ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی کو پر سکون اور اچھا بنانے کے لئے کہ اچھا کھائیں گے‘ اچھا پئیں گے‘ ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں ‘ آئینہ اکبر کتاب پڑھ رہا تھا‘ کتا ب بند کر کے خیال آیا کہ اکبربہت بڑا بادشاہ تھا‘ اس کے بڑے بڑے عمائدین تھے‘فلاں تھا‘ فلاں تھا‘ اچھا اکبر کی حکومتیں تھیں‘ اسکے کیا کمال تھے اسکی بارہ سو بیویاں تھیں‘ وہ حبشی عورتوں کا دودھ پیتا تھا‘ وہ ایسا تھا‘ وہ فلاں تھا‘ پھر دل میں خیال آیا کہ اب تو وہ ختم ہو گیا قلعہ امر کوٹ سندھ میں اکبر پیدا ہوا تھا‘ جو ہر آفتاب جی نے ہمایوں نامہ کے نام سے ہمایوںکی زندگی پر بڑی نایا ب کتا ب لکھی ہے۔اس میں ہمایوں کے حوالے سے لکھا کہ قلعہ امر کوٹ سندھ میں جب میں پہنچا‘ میں اس وقت تخت سے بے تخت تھا‘میں اپنے حواریوں کے ساتھ چھپ چھپا کر وہاں پہنچا۔
سب کچھ ملا مگر....
کہنے لگے خیمے میں جب اکبر پیدا ہوا تو اس وقت میرے پاس باٹنے کے لئے کچھ بھی نہ تھا‘ میرے پاس ایک نافہ تھا‘ نافہ اس سے ہرن کی ناف کو باندھتے ہیں‘ اس سے اس کی ناف میں جو خون ہوتا ہے وہ جم جاتا ہے‘ جب وہ جم جاتا ہے تو آہستہ آہستہ اس میں خوشبو شروع ہو جاتی ہے اللہ کا کمال دیکھیں وہ کستوری بن جاتی ہے اور بارہ سے اٹھارہ ہزار روپے تولہ بکتی ہے‘ہمایوں کہتا ہے میرے پاس ایک نافہ تھا‘ میں نے جب اس نافے کو کاٹا‘ اس کی خوشبو پورے خیمے میں پھیل گئی اور میں نے دعا کی کہ اے اِلہ العالمین جس طرح اس نافے کی خوشبو اس پورے خیمے میں پھیلی ہے اس طرح میرے اس بیٹے کی خوشبو پورے ہندوستان میں پھیلا دینا‘ اب وہاں اس نے بڑا عجیب حاشیہ لکھا‘ کہنے لگا اگر اکبر کا باپ یہ دعا کر لیتا کہ اے اللہ جس طرح نافے کی خوشبو پورے خیمے میں پھیلی ہے اے اللہ اس سے ہدایت کی خوشبو پورے ہندوستان میں پھیلا دینا تو پورے ہندوستان میں ہدایت آ جاتی لیکن اس نے ہدایت نہیں مانگی تھی‘ گمراہی آئی‘ وقت گزرتا گیا اور پھر اللہ جل شانہ نے وقت کا ایک مجدد (ہزار سال کے بعد مجدد آتا ہے) مجدد الف (الف کہتے ہیں ہزار کو) ثانی شیخ احمد سر ہندی کو بھیجا اس نے اس کو قید کیا اس کے بعد اس کے بیٹے شہزادہ سلیم نے اس کو قید کیا پھر اللہ پاک نے اس کو ہدایت دی اور وہ پھر بےعت ہوا اور پھر اس کو اللہ پاک نے عجیب کمال عطا فرمایا جس نکتے کی طرف اشارہ کرنے کے لئے میں نے سارا تاریخ کا ایک باب پلٹا ہے وہ یہ کے ایک گھڑی میسر آئی تھی‘ ہمایوں نے اس کو دنیاوی اعتبار سے موثر بنایا‘وہ گھڑی دنیاوی اعتبار سے موثر بن گئی‘ باپ کا اللہ کے ہاں اپنا معاملہ کیا ہے اللہ کی باتیں اللہ ہی جانے لیکن اکبر باپ کی آخرت کا ذرےعہ نہ بن سکا۔
اللہ سے ہدایت مانگو
میں نے ایک اللہ والے سے بڑی عجیب بات سنی‘ فرمایا اگر تمہیں بس کا بڑی بے چینی سے انتظار ہے اور تم چاہتے ہوکہ ابھی مجھے سواری مل جائے اور اندر بے چینی اور بے قراری اور اضطرار و اضطراب ہے‘ سب سے پہلے ہدایت مانگو‘ پھر بس مانگو‘ دولت کی ضرورت ہے‘ چیزوں کی ضرورت ہے ‘کوئی حرج نہیں‘ رب کو یاد کرو‘ اسی سے سوال کرو‘ عہدہ چاہئے‘ اقتدار چاہئے‘ عزت چاہئے‘ وقار چاہئے‘ ترقی چاہئے‘ مانگو کوئی بات نہیں لیکن یہ سب کچھ مانگنے سے پہلے ہدایت مانگنا اور یاد رکھنا اگر دولت مانگی‘ دولت مل جائے گی پھر وہ دولت اللہ کی نافرمانی کا ذرےعہ بنے گی‘ میرے دوستو! اللہ کی نافرمانی گمراہی کا ذرےعہ ہے اور گمراہی جہنم کا راستہ ہے پھر دولت ملے گی‘ چیزیں ملیں گی‘ سہولت ملے گی‘ عافیت ملے گی‘ عیش و عشرت‘ دنیا کے مزے ملیں گے لیکن اگر ہدایت مانگی تو پھر اللہ جل شانہ کی طرف سے رونق بھی ہو گی‘ برکت بھی ہو گی‘ اعمال بھی ہونگے‘ تقوی ٰ بھی ہو گا‘ دولت بھی ہو گی‘ برکت بھی‘ ہیں ناکمال کا عمل۔
مومن حال کے امر کو پہنچانتا ہے
مومن حال کے امر کو پہنچانتا ہے میں بار بار آپ سے عرض کر رہا ہوں حال کا امر یہ ہے کہ اب کرنا کیا ہے؟ ہمارے ہاں بلدیہ میں چےف صاحب تھے وہ ایدمنسٹریشن میں بڑے ماہر تھے‘ چھوٹے شہروں میں تو وہ اے سی صاحب کو منٹ میں شیشے میں اتار لیتے تھے‘ ایک دفعہ میں بیٹھا ہوا تھا وہاں ایک بہت بڑا افسر آیا اس نے ایسی باتیں کیں وہ افسر بھرا ہوا آیا اور ایک منٹ میں ٹھنڈا ہو گیا‘ کہنے لگا پانی منگواﺅ میں مسکرا دیا بعد میں کہنے لگے آپ کی مسکراہٹ کو میں نے دیکھا تھا اس وقت اس کی ضرورت تھی اس لئے مسکرائے کہ میں نے اس کو کس طرح شیشے میں اتار لیا‘ میں نے کہا ہاں ایک اور بات میرے ذہن میں آئی تھی کہاآپ نے اس میسر کو موثر بنا لیا موقع کو پہچان لیا ۔لیکن میرے بھائیو! اس طرح مومن کا مزاج ہے مومن بھی موقع کو پہچانتا ہے کہ اب موقع کیا ہے کہ میری آخرت سنور جائے اپنے جسموں کو‘ اپنے مزاجوں کو‘ اپنی طبےعتوں کو‘ اپنی سوچوں کو آخرت کی طرف مائل ہونے کا اور آخرت کی طرف سوچنے کا عادی بنائیں دنیاوی اعتبار سے دنیا کے کام‘ دنیا کے مزاج‘ دنیا کی باتیں کرتے کرتے یہ جسم اتنا دور ہو چکا کہ اب سمجھ ہی نہیں آتی یہ بھی کوئی بات ہے ۔
مومن کبھی اپنی چھوٹی سی چیز کو ضائع نہیں ہونے دیتا اگر وہ گھر میں روشن دان بھی لگا رہا تو اس نیت سے کہ اذان کی آواز آئے گی یہ ہے مومن کا مزاج‘ اللہ نے اگر توفےق دی ہے بہترین گاڑی لے‘ بہترین مکان بنائے لیکن پہلے نیت کا دخل ہے‘ یہ ہے میسر کو موثر بنانا‘ چیز میسر آ گئی ہے اب اس کو موثر بنانا ہے‘ گاڑی لی‘ استعمال کی ضرورت تھی‘ ٹھیک ہے گھر سواری اور شادی یہ زندگی کی ضروریات میں شامل ہیں‘ اللہ نے رزق حلال میں وسعت عطا فرمائی اور گاڑی لی لیکن دوستو اس گاڑی کا سوال بھی تو ہو گا ٹھنڈے گھونٹ کا سوال ہو گا ایک ایک سانس کا سوال بھی تو ہو گا اس لئے عجیب بات فرمائی فرمایا جو چیز بھی لو مہمان کی نیت سے لو مہمان کی نیت سے قیامت کے سوال سے بچ جاﺅ گے۔ (جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں