آج دوسری ر ات تھی میں اپنے والد محترم کے پاوں کے پاس بیٹھا ہوا تھا وہ شدید درد سے کراہ رہے تھے ڈاکٹرز کہہ رہے تھے صرف چند دن باقی ہیں۔ والد محترم کے ہاتھ میں تسبیح تھی اور موتی وقفے وقفے سے گر رہے تھے وہ درود شریف اور قرآن کریم پڑھتے اور ساتھ ہی کہتے یا اللہ اسکا ثواب سیدنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کو عطا فرما‘ میرے ننھے سے ذہن میں پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح تصور تھا مگر شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے بارے میں معلوم نہیں تھا کچھ مہینوں کے بعد والد محترم کا انتقال ہوگیامیں نے بھی وہی عمل شروع کردیا۔ انکی قبر پر جاتا اور قرآن پاک پڑھ کر انہیں بخشتا اور سیدنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجتا اور ثواب سیدنا عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کو بخش دیتا اسطرح اس واقعے کو 17 سال گزر گئے اکثر راتوں کو میرے والد محترم مجھے ملتے مجھے گلے لگاتے‘ پیارکرتے‘ مجھے سکون حاصل ہوتا۔ پھر حالات نے ایسا پلٹا کھایا صحت‘ دولت‘ کچھ بھی نہ رہی اپنے ہی گھر سے دربدر ہوگیا۔ دشمنوں نے ایسا گھیرا ڈالا کہ میرا سب کچھ جاتا رہا۔ بیماری‘ غربت اور ذلت سے میں سخت پریشان تھا میرے تمام خونی رشتوں نے مجھ سے منہ موڑ لیا۔ نماز عصر مسجد میں پڑھی مسجد کی دیوار پر لکھا ہوا تھا کہ سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ جو جمعہ کی رات ہزار بار درود شریف پڑھے گا اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدارنصیب ہوگا مجھے ایسے لگا جیسے کھوئی ہوئی منزل مل گئی ہو حالت یہ تھی کہ مجھ سے پیدل چلا بھی نہیں جاتا تھا۔
میں پوری امید سے مسجد سے باہر نکلا کہ میر ا اللہ مجھے ضرورمعاف فرماد یگا۔مجھے پھر سے خوشحالی اور تندرستی عطا فرمائے گا پھر رات اللہ سے معافی مانگتا اور اپنے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجتا اور کہتا اے اللہ گمجھے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے صدقے معاف فرما دے کیونکہ مجھے یقین ہوگیا تھا کہ اگر مجھے اپنے رہبر و رہنما سیدنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار ہوگیا تو سارے غم اڑ جائیں گے۔ ایک سال گزر گیا کامیابی نہ ملی کبھی مایوس ہوتا اور کبھی پرامید ہوتا۔ اب ہر رات شیطان کثرت سے تنگ کرتا میں نے ایک بزرگ سے رابطہ کیا تو انہوں نے فرمایا خبردار! اس کا کہیں ذکر بھی نہیں کرنا ابھی تو نصف راستہ طے ہوا ہے‘ تیار ہوجاو! ابھی امتحان سخت ہوگا۔ میں ڈر گیا تو ہنسنے لگے اورکہا ڈرنا نہیں۔
پھر کچھ دنوں کے بعد خواب آیا کہ حشر کا میدان برپا ہے دو آدمی آئے بہت بڑے قد تھے‘ گندمی رنگت تھی‘ اور داڑھی مبارک بھی تھی‘ انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا۔ ایک جگہ گول دائرے میں بے شمار لوگ بیٹھے تھے سب کے سب باریش اور خوبصورت تھے اور ان کے آگے بڑے بڑے تھال پڑے تھے اسمیں کھانے والی چیزیں پڑی تھیں انہوں نے مجھے بھی وہیں بٹھا دیا۔ صبح میں نے جب یہ خواب اپنے بزرگ کو بتایا تو انہوں نے تعبیر بتائی کہ یہ جنات تھے جو حضرت سلیمان علیہ السلام کے تابع تھے۔ پھر فرمانے لگے منزل قریب ہے پیچھے نہ ہٹو۔ جتنی بڑی منزل ہوتی ہے راستہ اتنا ہی کٹھن ہوتا ہے۔ میری حالت بے آب مچھلی کیطرح تھی میں اب زیادہ شدت سے کوشش میں لگ گیا لیکن جب اپنے اعمال دیکھتا تو وہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیمطابق نہیں تھے لیکن مجھے یقین تھا میں گنہگار ہوں لیکن آپ کا امتی ہوں‘ بچہ کیسا ہی نافرمان کیوں نہ ہو والدین اس سے محبت کرتے ہیں۔ پھر میں قرآن پاک پڑھ کر سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو بخشتا۔ دل میں یہ سوچ تھی ‘نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے نواسوں سے شدید محبت تھی شائد اسی کے طفیل میں اللہ کے محبوب کی نظروں میں آجاوں آج پھر جمعہ کی مبارک رات تھی میرا حزن و ملال اور بے چینی عروج پر تھی آدھی رات کو سویا صبح اٹھا تو منزل پھر نہ ملی۔ بس میں مایوس ہوتا چلا گیا جسم ٹوٹ رہا تھا میری امید کے دئیے بجھ چکے تھے میں نے اپنے استاد محترم سے بات کی وہ پھر مسکرا پڑے میں پریشان ہوگیا۔
پھر دوسرے دن ناامیدی کی حالت میں سرشام ہی اپنے معصوم بچے کو گود میں لے کر سوگیا۔ بس میں تو سوگیا مگر میرا اللہ گ جو ہمیشہ سے جاگ رہا ہے۔ اس کو پتہ تھا کہ میرا بندہ آج بہت غمگین ہے۔ خالق کائنات کی یہ شان ہے جو بندہ عاجزی سے اسکے آگے ہاتھ اٹھاتا ہے وہ اسکو خالی نہیں چھوڑتا۔ تقریباً آدھی رات گزر چکی تھی میں خواب دیکھتا ہوں کہ میرے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لیٹے ہوئے ہیں اور میں انکے پاوں مبارک دبارہا ہوں پھر آہستہ سے انکی پنڈلیاں مبارک دباتا ہوں گنہگار کی آنکھیں خوشی سے چھلک رہی تھیں پھر آہستہ آہستہ رانیں مبارک اور کمر دباتا رہا۔ پھر پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور میں انکے سامنے جھک گیا گنہگار خوشی کے عالم میں روئے جارہا تھا میں نے ادب کے ساتھ ان کے ہاتھ مبارک چومے‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میرے ہاتھ کیوں چوم رہے ہو میں نے کہا کہ میں آپ پر قربان یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کے ہاتھ کیوں نہ چوموں‘ آپ نے اللہ تعالیٰ کا دیدار کیا ہے۔ ڈرتے ڈرتے آپ کے چہرہ مبارک کو دیکھنے کی کوشش کی صرف آپ کی آنکھیں مبارک دیکھیں تو دیکھتا رہ گیا جو انتہائی حسن و جمال سے بھرپور تھیں نور ہی نور برس رہا تھا ایسا حسن میں نے کبھی نہ دیکھا تھا۔
پیچھے سے روحانی آواز آتی ہے کہ یہ اس دیدار کی سعادت تمہیں صرف اور صرف سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی سفارش پر ہوئی ہے ورنہ تو کہاں اور تیری اوقات کیا۔ خوشی سے بے قرار ہوکر روتا رہا آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ اٹھ کر اپنے استاد محترم کو فون کیا جب انہوں نے سنا تو وہ خوشی سے رونے لگے۔ ہم خوشی سے روتے رہے اور ہم نے دعا کی کہ یااللہ ہمارا معاملہ دنیا اور آخرت میں اکٹھا رکھنا۔ ہمارے غم اور مصیبتیں برف کی طرح پگھل گئے۔ خوشی سے میرے پاوں اب تک زمین پر نہیں پڑے اب جب بھی کوئی غم یا مصیبت آتی ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سراپا مبارک آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے پھر غم غم نہیں رہتا۔ سارے کام خودبخود ہوتے چلے جارہے ہیں لوگ کہتے ہیں کہ میں جادوگر ہوں کوئی کچھ کہتا ہے کہ یہ دیوانہ ہے اور میں آنکھیں بند کر کے اپنے رہبر و رہنما سیدنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی منظر اپنی آنکھوں میں لے آتا ہوں ایسی خوشی نصیب ہوتی ہے جو بیان سے باہر ہے۔
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 674
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں