ہمیشہ سے دنیا کی یہ ریت ہے کہ اس نے ہنستے مسکراتے انسانوں کو بڑی خوش دلی سے قبول کیا ہے اور روتے دھوتے‘ منہ بسورتے‘ غم زدہ اور مایوس افراد کو یکسر نظر انداز کیا ہے۔موجودہ حالات میں خوشیاں مفقود ہیں اور غم و الم منہ کھولے کھڑے ہیں۔
مشہور قول ہے کہ ”دنیا خوش رہنے والے کے ساتھ خوش رہتی ہے اور رونے والے کو تنہا چھوڑ دیتی ہے۔“
ایک تجارتی ادارے کے دفتر میں لوگ سرگوشی کررہے تھے: ”رشید صاحب کو آج پھر ڈپریشن کا دورہ پڑا ہے۔ آخر کب تک یہ ہوتا رہے گا۔ اس طرح ہماری کمپنی کا تو دیوالیہ نکل جائے گا۔ انہیں جلد اس کمپنی سے فارغ کرکے کسی معقول شخص کا انتظام کرنا چاہیے۔“
”امی! آپ بھائی جان کی بیماری کا رونا کب تک روتی رہیں گی؟ کب تک ہم لوگ ان کے گھٹنوں سے لگے رہیں گے؟ ہم تو زندگی سے بیزار ہوگئے۔ اب ہم سے یہ اذیت‘ شکایت‘ مشکلات برداشت نہیں ہوتیں۔ آخر ہمیں بھی زندہ رہنے کا حق ہے۔ ہماری بھی کچھ خواہشات‘ تمنائیں‘ آرزوئیں ہیں۔ آخر ہم اس کی تکمیل کب کریں اور کب تک اپنی خواہشات کا گلا گھوٹتے رہیں؟“ فراز نے زور سے دروازہ کھولا اور باہر کی راہ لی۔
”ارے دیکھو! ساجدہ باجی کا آج بھی موڈ آف ہے۔ ان کو تو یہیں رہنے دو۔ سارا مزا کرکرا کرکے رکھ دیا۔ چلو ہم سب پکنک پر چلتے ہیں۔ ایک بے جان چیز کو آخر ہم کب تک گھسیٹتے رہیں گے۔ چھوڑو ان کو ورنہ ہماری ساری پکنک کا بیڑا غرق ہوجائے گا۔” رفیعہ نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔
اس قسم کے واقعات اکثر و بیشتر زندگی میں رونما ہوتے رہتے ہیں۔ واقعی یہ درست ہے کہ ایک افسردہ دل انسان کا سایہ بھی اس کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ ہر چیز کی ایک انتہا ہوتی ہے۔ آخر کب تک انسان غموں‘ الجھنوں‘ پریشانیوں‘ اذیتوں اور تکلیفوں میں گھرا رہے گا۔ انسان کی زندگی میں ایک ایسا لمحہ بھی آتا ہے جب انسان اس جمود اور خول کو توڑ کر خوشیوں‘ راحتوں‘ شادمانیوں کی تلاش میں سرگرداں ہوجاتا ہے۔
یہ بات حقائق پر مبنی ہے کہ انسان یکسانیت سے گھبرا جاتا ہے اور زندگی میں تبدیلیاں چاہتا ہے‘ وہ غموں‘ اذیتوں‘ تکلیفوں کے بندھن کو توڑ کر راحتوں‘ خوشیوں کے سفر پر نکلنا چاہتا ہے‘ چاہے وہ تبدیلیاں چند لمحات کی ہوں یا چند دن کی۔ ہر شخص زندگی میں خوشگوار تبدیلی کیلئے پرفضا مقام پر یا بہت پرآسائش جگہ جانا چاہتا ہے بلکہ لوگوں کے درمیان صرف بے تکلف گپ شپ اور ہنسی مذاق سے بھی فضا بدل سکتی ہے اور انسانی ذہن میں خوشگوار تبدیلی رونما ہوسکتی ہے۔ اپنی باتوں یا گفتگو میں ظرافت کو شامل کرلیا جائے تو خاطر خواہ خوشگوار تبدیلیاں نمایاں طور پر محسوس کی جاسکتی ہیں۔کوئی دلچسپ مشغلہ اپنا کر بھی زندگی سے لطف اندوز ہوا جاسکتا ہے۔
ہمیشہ سے دنیا کی یہ ریت دلچسپ ہے کہ اس نے ہنستے مسکراتے انسانوں کو بڑی خوش دلی سے قبول کیا ہے اور روتے دھوتے‘ منہ بسورتے‘ غم زدہ اور مایوس افراد کو یکسر نظر انداز کیا ہے۔
نفسانفسی کے اس دور میں خوشی‘ مسرت‘ راحت‘شادمانی کے چند لمحات بھی حاصل ہوجائیں تو اس سے بڑھ کر خوش نصیبی کیا ہوسکتی ہے۔ موجودہ حالات میں خوشیاں مفقود ہیں اور غم و الم منہ کھولے کھڑے ہیں۔ انسان غم و اذیت کے چنگل میں اس قدر پھنس گیا ہے کہ ان سے بچنا مشکل معلوم ہوتا ہے۔ وہ فرار کی راہیں اختیار کرنا چاہتا ہے اور چھوٹی چھوٹی خوشیاں سمیٹنا چاہتا ہے۔
عقل سلیم رکھنے والے انسان کیلئے ہنسنا ایک فطری عمل ہے۔ کسی انسان کے چہرے پر تبسم کی لہر اس وقت نمودار ہوتی ہے جب وہ عام روش کے خلاف کسی غیرمعمولی چیز کو دیکھتا ہے جیسے کسی شخص کا انداز بے ڈول ہویا سڑک پر ایسے شخص کا گزر ہو جیسے وہ کسی کارٹوں کا نمونہ ہو۔ اس نے سبزپاجامہ‘ پیلی قمیض اور نیلی ٹوپی زیب تن کررکھی ہو تو اسے دیکھتے ہی ایک عجوبے کا تصور آنکھوں میں ابھرتا ہے اور یوں ہونٹوں پر تبسم کی لہر دوڑ جاتی ہے۔
جو لوگ مسکراتے نہیں درحقیقت وہ بیمار ہوتے ہیں اور وہ وقت سے پہلے بوڑھے ہوجاتے ہیں۔ دراصل لوگ خود کو دنیا کی خوبصورتی‘ رعنائی‘ دل فریبی اور شادابی سے دور رکھتے ہیں۔ ایک صحت مند شخص کا ذہن کھلے انداز میں ہنسنے اور مسکرانے کی خواہش محسوس کرسکتا ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ ہم میں اپنی غلطیوں پر ہنسنے کی صلاحیت بھی ہو۔
دراصل اپنے آپ پر ہنسنا اپنی غلطیوں سے لطف اندوز ہونا بھی ایک فن کی حیثیت رکھتا ہے۔ جو افراد دوسرے لوگوں کو خوش رکھتے ہیں وہ دراصل روح اور دل دونوں کو جلا بخشتے ہیں اور لوگ ان کی صحبت سے لطف اندوز بھی خوب ہوتے ہیں۔
یہ بات طبی اعتبار سے بھی ثابت ہے کہ بہت سی بیماریاں اور پریشانیاں‘ غمگین جذبات اور افسردگی کا نتیجہ ہوتی ہیں اور آدھی سے زیادہ بیماریاں ہنسنے‘ مسکرانے کی وجہ سے بہ آسانی رفع ہوجاتی ہیں۔
مسکرانے سے بیماری میں مبتلا فرد بھی خود کو بہت ہلکا پھلکا‘ پرسکون اور مطمئن محسوس کرتا ہے۔ خوش مزاجی سے اس کی آدھی پریشانیاں اور غم دورہوجاتے ہیں۔
نفسیاتی اعتبار سے ہنسنا آسان اور سہل عمل ہے۔ یہ انسانی جسم میں دوران خون کو بڑھاتا ہے۔ ذہنی دباوکو کم کرتا ہے۔ اس سے تھکن یکسر غائب ہوجاتی ہے‘ منفی سوچیں اور تفکرات رفع ہوجاتے ہیں۔ اس طرح اس میں مسائل حل کرنے کی ایک نئی لگن‘ تازگی حوصلہ اور جستجو پیدا ہوجاتی ہے۔
خوش دلی بہترین علاج غم ہے۔ یہ کئی دواوں سے بہتر دوا ہے۔ کئی قیمتی ٹانکوں سے زیادہ توانائی بخش ٹانک ہے۔ اس کے ذریعے سے دنیا اور زندگی خوبصورت‘ دل فریب اور حسین بن جاتی ہے۔ ایسا شخص دراصل زندہ رہنا چاہتا ہے۔ وہ زندگی کو مثبت طرز فکر سے دیکھتا ہے اور آنے والی تمام رکاوٹوں اور مصائب کو ہنس کھیل کر دور کردیتا ہے۔
کسی دانشور کا یہ قول درست ہے کہ ”انسان کو کام کی زیادتی نہیں مارتی بلکہ تفکرات مارتے ہیں“ اس کا علاج یہی ہے کہ ہم سب مل کرخوش رہیںاور خوب خوش مزاج بنیں“ کیونکہ اس طرح غموں کے بادل چھٹ جاتے ہیں۔
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 636
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں