں؟ پورا سال ہم اپنی مرضی سے دن رات گزارتے ہیں‘ کیا اس مبارک ماہ کے آغاز میں ہم نے کبھی عہد کیا ہے کہ اس ایک ماہ کو ہم صرف اللہ کیلئے گزاریں گے تاکہ قیامت کے دن یہ ہمارے حق میں گواہی دے سکے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص روزے کو اس کے آداب کے ساتھ پورا کرتا ہے روزہ اس کو دعا دیتا ہے کہ جیسے تو نے میرا اکرام کیا‘ اللہ اسی طرح تیرا اکرام کرے۔
تم عورت نہیں پھولوں کا گلشن ہو اسی لیے تو اسلام تمہیں ہر ایرے غیرے کے سامنے نازو نخرے دکھانے سے منع کرتا ہے اور اگر ان سب حدود کا خیال نہیں رکھو گی‘ بے پردہ ہوکر، محرم نامحرم کا فرق مٹا کر، کیٹ واک، ماڈلنگ یا کسی بھی فیشن کی لپٹ میں آکر اپنا مقام بھول جاو گی تو تم روز قیامت ایک ٹنڈ منڈ درخت کی طرح قیامت کا اندھیرا بن کر تنہا رہ جاو گی‘اللہ بھی اس عورت سے ناراض ہوتا ہے جو ان سب حدود کو بھول جاتی ہے‘ اللہ نے خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہ کو پہلی مسلمان اور مومنہ عورت ہونے کے باوجود اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کو ان کی ہزار، علم و دانش کے باوجود جنت کی عورتوں کا سردار نہیں بنایا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے پوچھا وہ کونسی عورت ہے جس پر اللہ راضی رہتا ہے‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ خاموش رہے‘ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے گھر جاکر جب اپنی بیوی فاطمة الزہراءرضی اللہ عنہ سے یہ سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا ”لایرین الرجال ولا یرونہن“ نہ اسے غیر محرم دیکھے اور نہ ہی وہ نامحرموں کو دیکھے‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا‘ تم نے سچ کہا‘ اے فاطمہ رضی اللہ عنہ تو میرے جگر کا ٹکڑا ہے۔ خواتین اسلام کی شاندار تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ روئے زمین پر فاطمة الزہراءرضی اللہ عنہ وہ باحیا خاتون ہیں جنہوں نے زندگی بھر کسی نامحرم کو نہیں دیکھا اور نہ کسی نامحرم نے انہیں دیکھا‘ زندگی کے بعد بھی انہیں اس حیا کی حفاظت کی اتنی فکر تھی کہ دنیا سے رخصتی کے وقت آہستہ آواز میں ان کی وصیت رشتے ناطوں یا جائیداد کی تقسیم کے بجائے تین پہلو لیے ہوئے تھی۔1۔ میرے مرنے کا زیادہ چرچا نہ کیا جائے۔2۔ مجھے رات کی تاریکی میں قبر کے سپرد کیا جائے۔3۔ میری میت والی چارپائی کے سرہانے اور پائنتی پر ٹہنیاں کھڑی کرکے ان کے اوپر چادر تان دی جائے تاکہ جنازہ اٹھانے والوں کو ان کے جسم کی اونچان، نیچان کا علم نہ ہو۔عزیزبہنو! اس کے بعد مزید اتنا کہوں گی آج وقت ہے کہ اس مبارک ماہ میں جہاں عبادت میں ترقی کریں وہاں اپنی ذات کی غیرمحسوس روحانی بیماریوں کو بھی دور کریں تاکہ عبادت کی حلاوت بھی نصیب ہوسکے۔
Ubqari Magazine Rated 4.5 / 5 based on 682
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں