موبائل فونز دور جدیدکی نئی اذیت ناک سزا ہے جہاں یہ آسائشوںکا باعث بنا ہے اس کیساتھ ساتھ اسکے ایسے دلخراش واقعات سامنے آرہے ہیںجنہیں سنتے ہی دل کانپ اٹھتا ہے‘خصوصا اپنی معصوم بچیوں کو موبائل فون سے دور رکھیں اور اس مبارک ماہ میں ایڈ یٹر سے وعدہ کریں
قارئین! ڈھیروں ڈاک جہاں معاشرے کے درد دکھ اور غم کی زندہ عکاسی کرتی ہے وہاں اس سے یہ بات بھی واضح اور عیاں ہوتی ہے کہ ہمارے معاشرے کے گھروں میں در پردہ زندگی کیسے گزر رہی ہے۔ حیاءباختہ اور حیاءسوز ایسے ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں جو آہوں اور سسکیوں میں مسلسل درد‘ شور، ظلم اور جبر کی تہوں کے نیچے دب جاتے ہیں۔ بحیثیت ایڈیٹر میرے پاس اس طرح کے بے شمار خطوط آتے ہیں۔ یہ خط ایک ایسی باحیاءلڑکی کا ہے جو گناہ نہیں چاہتی اس کے اندر حرام و حلال کا احساس ہے لیکن جوانی کی نادانی اور ادھر دھوکا‘ فریب اسے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کررہا ہے آخر وہ بھی جوان ہے‘ اس کے بھی جذبات ہیں یہ سب کچھ اس وقت ہوا جب وہ گھونسلے سے نکل کر سربازار گئی اور اس کی معاونت موبائل نے کی۔ میری تمام قارئین سے گزارش ہے کہ اگر میری باتوں کو خیرخواہی اور محبت و پیار کے جذبے سے لیں تو اپنی سکول کالج یا گھروں میں بیٹھی ہوئی بیٹیوں کو موبائل کی سہولت ہرگز نہ دیں‘ بس اتنا سوچ لیں کہ موبائل سے پہلے بھی زندگی گزر رہی تھی‘ اب جن کے پاس موبائل نہیں ان کی زندگی شاید ان سے زیادہ آسودہ ہو۔ (ایڈیٹر)
محترم حکیم صاحب السلام علیکم! اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ کو ہمیشہ مخلوق الٰہی کی خدمت اور اصلاح کرنیکی ہمت دئیے رکھے‘ میں ایک مہینے سے بہت زیادہ پریشان ہوں اور سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ میں ایک لڑکی ہوں‘ ایک بیٹی ہوں‘ ماںباپ‘ بھائی بلکہ پورے خاندان کی عزت ہوں۔ اس بار جب(مئی کا) عبقری ہمارے گھر آیا تو اس میں ایک آرٹیکل پڑھ کر مجھے میری پریشانی کا حل نظر آیا۔ ”مجھے اپنا شریک حیات چننے کا اختیار دیا جائے“ اسے پڑھ کر نہ کچھ سمجھا‘ نہ کچھ سوچا‘ آپ کو لکھنے بیٹھ گئی‘ میری پریشانی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ میں چاہ کر بھی اس سے نکل نہیں پارہی۔
آج سے 6 ماہ پہلے میرے موبائل فون پر ایک انجان نمبر سے کال آئی‘ میں نے اسے اٹھایا‘ ایک شخص نے میرا نام لیا اور کہا کہ مجھے آپکے بارے میں جاننا ہے‘ میں نے ایک موبائل فون خریدا ہے اس میں آپکا نمبر پہلے سے آپکے نام سے Save تھا‘ مجھے آپ سے رابطہ رکھنا ہے۔ میں نے اس کی تھوڑی سی بے عزتی کی اور یہ بھی کہا کہ ایسے کسی کا نمبر یا نام ہاتھ لگ جانا اور پھر اس کو تنگ کرنا اچھی بات نہیں‘ میں آپ کو نہیں جانتی اور نہ ہی مجھے آپ سے کوئی رابطہ رکھنا ہے‘ خیر وہ باز نہ آیا‘ میں نے اپنے چچا کو اسکا نمبر دیا‘انہوں نے مین آفس سے اسکی اچھی خاصی کلاس لی‘ اس کے بعد اس شخص نے مجھ سے کوئی رابطہ نہ کیا‘خیر بات رفع دفع ہوگئی اور میں اس بات کو بھول گئی‘ پچھلے ماہ اس نے دوبارہ رابطہ کیا‘ اللہ گواہ ہے میں نہیں جانتی وہ کون ہے‘ اس نے فون پر میرا نام لے کر پوچھا ”السلام علیکم! آپ حنا بات کررہی ہیں؟“ میں نے کہا جی! میں نے غلطی کی‘ میںہاں نہ کہتی‘ اسکے بعد اس نے بار بار فون اور میسج کرنا شروع کر دئیے‘ آخر میں تنگ آگئی ‘ میں نے ایک دن فون اٹھا کر اس کو آرام سے بھی اور ڈانٹ سے بھی سمجھایا کہ تم کون ہو اور کیوں مجھے تنگ کررہے ہو اور میرا نام کیسے جانتے ہو؟ اس نے کہا کہ آپ مجھے بہت اچھی طرح جانتی ہیں ‘ ہم پہلے بھی بات کرچکے ہیں‘ میرے ذہن میں دور دور تک یہ بات نہ تھی کہ یہ وہ ہے جس نے 6-7 ماہ پہلے مجھے تنگ کیا تھا‘ خیراس نے میرے کچھ آرام سے بات کرنے پر بتایا کہ میں وہی ہوں اور میں حیران! کہ اب کہاں سے یہ دوبارہ نمودار ہوگیا۔ اس نے کہا کہ آپ کا مجھ سے پچھلے 6-7ماہ سے رابطہ نہیں تھا لیکن میرا آپ سے رابطہ تھا‘ میں نے بہت باردوسرے نمبر سے آپ کو فون کیا اور آپکی ”ہیلو“ کی آواز سن کر بند کردیا ‘ مجھے بولنے کی ہمت نہ ہوتی تھی لیکن مجھے آپ سے شادی کرنی ہے اور میں اللہ سے وعدہ کرچکا ہوں‘ اللہ کی قسم کھاچکا ہوں‘ میرے ابو اس دنیا میں نہیں ہیں‘ میں انکی قسم لے چکا ہوں‘یوسف مر تو سکتا ہے لیکن شادی آپ سے‘ ورنہ ساری زندگی کسی سے بھی نہیں‘
محترم حکیم صاحب! آپ یقین کریں کہ یہ سب سن کر میرا دماغ پھٹنے کوگیا‘ اللہ مجھے ہمیشہ ہر برے خیال‘ برے ارادے سے دور رکھے “آمین“ میں تو کبھی زندگی میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتی جو میرے ساتھ ہوا‘ وہ انسان میرے سختی سے بات کرنے کے باوجود اتنی بڑی بات اور اتنی قسمیں چند لمحوں میں بڑی آسانی سے کہہ گیا‘ اس نے میرے بارے میں پتہ کیا‘ میں کہاں رہتی ہوں‘ کہاں پڑھتی ہوں وہ پہلے سے جانتا تھا کیونکہ جس موبائل سے میرا نمبر گیا تھا وہ بھی میری کلاس فیلو تھی اور میرا نمبر اس نے سکول کے نام کیساتھ Save کیا ہوا تھا‘ خیر اس نے مجھے کہا کہ اگر آپ مجھ سے رابطہ نہیں رکھو گی تو میں آپ کے گھر کے سامنے آکر اپنی جان دے دونگا‘ مجھے لکھتے ہوئے بہت شرمندگی محسوس ہورہی ہے اس نے کہا ”میں آپ سے بہت پیار کرتا ہوں اور آپکے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا‘ آپکے بارے میں مجھے جتنا پتہ چلا ہے وہ یہ کہ آپ بہت شریف نیک اور بہت اچھے دل کی مالک ہیں تو بس ایک جیون ساتھی میں یہ خوبی ہونا کافی ہے ‘ بس مجھے آپ سے ہی شادی کرنی ہے‘ مجھے آپکے والدین سے آپکے علاوہ اور کچھ نہیں چاہیے۔“
میں چاہ کر بھی چچا کو دوبارہ نہیں بتاسکی کیونکہ ان کے ذہن میں کہیں نہ کہیں یہ خیال ضرور رہنا تھا کہ میں ہی غلط ہوں اور میرا اسکے ساتھ رابطہ ہے شاید میں نے شو نہیں کروایا‘ اس نے کہا مجھے آپ سے فون پر بات کرنی ہے مجھے آپ کو اپنے بارے میں بتانا ہے مجھے آپ کو دیکھنے کی ضرورت نہیں آپ جیسی بھی ہو‘ مجھے قبول ہو۔ شادی کرنا کوئی گناہ نہیں ہے میں آپ سے آج کل کے لڑکوں کی طرح دوستی نہیں کرنا چاہتا کوئی غلط رشتہ نہیں بنانا چاہتا‘ ایک جائز رشتہ چاہتا ہوں۔
میں یہ سب سوچتی ہوں تو میرا دماغ پھٹنے لگتا ہے۔ یہ کیسی آزمائش ہے میں نے تو کبھی کسی کو کوئی تکلیف بھی نہیں دی ارادتاً کسی کا دل نہیں دکھایا یہ سب کیا ہورہاہے؟ میرے والدین مجھ پر بہت بھروسہ کرتے ہیں اور میں بہت خوش نصیب بیٹی ہوں انہوں نے میری پرورش ایسی کی کہ آج تک میں کسی ایسی معاشرتی برائی یا غلط رشتے میں نہیں پڑی۔ اسکی ڈیمانڈ ٹھیک ہے لیکن میرے خیال سے بنیاد ٹھیک نہیں۔
میں نے یہ بھی کہا کہ ہمارے ہاں فیملی سے باہر رشتہ نہیں کرتے تو اس نے کہا کہ آپ بھی مسلمان ہو میں بھی مسلمان ہوں پھر اور کون سا مذہب چاہیے۔ میری سمجھ سے باہر ہے میں کیا کروں۔ حکیم صاحب مجھے ایسا لگتا ہے میری سوچ کی حدیں ختم ہورہی ہیں اس مسئلہ کا حل نہیں نکال پارہی‘ میں نے نمبر تبدیل کرنا چاہا لیکن اس نے باتوں میں کہا کہ اگر آپ کا نمبر آدھے گھنٹے کیلئے بھی بند ہوا تومیں اس رب کی قسم کھاتا ہوں جس نے مجھے بنایا میں آپ کے گھر کے سامنے آکر اپنی جان دے دوں گا۔اس نے کہا آپ مجھے آزما سکتی ہیں ایک بار یہ کہہ دو کہ ”جاو مرجاو “ تو میں اپنی جان اپنے ہاتھوں سے دیدوں گا لیکن میں آپکے بغیر جی نہیں سکتا۔پھر ایک دن اس نے کہا کہ میرا دل چاہتا ہے میں آپکو غائب کرکے لے جاوںکسی کو پتہ بھی نہ چلے لیکن پھر آپکی عزت اور آپکے والدین کی عزت کا خیال آجاتا ہے تو خود کو روک لیتا ہوں ورنہ یہ کب کا کرچکا ہوتا۔ آپ اللہ کیلئے میری ہوجاو میں آپکا محرم ہوں (استغفراللہ)
آپ پلیز مجھے بتائیں میں کیا کروں؟ میں اپنے گھر میں دل لگانے والی‘ شور مچانے والی ہوں لیکن اس پریشانی نے مجھے اندر ہی اندر سے دیمک لگادی ہے۔میں نے اپنی بڑی خالہ کو تھوڑا سا بتایا لیکن انہوں نے مجھے کہا کہ بیٹا تمہارے والد صاحب تم پر خود سے زیادہ بھروسہ کرتے ہیں اور مرد میں شک کا عنصر بھی موجود ہے جو کہ کھلی حقیقت ہے۔ چچاہو یا باپ ہو اگر ان کا بھروسہ اٹھ گیا تو کیا کرونگی میں انکو یہ سب کیسے بتاوں؟
میں نے اسے کہا کہ یہ ممکن نہیں ہے میرے والدین نہیں مانیں گے تو اس نے کہا کہ میں تب تک آپ سے شادی نہیں کرونگا جب تک آپ کے والدین نہیں مانیں گے لیکن آپکو اللہ کا واسطہ ہے آپ کسی اور سے شادی نہ کرنا میں آپکو کسی اور کیساتھ سوچتاہوں تو میرا خون کھول اٹھتا ہے۔
اس نے مجھ سے یہ بھی کہا ایک بار خود اپنے منہ سے کہہ دو کہ مجھے تمہارے ساتھ کوئی واسطہ نہیں اور تم جیو یا مرو مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا‘ میں آپکی زندگی سے چلا جاونگا اور پورے 2 گھنٹے بعد آپکے شہر میں میری موت کا اعلان ہوگا‘آپ آزمانا چاہو تو آزما لو۔
حکیم صاحب! آپ براہ ِمہربانی مجھے گائیڈ کریں میں کیا کروں میں اسے ایسے کیسے کہہ دوں کہ جیو یا مرو آخر میں بھی انسان ہوں ‘ اگر اس نے ایسا کوئی قدم اٹھالیا تو کیا میں ذمہ دار نہیں ہوں گی؟ اور وہ جو اپنے والدین کی قسمیں اور اللہ تعالیٰ کی پاک ذات کی قسمیں.... میں کیا کروں....؟
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 679
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں