اشتہار بازی کے نتیجے میں تیسری دنیا کے ایک کروڑ بچے بوتل دودھ کے امراض کا شکار ہو گئے۔ ”ترقی پذیر ممالک میں وہ تمام بچے جنہیں ماں کا دودھ میسر نہیں اکثر مرجاتے ہیں۔ بہترین حالات میں بھی ایسے بچوں کا زندہ رہنا محال ہے؟
اس انکشاف نے کہ بچوں کی خوراک تیار کرنے والی شہرہ آفاق کمپنیاں گمراہ کن اشتہار بازی میں مصروف ہیں۔ تمام دنیا میں ہلچل مچا دی ہے اور شاید اسی انکشاف کے باعث ماں کے دودھ اور فیڈر کی تقابلی افادیتی کی بحث بھی چھڑ گئی ہے اور عالمی اداروں کی حب زرکی ایک مکروہ کہانی سامنے آئی ہے۔ ایک طرف ہنستا مسکراتا اشتہاری بچہ ہے جس کی حیثیت شاہکار سے کسی طور کم نہیں۔ دوسری طرف اسی فارمولے کے دودھ کا شکار حقیقی بچہ جو بیماری اور کم غذائیت کا چلتا پھرتا شاہکار ہے۔ غذائیت کے اس اسکینڈل کا انکشاف منلیسوٹا(امریکہ) میں قائم ایک تنظیم انفیکٹ نے کیا ہے۔ انفیکٹ کے بانی رکن مسٹر ڈوگلس حنسن کا کہنا ہے:
جب ایک ادارہ انسانیت سوز حرکات کا مرتکب ہوتا ہے تو پھر اس کی بداخلاقی کے سد باب کیلئے اسے معاشی ضرب پہنچاتا ہے 196 رب روپے کے سالانہ بجٹ والی ایک امریکی فرم اپنی دودھ کی مصنوعات کی نصف مقدار ایشیاءافریقہ اور امریکہ میں فروخت کر رہی ہے۔ اس کا دودھ دنیا میں سب سے زیادہ فروخت ہوتا ہے اور یہ انتہائی تلخ حقیقت ہے کہ اس نے اشتہاروں میں دکھائے جانے والے صحتمند بچوں کے بجائے اسہال پیچش کمزوری اور زردروئی کے مریض بچوں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے۔ انفیکٹ کے جمع کردہ اعدادو شمار کے مطابق ایسے بچوں کی تعداد لاکھوں تک جا پہنچی ہے۔
لاس اینجلس کیلیفورنیا یونیورسٹی کی ڈویژن آف انٹرنیشنل ہیلتھ کے ہیڈ ڈاکٹر ڈیرک جیلنی کی سربراہی میں صحت کی امریکی سینیٹ کی سب کمیٹی نے تخمینہ لگایا کہ اشتہار بازی کے نتیجے میں تیسری دنیا کے ایک کروڑ بچے بوتل دودھ کے امراض کا شکار ہو گئے۔ انفیکٹ کے ڈوگلس جانسن کا کہنا ہے کہ پاﺅڈر ملک کمپنیوں نے چند عشرے پیشتر اشتہار بازی کے فن سے کام لیتے ہوئے خشک دودھ کو جدید سائنسی تحقیقات کا ایک معجزہ قرار دیا اور ماں کا دودھ پلانے کو فرسودہ و تکلیف دہ رسم ثابت کرنے کی کوشش کی۔ انفیکٹ کے تجزیہ نگاروں کا بیان ہے کہ تیسری دنیا کے پس ماندہ ملکوں کی مائیں بازاری دودھ کی قوت خرید نہیں رکھتی تھیں الیکٹرونک کمپنیوں کے اشتہاری سحر نے انہیں اس قدر متاثر کیا کہ وہ اپنے دودھ کو نظر انداز کر کے مہنگے بازاری دودھ خریدنے پر مجبور ہوگئیں اور یوں ان ممالک کے لاکھوں بچے ”باٹل بے بی بیماری“ کا شکار ہو گئے۔ ڈبے کا دودھ بیچنے والے اشتہار بازوں نے سارازور یہ ثابت کرنے پر لگایا ہے کہ تیسری دنیا کی ماﺅں کی کم خوراکی ان کے اپنے دودھ کی کمزوری کا باعث ہے۔ لیکن امریکن نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کی سالانہ رپورٹ میں شائع ہونے والے حقائق کے مطابق کم خوراک استعمال کرنے والی ماﺅں کا دودھ بھی مقدار یا کوالٹی میں پاﺅڈر ملک سے افادیت میں کہیں بڑھ کر ہے۔
ڈاکٹر جیلیفی لکھتے ہیں:”بیشک صحت مندماﺅں کا دودھ بچوں کی نشوونما اور غذائیت کا ضامن ہے۔ لیکن کم غذائیت کا شکار ماﺅں کا دودھ بھی حیرت انگیز طور پر بچوں کی صحت کیلئے مفید ہے۔ غذائیت پر بارھویں بین الاقوامی کانفرنس کے نائب صدر ڈاکٹر سیموئیل جی فومون نے کہا:
”ترقی پذیر ممالک میں وہ تمام بچے جنہیں ماں کا دودھ میسر نہیں اکثر مرجاتے ہیں۔ بہترین حالات میں بھی ایسے بچوں کا زندہ رہنا محال ہے؟
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی غذائی خدمات کے سربراہ ڈاکٹر موئیسز بہار کے خیال میں ماں کا دودھ چھڑانا اور مصنوعی دودھ پلانا ایسے اقدامات ہیں جن سے انفیکشن کے خلاف بچے کا قدرتی دفاعی نظام کمزور پڑ جاتا ہے اور وہ غیر صحت مند حالات کا مقابلہ کرنے کے بجائے ان کا فوری شکار ہو جاتا ہے۔
کارنل یونیورسٹی کے شبہ بین الاقوامی غذائیت کے سربراہ ڈاکٹر مائیکل لیتھم کا نظریہ یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں بچوں کی بڑھتی ہوئی اموات کی شرح کا سب سے بڑا سبب بوتل کا دودھ ہے۔
ڈاکٹر سسلی ولیمز نے اپنی کتاب ”دودھ اور قتل“میں کہا ہے کہ پسماندہ ملکوں میں بوتل کا دودھ پینے والے بچوں کی شرح اموات ماں کا دودھ پینے والے بچوں سے دوگنی ہے۔ ان کی یہ ریسرج سنگاپور کے ایک چینی قصبے کے بچوں پر مشتمل تھی۔
جانسن کا کہنا ہے کہ ملک پاﺅڈر تیار کرنے والی کمپنیوں نے اپنے پر فریب اشتہارات کے ساتھ ساتھ سیلز ویمن کا بھی جال بچھا رکھا تھا جو زچہ بچہ وارڈز یا نومولود بچوں کے گھروں میں جا کر دودھ بطور نمونہ پیش کرتی تھیں۔ اس طرح یہ کمپنیاں دھوکہ دہی کے ساتھ ساتھ شعبہ صحت میں گھس گئیں۔ انہوں نے ہسپتالوں اور کلینکوں کو دودھ مہیا کرنا شروع کر دیا۔ ڈاکٹروں اور ان کی بیویوں کو تحفے دے کر رام کیا۔ اس کے ساتھ بڑے بڑے طبی کنونشن بلانے کا اہتمام کیا۔
ڈاکٹر سسلی ولیمز نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ان کمپنیوں کا کاروبار انتہائی گھٹیا اور خوفناک ہے۔ میں نے سنگاپور میں اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ان کی تنخواہ دار نرسیں ماﺅں کی چھاتیوں سے بچوں کو الگ کر کے انہیں بوتل کے دودھ کا عادی بنا رہی تھیں۔ اور یوں مجھ پر پہلی بار عیاں ہوا کہ ان کمپنیوں کو بچوں کی صحت سے کوئی غرض نہیں۔ بلکہ یہ تو اپنا فارمولا دودھ بیچنا چاہتی ہیں۔ ملائشیا کے کوالالمپور جنرل ہسپتال کے ڈاکٹر محمد شام قاسم کہتے ہیں”جتنی بھی صحت کانفرنسیں منعقد ہوتی ہیں۔ ان کا اہتمام یہی کمپنیاں کرتی ہیں چونکہ ڈاکٹر ان کے ممنون ہوتے ہیں۔ اس لئے وہ ان کی ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور ہیں اس طرح ایک لحاظ سے ان صحت کانفرنسوں کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔“
تیسری دنیا میں ان فارمولا ملک کمپنیوں کی وجہ سے جس قدر وسیع پیمانے پر کمزوری بیماری اور اموات ہوتی ہیں۔ اس پر پان امریکن ہیلتھ آرگنائزیشن، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور ”انٹرنیشنل کانگریس برائے غذا“ نے ان بین الاقوامی دھوکے باز کمپنیوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ انفیکٹ نے اپنے ایک سرکلر میں کہا ہے کہ افریقہ‘ ایشیا اور امریکہ میں ان کے ایک اشارے پر فارمولا دودھ اور دیگر مصنوعات پر مکمل بائیکاٹ ہوسکتا ہے۔ ایک ماں کو اس کی ترغیب دینا کہ وہ نہایت معصومیت اور بھولپن کے ساتھ اپنے بچے کو زہر پلانا شروع کردے نہایت مکروہ اور قابل نفرت عمل ہے جس کی مزاحمت جتنی بھی کی جائے کم ہے۔ اس ضمن میں سب سے سخت موقف یونیسیف اور ڈبلیو ایچ او کے زیراہتمام جنیوا میں ہونے والے چار روزہ اجلاس میں اختیار کیا گیا جس میں دنیا بھر کے 140 وفود نے شرکت کی۔ کانفرنس کے مندوبین کا عمومی نظریہ یہ ہے کہ بچوں کی خوراک تیار کرنے والی تمام کمپنیوں کو پابند کیا جائے کہ وہ گمراہ کن اشتہاربازی سے باز رہیں۔ پاکستان میں نصف درجن سے زائد بین الاقوامی فرمیں فارمولا دودھ کی تشہیر میں مصروف ہیں اور ان کی مارکیٹ میں اجارہ داری ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں