ایک وقت تھا کہ مسلمانوں کے دلوں میں قرآن کی محبت رچی بسی ہوئی تھی اور علی الصبح بیدار ہونے کے بعد جب تک قرآن مجید کے ایک اچھے خاصے حصے کی تلاوت نہ کرلیتے تو دنیوی کاموں کو ہاتھ نہ لگاتے تھے، کیا مرد کیا عورتیں‘ سب ہی کایہی حال ہوتا تھا
وقت گزرتا گیا‘ اطوار تبدیل ہوگئے‘ دوسروں کی دیکھا دیکھی اونچا اڑنے کی آس میں نہ ہم چاند کو پاسکے اور نہ ہی زمین پر مضبوط قدموں کے ساتھ کھڑے ہوسکے۔کہتے ہیں وقت برف کی طرح ہے ابھی ہے‘ ابھی پانی بن کر بہہ گیا۔ ہم نہ اسے دیکھ سکتے ہیں‘ نہ چھو سکتے ہیں‘ ہرپل ماضی کاحصہ بنتا جارہا ہے‘ ماضی گزرا ہوا لمحہ‘ بیتا ہوا کل‘ جسے ہم کبھی واپس نہیں لاسکتے‘ وقت تو ریت کے ذروں کی طرح ہمارے ہاتھوں سے نکل جاتا ہے ہاں! اگر یہ وقت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں گزر ہوا ہوگا تو یقینا یہ خوشگوار یادیں چھوڑ جائیگا۔ رمضان المبارک آرہا ہے‘ اپنے گردوپیش پرغور کریں بہت سے لوگ ایسے تھے جوپچھلے رمضان میں ہمارے ساتھ تھے لیکن آج وہ ہمارا ساتھ چھوڑ کردارفانی سے داربقا کی طرف کوچ کرچکے ہیں۔ آج وقت ہے کہ ہم اپنی آخرت سنوار لیں اور رمضان کا اکرام کریں‘ حدیث کا مفہوم ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بدنصیب ہے وہ جس نے رمضان پایا لیکن اللہ سے اپنی مغفرت نہ کروائی۔
ایک وقت تھا کہ مسلمانوں کے دلوں میں قرآن کی محبت رچی بسی ہوئی تھی‘ علی الصبح بیدار ہونے کے بعد جب تک قرآن مجید کے ایک اچھے خاصے حصے کی تلاوت نہ کرلیتے تو دنیوی کاموں کو ہاتھ نہ لگاتے تھے، کیا مرد کیا عورتیں‘ سب ہی کایہی حال ہوتا تھا اور صبح کے سہانے اور دلفریب وقت میں ہر طرف سے گھروں سے دھیمی دھیمی تلاوت کی آوازیں سنائی دیتی تھیں اور یہ حال سال بھر ہی رہا کرتا تھا اور جب رمضان المبارک کا مقدس مہینہ آتا تھا تو اس تلاوت کے معمول میں اچھا خاصا اضافہ ہوجاتا تھا‘ خواتین میں نیکیکا جذبہ، قرآن کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی تھی‘ قرآن کی لوری میں پروان چڑھنے والا بچہ بڑا ہونے کے بعد خود بخود قرآن پڑھنے کی طرف مائل ہوتا تھا بلکہ ماں کے بار بار بچے کو قرآن سنانے کی وجہ سے اس کو بغیر پڑھے بھی کچھ نہ کچھ قرآن کا حصہ یاد بھی ہوجاتا تھا لیکن آج مسلمانوں کے حالات میں کس قدر تبدیلی آگئی ہے اللہ کی پناہ! علی الصبح قرآن کی بجائے ٹی وی کھولا جاتا ہے بچے کے کان میں قرآن کی بجائے گانوں کی آوازیں گونجتی ہیں جس کے نتیجے میں بچوں میں دینی جذبہ، قرآن کی محبت کی بجائے بے حیائی، بے ادبی بے دینی پروان چڑھ رہی ہے، قرآن مجید یاد ہونے کے بجائے عشقیہ فحش گانے یاد ہوتے ہیں‘ بڑے ہونے کے بعد بچے تلاوت کی بجائے گانے گنگناتے ہیں‘ کیا رمضان ہو کیاغیررمضان‘ جب والدین کا ہی یہی حال ہوتو اولاد میں قرآن کی کیا محبت ہوگی؟ ٹی وی، گانا اوردیگر برے کاموں کی محبت رچ بس چکی ہوتی ہے پھر ان کو ہزار نصیحتیں کرو بہت مشکل ہے کہ وہ موثر ہوں۔
آئیے کچھ دیر اپنے بڑوں کی درخشاں زندگیوں سے چند موتی چن کر اپنے قلوب کر منور کرتے ہیں۔
حضرت رابعہ بصریہ ہر رات ہزار رکعت نفل نماز پڑھتی تھیں‘ بی بی اولیاءجن کا مسکن شہر دہلی تھا چالیس چالیس دن مسلسل اپنے حجرے کے اندر مصروف عبادت رہتی تھیں ۔حضرت بہاو الدین زکریا رحمتہ اللہ علیہ کی بہو ہر روز ایک قرآن مجید ختم کرتی تھیں۔ حضرت شمس الحق افغانی رحمتہ اللہ علیہ کی اہلیہ نماز تہجد اشراق‘ اوابین اور شریعت مطہرہ کی چھوٹی سے چھوٹی چیز کو بھی نہ چھوڑتی تھیں‘ تلاوت قرآن‘ ذکر باری میں ہر وقت مشغول رہتی تھیں۔ حکیم محمد سعید کی والدہ نماز‘ روزہ کی سخت پابند تھیں‘حکیم صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے رات کو سوتے وقت ہمیشہ ان کو جابجا مصلے پر دیکھااور صبح اٹھتا تو والدہ صاحبہ جائے نماز پر ہی ہوتیں۔
حضرت خواجہ حسن سورگ رحمتہ اللہ علیہ کی بیٹیاں 15،15 پارے پڑھ کر کھانا تیار کرتی تھیں۔
شیخ الحدیث کی والدہ ماجدہ کا معمول تھا کہ رمضان میں روزانہ پورا قرآن مجید اور مزید دس سپارے پڑھ لیا کرتی تھیں اس طرح ہر رمضان میں چالیس قرآن مجید ختم کرتی تھیں‘ قرآن رواں اتنا تھا کہ گھر کے کام کاج اور انتظامات میں فرق نہ آتا تھا بلکہ اہتمام تھا کہ تلاوت کے وقت ہاتھ سے کچھ نہ کچھ کام کرتی رہتیں۔
حضرت مولانا مفتی شفیع صاحب کی اہلیہ محترمہ عبادت کا اعلیٰ ذوق رکھتی تھیں‘ مناجات مقبول اذکار و نوافل کا معمول کبھی قضا نہیں ہوا‘ صبح سے لے کر نصف شب تک بغیر کسی وقفے کے گھر کے کاموں میں مشغول رہتیں۔ آخری لمحات میں جب بولنے کی طاقت ختم ہوگئی تو اچانک ہاتھوں میں حرکت محسوس ہوئی جیسے وہ تکیے کے نیچے کچھ تلاش کرنا چاہتی ہیں تکیہ کے نیچے ان کی تسبیح رکھی تھی ہاتھ میں تسبیح دی تو جلدی جلدی تسبیح کو گھمایا اور اسی حالت میں بے ہوش ہوگئیں گویا عالم ہوش میں ان کے ہاتھوں کی آخری اختیاری حرکت تسبیح کیلئے تھی۔
والدہ محترمہ حضرت نواب عشرت علی خان ‘جب سے ہوش سنبھالا صوم و صلوٰة اور تلاوت قرآن کی پابند تھیں‘ تہجد کی نمازپر مثل فرض نماز کے ہمیشگی تھی حتیٰ کہ جس رات سر میں شدید ضرب آئی تہجد کی نیت سے اٹھی تھیں وضو کیا لوٹا ہاتھ میں تھا کہ گر پڑیں جب بستر پر لٹایا تو بس یہی دھن تھی کہ دو رکعت نفل پڑھ لوں۔حضرت شیخ الحدیث فرماتے ہیں ہمارے گھر کی مستورات میں میری بچیاں ماشاءاللہ روزانہ بیس بیس پاروں کی تلاوت کیساتھ ساتھ ماہ رمضان کی راتوں کا حصہ اپنے حفاظ سے سننے میں گزارتیں اور مقابلہ ہوتا کہ کس کے پارے زیادہ ہوئے۔ میری دادی صاحبہ رحمتہ اللہ علیہ حافظہ تھیں‘ ایک منزل تلاوت روزانہ کا مستقل معمول تھا۔
اس گئے گزرے دور میں ہر طرف پھیلی ہوئی تاریکی و جہالت کو دیکھئے۔ دین سے بے راہ روی اور گریز کی ان گنت راہوں کو دیکھئے اور اپنی خوش بختی کا اندازہ کیجئے کہ اس مالک بزرگ و برتر نے اپنے دین کی سربلندی‘ پاسبانی اور اس کی غربت کو دور کرنے کیلئے ہمیں منتخب کیا ہے۔آپ سے خیرخواہی کا تقاضا ہے کہ آپ اس مبارک مہینہ میں نیکیاں کمانے اور اجر سمیٹنے کی طرف متوجہ ہوں۔ہمیشہ باقی رہنے والی زندگی کیلئے قیمتی اثاثہ اور متاع بے بہا جمع کرنے کا یہی موقع ہے۔ اپنے رب سے تعلق مضبوط کرلیں اور اس کی قربت کا یہ بہترین ماہ ہے۔
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 632
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں