نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجو اپنے والدین کیساتھ حسن سلوک اوراحسان کرے گا اللہ اس کی طرف رحمت اور مہربانی کی نگاہ سے دیکھے گا اور میں اس کا ذمہ دار ہوں اور جو عورت رمضان میں اپنے خاوند کی رضاجوئی میں لگی رہتی ہے اللہ کے نزدیک اسے مریم اور آسیہ کا ثواب ملتا ہے اور جو کوئی رمضان میں کسی مسلمان کی حاجت پوری کرتا ہے اللہ اسکی دس لاکھ حاجتیں پوری کرتا ہے اور جو اس میں کسی عیال دارکو خیرات دیتا ہے اللہ اس کیلئے دس لاکھ نیکیاں لکھتا ہے اور اسکے دس لاکھ گناہ مٹا دیتا ہے اور اس کے دس لاکھ درجے بلند کرتا ہے۔
دوسری جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ بندے کی حاجت روائی میں رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی حاجت روائی میں لگا رہتا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص کسی حاجت میں اپنے بھائی کے ساتھ جاتا ہے یہاں تک کہ اس کیلئے اسے پورا کردیتا ہے تو اللہ اس کے قدم کو اس دن ثابت رکھے گا جس دن لوگوں کے قدم پھسل جائیں گے۔
قارئین!آپ نے مذکورہ احادیث میںخدمت خلق کے فضائل سنے‘ اب ڈھیروں واقعات میں سے چند واقعات آپ کی نذر ہیں۔ نیکیوں کے مہینے میں زیادہ سے زیادہ صدقہ خیرات کا اہتمام کریں اور پریشانیوں سے نجات پائیں۔
٭چودھری علی محمد بدر میرے جاننے والے ہیں۔ان کابیٹا سمال بزنس کارپوریشن میں افسر تھا اور اس حیثیت سے وہ کئی سال تک گلگت میں تعینات رہا۔ چودھری صاحب گرمیوں کا سارا عرصہ اپنے بیٹے کے پاس گلگت میں گزارا کرتے تھے۔
انہوں نے مجھے یہ واقعہ سنایا کہ وہاں ان کا تعارف معراج عالم نامی ایک صاحب سے ہوا جو بڑے زمیندار تھے اور پاکیزہ زندگی گزار رہے تھے۔ انہوں نے بدر صاحب کو بتایا کہ چند سال قبل ان کی ایک ٹانگ کی پنڈلی پر ایک پھوڑا نکل آیا جو کسی بھی علاج سے ٹھیک نہ ہوا اور پھیلتا چلا گیا حتیٰ کہ اسلام آباد کے ایک اعلیٰ ہسپتال کے ڈاکٹروں نے بھی اسے لاعلاج قرار دیدیا اور بتایا کہ ٹانگ کاٹنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ورنہ زندگی خطرے میں پڑ جائے گی۔ اس کیلئے ہسپتال کے سرجنوں نے آپریشن کی تاریخ دیدی اور انہیں ہسپتال داخل کرلیا۔
زمیندار نے بتایا کہ حتمی طور پر جب طے پاگیا کہ میری ٹانگ کاٹ دی جائے گی اور مجھے ہسپتال میں داخل کرلیا گیا تو اس روز میرے پاس 75 ہزار روپے تھے۔ میں نے ہسپتال کے نچلے درجے کے ملازموں یعنی چپڑاسیوں، صفائی کرنے والوں اور مالیوں، بیلداروں کو بلالیا اور ساری رقم ان میں تقسیم کردی۔
آپریشن والا دن آیا تو آخری مرتبہ ڈاکٹروں کا پینل بیٹھا۔ ان میں ایک نیا ڈاکٹر بھی تھا۔ اس نے پھوڑا دیکھ کر کہا کہ ابھی ٹانگ نہ کاٹیں فلاں ٹیکہ آزمالیں اور جب وہ ٹیکہ لگایا گیا تو حیرت انگیز طور پر پھوڑا ٹھیک ہونا شروع ہوگیا اور چند روز میں پھوڑے کاوجود ختم ہوگیا حالانکہ اس سے پہلے دنیا جہان کے بہترین علاج آزمائے جاچکے تھے اورافاقے کی کوئی صورت پیدا نہیں ہورہی تھی۔ دراصل یہ 75 ہزار روپے کے صدقے کی کرامت تھی۔
٭ میرے عزیز دوست انجینئر اشفاق احمد بھٹی نے بتایا کہ شیخوپورہ روڈ پر مومن پورہ کے نام سے بھٹی صاحب کا آبائی گاوں ہے‘ وہاں چودھری شیرعالم نامی ایک زمیندار تھے‘ چار سو ایکڑ زمین کے مالک تھے‘ (عمر 75 سال 2000ءمیں وفات پائی) اگرچہ ان پڑھ تھے لیکن بہت نیک، عبادت گزار، مخیر اور غریب پرور تھے۔ گاوں کے قریب جو زمین تھی اس میں سبزیاں خربوزے اور گنے کاشت کراتے اور ہر شخص کو عام اجازت تھی کہ جو جب چاہے جتنا چاہے سبزیاں، خربوزے اور گنے بلامعاوضہ آزادی سے حاصل کرے۔ چودھری شیرعالم غرباءو مساکین اور مستحق لوگوں کو ان نعمتوں سے مستفید ہوتے دیکھتے تو بہت خوش ہوتے اور اللہ کا شکر ادا کرتے۔یہی نہیں بلکہ چودھری صاحب نے گاوں کے بالکل قریب ایک ٹکڑا پرائمری سکول کیلئے وقف کردیا اور وہاںسکول تعمیر کردیا جبکہ اس سے پہلے اسکول گاوں سے بہت فاصلے پر تھا اور ننھے بچوں کو وہاں پہنچنے میں بڑی دشواری پیش آتی تھی۔ چودھری صاحب نے گاوں میں دو دینی مدرسے بھی قائم کیے۔ ایک بچوں کیلئے‘ دوسرا بچیوں کیلئے‘ چودھری صاحب سارے اخراجات خود برداشت کرتے، کہیں سے چندہ وصول نہ کرتے‘ غریب بچوں کیلئے رہائش، کھانے اور لباس کا بھی خود ہی انتظام کرتے‘ جس پر ماہانہ خرچ چالیس ہزار تک پہنچ جاتا تھا۔
اس خیرپسندی اور خدمت خلق کا صلہ چودھری شیرعالم بھٹی مرحوم کو دنیا ہی میں یہ ملا کہ اللہ نے انہیں پانچ بیٹے عطا فرمائے۔ سب فرمانبردار، نیک اور اپنے والد کے مزاج اور روایت کے امین تھے۔ وہ محترم کی زندگی میں بھی باہم متحد ہوکر ایک ہی گھر میں زندگی گزارتے رہے اور ان کی وفات کے بعد بھی ان کی باہمی محبت اور تعلق میں کمی واقع نہ ہوئی۔ سب بھائی خدمت خلق اور دینی بھلائی کے کاموں میں بدستور مصروف عمل ہیں۔
غریب پروری اور فلاح عامہ کا دوسرا انعام چودھری شیرعالم کو یہ ملا کہ ان کی ساری فصلیں حیرت انگیز طورپر خوب پھلتی پھولتی تھیں۔ انہیں کبھی کیڑا لگا‘ نہ کوئی دوسری موسمی افتاد نے انہیں متاثر کیا۔ حد تو یہ ہے کہ 1971ءمیں دریائے راوی میں زبردست سیلاب آیا اور پورا علاقہ اس کی زد میں آکر برباد ہوگیا مگر موصوف محترم کی فصلوں کو معمولی سا بھی نقصان نہ پہنچا۔
٭میں عبدالرحمان نامی ایک شخص کو ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ وہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والا سرکاری ملازم تھا۔ تنخواہ کے سوا اس کی آمدنی کا کوئی معمولی سا بھی ذریعہ نہ تھا مگر اللہ نے اسے بہت بڑا دل عطا فرمایا تھا اور وہ اپنی حیثیت سے بڑھ کر اپنے والدین اور غریب رشتہ داروں کی مددکرتا تھا خصوصاً اس نے اپنی تین بہنوں کی خوب خدمت کی جس کے نتیجے میں اللہ نے اسے خوب نوازا‘ اسے دنوں میں تیزی کے ساتھ ترقیاں ملتی رہیں حتیٰ کہ وہ ملازمت کے بیسویںگریڈ تک پہنچ گیا۔
اپنے آبائی گاوں میں عبدالرحمن کے دو بڑے بھائی رہتے تھے‘ یہ خود ملازمت کے سلسلے میں لاہور میں مقیم تھا اور والد کی وفات کے بعد والدہ اسی کے پاس رہتی تھیں۔گاوں میں اس کے حصے میں تین کمروں کا ایک مکان آیا تھا اور دنیاوی اعتبار سے اس مکان کے سوا اس کی کوئی جائیداد نہ تھی‘ نہ زمین، نہ پلاٹ اور نہ کوئی دکان، یہی اس کا کل اثاثہ تھا.... اب چونکہ والدہ اس کے پاس شہر میں رہتی تھیں اور مکان خالی پڑا تھا‘ اس لیے بڑے بھائی نے وہ خریدنے کی خواہش ظاہر کی اور اس نے بہت سستی قیمت پر یعنی صرف بیس ہزار روپے میں مکان بھائی کے حوالے کردیا۔
یہ بات مارچ 1983ءکی ہے۔ 20 ہزار روپے کی رقم عبدالرحمن نے زندگی میں پہلی بار دیکھی تھی۔ اس کی بہت سی ضروریات تھیں۔ مالی مسائل تھے لیکن اس نے کمال ایثار سے کام لیا اور یہ ساری کی ساری رقم اپنی بڑی بہن کی بیٹی کی شادی میں صرف کردی۔ اسکا بہنوئی بہت نالائق اور غیرذمہ دار آدمی تھا۔ بیوی بچوں پر کچھ بھی خرچ نہ کرتا تھا اور ان کی کفالت بھی عبدالرحمان کے ذمہ تھی۔ چنانچہ اس نے بھانجی کا سارا ضروری جہیز بنایا‘ شادی کے جملہ انتظامات کیے اور بارات کو کھانا وغیرہ کھلا کر بیٹی کو عزت سے رخصت کردیا۔اس واقعے کو تین ہی ماہ گزرے تھے کہ جون 1983ءمیں عبدالرحمن کو لاہور کی ایک بہت اچھی بستی میں دس مرلے کا بنابنایا کھلا، روشن اور ہوادار مکان مل گیا۔ وہ ذاتی وسائل سے عمر بھر بھی کوشش کرتا تو اس بستی میں تین مرلے کا پلاٹ بھی نہ خرید سکتا تھا.... مگر اللہ کا وعدہ بھی تو اٹل ہے کہ جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کریگا، اللہ اس کیلئے مشکلات سے نکلنے کا راستہ پیدا کردیگا اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جہاں سے اس کا وہم وگمان بھی نہ ہوگا۔“ (سورة الطلاق، آیت 2-3)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں