ایک صاحب میرے پاس آئے کہنے لگے: پہلے تو میں سمجھتا رہا شاید میری آنکھ مٰںکوئی تکلیف ہے آنکھوں میں ہروقت سامنے دھند آتی تھی غبار اور دھول آتی تھی یہ دھند غبار اور دھول مستقل میری طبیعت پر چھائی رہی اور میں پریشان ہوا پھر آنکھوں کے بہت معالجین کو ڈاکٹروں کو چیک کروایا لیکن فائدہ بالکل نہ ہوا آخر کار کسی عامل کے پاس گیا اس نے خدشہ ظاہر کیا کہ آپ کی آنکھوں پر جناتی اور شیطانی چیزوں نے جادو کیا ہوا ہے اور اس جادو کا بہترین حل کوئی بڑا عامل ہی کرسکتا ہے‘ عام بندے کا بس نہیں‘ بس یہ باتیں مٰں سنتا رہا پھر ایک پھر دوسرے کےپاس اس طرح کوئی لگوں کے پاس میرا جانا ہوا لیکن مجھے فائدہ نہ ہوا اور میں ہمیشہ مایوس لوٹا وہ صاحب میرے سامنے بیٹھے یہ باتیں کررہے تھے اور میں ان کی باتیں سن رہا تھا وہ بہت دکھی تھے مجبور تھے مایوس اور پریشان تھے‘ وہ اپنی دکھوں زخموں اور مشکل کا علاج چاہتے تھے ابھی ہم باتیں ہی کررہے تھے تو اچانک حاجی صاحب تشریف لائے‘ مجھے بڑی خوشی ہوئی‘ میں نے آتے ہی حاجی صاحب کو میں نے ان کے سارے حالات بتاؤں کے اس طرح کے معاملات ہیں حاجی صاحب تھوڑی دیر مراقب ہوئے اور مراقبہ سے اٹھے تو فرمانے لگے کہ دراصل اس کے گھر میں ایک درخت تھا اس کے نیچے آگ جلائی اس نے‘ کھانا پکانے کیلئے اس کے اوپر ان کا بسیرا تھا‘ یعنی جنات کا انہوں نے اس کو برا منایا‘ اب دھوئیں کا جواب دھوئیں سےدیا اور اس کی آنکھوں کے سامنے ایسے پردے ڈال دئیے کہ اس کو ہروقت دھواں ہی دھواں نظر آتا تھا‘ حاجی صاحب نے مٹھیاں بند کیں اور کچھ پڑھنا شروع کیا میں خاموش بیٹھا یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا تھوڑی دیر ہوئی ایک گونج اٹھی اور گڑگڑاہٹ سی محسوس ہوئی جب دیکھا تو سامنے خوفناک حالت میں بہت زیادہ جنات ہیں اور انک ے منہ سے شعلے آنکھوں آنکھوں سے شعلے کانوں سے بھاپ اور آگ نکل رہی تھی ان کی انگلیوں اور ہاتھوں سے مسلسل آگ نکل رہی تھی اور شرارے نکل رہے تھے۔
وہ آکر سامنے بیٹھ گئے لیکن وہ بے بس محسوس نہیں ہوتے تھے ان کے مزاج میں ان کی آواز میں ان کے بولوں میں اور ان کےانداز میں تکبر اور غرور تھا اور ایسا تکبر اور غرور تھا کہ جیسے وہ ابھی سب کو کھاجائیں گے سب کو ہضم کرجائیںگے انہوں نے آتے ہی کہا کہ آپ نے ہمیں پریشان کیوں کیا ہمارے معاملات میں دخل کیوں کیا ہمیں یہاں کیوں بلایا؟ حاجی صاحب بڑے تحمل اور بردباری سے ان کے اس بداخلاقی کے لہجے کو سن رہے تھے تھوڑی دیر میں انہوں نےا ور اونچا بولنا شروع کردیا حاجی صاحب یہ خاموشی سے سنتے رہے اس کے بعد حاجی صاحب بولے ہم نے آپ کو اس لیے بلایا ہے کہ آپ نے کچھ غریب اور فقری لوگوں کا جینا حرام کیا ہوا ہے اور اس شخص کی آنکھیں بند کردی ہیں اور ہم آنکھیں خود کھول سکتے ہیں اورآنکھیں کھول سکتے ہیں اتنا کہنا تھا کہ وہ شخص اپنی آنکھوں کو ہاتھ لگا کر پھٹی پھٹی آنکھوں سے عالم کو دنیا کو دیکھ رہا تھا ور واقعی میری آنکھیں کھل گئی ہیں اور میرا جسم صحت مند اور طبیعت میں فرحت ہے اور پھر حاجی صاحب متوجہ ہوئے ان جنات کی طرف فرمانے لگے آگ جلانا ان کا حق ہے اگر تم درختوں پر رہتے بھی ہو تو اپنا تحفظ خود کرو انہوں نے سایہ دیکھا درخت کا غریب تھے آگ لگائی اور جلائی آگ جلا کر انہوں نے کھانا پکایا یہ کوئی ان کا قصور نہیں بلکہ تمہارا قصور ہے تم اتنے ایک پل میں ناراض ہوگئے اور اتنا ایک پل میں سیخ پا ہوگئے۔ اگلی بات تمہارا لہجہ اور تمہارا انداز کیسا ہے؟ یہ انداز اچھا نہیں ہے‘ جو تم نے اختیار کیا ہے اور اس انداز سے تمہارے مزاج میں محسوس ہوتا کہ تمہارے اندر کسی کا کوئی ادب کوئی احترام اور کوئی کسی کے ساتھ محبت کا سلوک کا کوئی تعلق نہیں‘ تم میرے ساتھ ایسا کررہے ہو تم اس سے پہلے کتنےلوگوں کو تکلیف دے چکے ہو گے اور کتنے لوگوں کی زندگی کو گھٹن زیادہ کدیا ہوگا حاجی صاحب کے چہرے پر جلال اور غصہ تھا اور حاجی صاحب اپنےجلال اور غصہ سے مسلسل بول رہے تھےاور فرمارہے تھے یہی جنات ہیں جو کہ قوم جنات کی بدنامی کا ذریعہ بنتا ہے اور جنات کے بارے میں لوگوں کے انوکھے تبصرے آخرکیوں نہ درست ہوں کیونکہ انہی جنات نے جنات کیلئے بہت زیادہ مشکل اور پریشانی پیدا کی ہے۔
حاجی صاحب ان کی طرف دیکھ کر فرمانے لگے میرے دل میں یہ ہے کہ تمہیں کچھ عرصہ کیلئے قید کردوں حاجی صاحب کا یہ فرمانا تھا کہ ان کا تکبر اکڑ اور آگ اور بڑھ گئی‘ وہ کڑک دار اواز میں بولے آ پ کون ہوتےہ یں ہمیںقید کرنے والے ہم آزاد ہیں آزاد رہیں گے ہم آ کی کوئی بات نہیں مانیں گے بجائے اس کے کہ حاجی صاحب کی بات کا وہ ادب کرتے احترام کرتے اور ان کی بات کی وہ قدر دانی کرتے۔ وہ اور زیادہ بھڑک گئے اور بداخلاقی می اور زیادہ بڑھگئے حاجی صاحب نے اس کو بہت زیادہ محسوس کیا اور بہت زیادہ غصہ میں جلال میں آگئے آپ نے اپنی انگوٹھے اور شہادت کی انگلی کو ملایا اور ایک حلقہ بن گیا اور انہیں حکم دیا اس حلقے سے گزر جاؤ نہامعلوم کیا ہوا اچانک ایک ہوا آئی اور وہ بہت تیز تھی اس نے نہیں لپیٹنا شروع کردیا بالکل اسی طرح جس طرح مکڑی مکھی کو اپنے جالے یا کیڑے کو اپنےجالے میں لپیٹتی ہے انہوں نے بہت شور کیا غیض و غضب میں آئے جبکہ زبان میں ان کی غلاظت خباثت بڑھ گئی وہ ہوا انہیں لپیٹ رہی تھی اور ان کا حلقہ تنگ سے تنگ ہورہا تھا حتی کہ ان کی چیخیں بھی آہستا ہوگئیں ہوا تہہ در تہہ ان کو اپنی تہہ میں لے رہی تھی حاجی صاحب نے انگوٹھے سے حلقہ بنایا ہوا تھا اور غصہ اورجلال یں تنے میں یہ سب دیکھ رہا تھا وہ شخص جس کی آنکھون میں پردے تھے اب اس کی آنکھونں سے پردے ختم ہوگئے وہ بھی یہ سب منظر دیکھ رہا تھا لیکنخوشی سے دیکھ رہا تھا۔
تھوڑی دیر ہوئی ان کا جسم ایک لمبی تار کی طرح اور موٹے رسے کی طرح ڈھل گیا اور حاجی صاحب کی انگلی اور انگوٹھے کے حلقے سے نکلنے لگے اور اس کے بعد حاجی صاحب نے اپنی انگلی اور انگوٹھے کو چھوڑ دیا اور ایک پھونک مار دی اور اطمینان کا سانس لیا فرمانے لگے: دراصل یہ جنات کی وہ قوم تھی جو دھوئیں سے بنی ہے‘ ان کے مزاج میں شرارت غصہ ہٹ دھرمی اور بض کینہ نفرت بہت زیادہ بھرا رہتا ہے اور یہ وہ جنات ہیں جو کسی کی بات نہیں مانتے بس صرف اور صرف یہ سزا جیل اور سختی کی بات مانتے ہیں‘ انہیں میں نے ٹھٹھہ کی جیل میں ڈال دیا اور یہ مکلی کے قبرستان کی بڑی جیل میں اب جلتے سڑتے رہیں گے‘ مجھے حیرت ہوئی میں نے حاجی صاحب سے عرض کیا یہ آپ نے انگوٹھے اور انگلی کا جو حلقہ بنایا ہے اس سے مراد کیا ہے؟ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ آپ نے یہ حلقہ بنایا اس حلقہ میں آپ نے ان سب کو لیپیٹ دیا حاجی صاحب نے فرمایا کہ دراصل اس حلقے میں اللہ اسم اعظم کا امر ہے اور جو کچھ ہوتا ہے اللہ کے نام کی طاقت سے ہوتا ہے اور اس حلقے سے بہت طاقت اور قوت پیدا ہوتی ہے جو بڑوں بڑوں کو عاجز اور مجبور کردیتی ہے۔ یہ دراصل طاقت ہر جن کے پاس نہیں ہوتی کیونکہ میرا براہ راست ایک تعلق ہے اور براہ راست ایک نسبت ہے یہ چیز مجھے ملی ہوئی ہے‘ اور یہ اسم یامتکبر کا کمال اور طاقت ہے‘ میں حاجی صاحب کی باتیں حیرت سے سن رہا تھا اور میرے دل میں تصور اللہ کی ذات عالی کی طاقت روز بروز بڑھتی چلی جارہی ہے اور اللہ کا تعارف بڑھتا چلا جارہا ہے مجھے سمجھ نہیں آئی کہ اللہ کا تعارف کیا ہے اس سے پہلے مجھےکوئی سمجھ نہیں تھی لیکن جب سے میں نے حاجی صاحب کا یہ عمل دیکھا تو مجھے احساس ہوا کہ اللہ تعالیٰ طاقت ور ہے میں یہ نہیں کہتا کہ اس سے پہلے مجھے اللہ کا تعارف تھا ہی نہیں لیکن بعض ماورائی انہونی اور انوکھی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو بظاہر سمجھ نہیں آتی عقل انسانی شعور احساس اس میں ساتھ چھوڑ جاتاہے لیکن وہ سچ ہوتی ہیں اور وہ حقیقت ہوتی ہیں مجھے جنات کی دوستی اور تعلق میں رب کے بہت قریب ہے اور مجھے احساس ہوا ہے کہ یہ جنات مخلوق ہے جب مخلوق میں اتنی طاقت قوت اور اتنی انوکھی دنیا ہے تو پھر خالق میں کتنی طاقتیں اورکتنی قوتیں ہوں گی اور خالق کتنا طاقت ور اور باکمال ہے اور ہوگا۔ میں نے حاجی صاحب کے ساتھ زندگی کے بہت سال گزارے ہیں میں نے ان کی زندگی میں اللہ کی ذات کے ساتھ تعلق دیکھا کرب دیکھا محبت دیکھی اللہ کی ذات کے تعلق کے ساتھ ان کی زندگی میں میں نے پانا دیکھا۔ وہ ایک ایسی عظیم ہستی ہیں جنہوں نےدن رات صرف اور صرف ذات الٰہی کی تاثیر پائی اور معجزات دکھائے اگر میں یہ کہوں کہ مجھے اللہ کی ذات کا تعارف تو پہلے دن ہوا تھا کیونکہ میں نے کسی مسلمان کے گھر آنکھ کھولی تھی لیکن اس کا کمال پہنچانے میں جن ہستیوں کا ہاتھ ہے ان چند ہستیوںمیں ایک حاجی صاحب بھی ہیں وہ حاجی صاحب ایسی ہستی ہیں جو خلوص اور شرافت کے سچے پیکر ہیں میں یہ ساری سوچیں وہی بیٹھے ہی سوچ رہا تھا حاجی صاحب بیٹھے اچانک میں اپنی سوچوں کے تانے بانے توڑ کر باہر نکلا تو مجھے احساس ہوا کہ بہت دیر ہوگئی اب اس شخص کی طرف متوجہ ہوا جس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا تھا سایہ تھا میں نے اس شخص کو کہا جا تیرا کام ہوگیا اور حاجی صاحب کا شکریہ ادا کر اس نے حاجی صاحب اک شکریہ ادا کیا اور چلا گیا۔
میں نے حاجی صاحب کو عرض یا کہ یہ جنات جنہیں آپ نے قید کرکے جیل میں بھیجا ہے اب جیل میں ان کے ساتھ کیا سلوک ہوگا فرمانے لگے جیل میں درجات ہیں کچھ سخت کچھ اس سے سخت اور کچھ بہت زیادہ اتنا زیادہ کہ جس میں خود جنات بھی دھل جاتے ہیں اور لرز جاتے ہیں ان کو میں نے جنات کی جیل کے سب سے آخری درجے م یں بھیجا ہے کیونکہ انک ے مزاج کی سختی اور انک ے دھوئیں سے بنے ہوئے کا نظٓم صرف وہی جیل ان کی اصلاح کرسکتی عام جیل کو خود یہ توڑ دیں گے مزید اور قیدیوں کو مار ڈالیں گے اور ان کو بھی ختم کردیں گے کیونیہ اس طرح کے ہمارے کئی واقعاتہوچکے ہیں ہم نے جب بہت زیادہ خبیث اور دھوئیں سے بنے ہوئے جنات کو جیل میں ڈالا تو وہاں اور جنات بھی تھے جو کوئی اور جرم میںقید تھے انہوں نے جاکر طوفان برپا کیا اور انہیں مار ڈالا اور بعض اوقات جیلیں توڑ کر نکل گئے یہ جیل جس میں ان کو قید کیا وہ جیل ہے جس عام قیدی کے گمان خیال اور احساس میں آہی نہیں سکتے یہ وہ جیل ہے جس میں سخت ترین پہرہ ہے اور سخت ترین جیل ہے۔ ان کو کئی کئی دن غذائیں نہیں دی جاتیں کئی کئی دن ان کو پانی نہیں پوچھا جاتا ہفتوں کے بعد جاکر ایسے قیدی سنبھلتے ہیں اور ان میں کچھ یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے یہاں رہنا ہے تو کچھ اپنے آپ کو بدلنا ہوگا اور اگر یہ چیز ہم انہیں نہ دیں تو وہ اپنے آپ کو بدلنے کا فیصلہ ہی نہیں کرتے آج میں حیران ہوا کہ حاجی صاحب نے ایسے شریر جنات کے ساتھ کیا معاملہ کیا پھر مجھے اچانک یاد آیا کہ جب میں گزشتہ بار ٹھٹھہ مکلی کی جیل میں گیا تھا وہاں انہوں نے ایک جیل کےحصے کی طرف اشارہ کرکے بتایا یہ خطرناک قیدیوں کے لیے خصوصی جیل ہے جو سب سے زیادہخطرناک قیدی اس جیل میں آتے ہیں ہم انہیں یہاں قید کرتے ہیں اور ان کو یہاں سخت سے سخت سزائیںدیتے ہیں بھوک دیتے ہیں‘ فاقہ دیتے ہیں اور سخت تنگی دیتے ہیں تاکہ ان کی اصلاح ہوسکے وہ جب جیل سے باہر نکلے تو لوگوں کی تکلیف پریشانی مشکل اک ذریعہ نہ بنے بلکہ لوگوں کی راحت کا ذریعہ بنیں۔
قارئین! سچ پوچھیں اللہ کتنا طاقت ور ہے اور اس کی مخلوق اور کتنی ہے یہ تو جنات ہیں اور میں بھی ابھی جنات کی سوفیصد پراسرار زندگی کو پہنچ نہیں سکتا زندگی کا تھوڑا سا انداز ہے جس میں کچھ تھوڑا سا پہنچا ہوں لیکن ایک احساس ہمیشہ دل میں رہتا ہے کہ رب اپنی طاقت قوت اور عظمت کا سچا وجود رکھتا ہے اور اللہ ہے‘ اتنا بڑا تو ہے جس اللہ نے اتنی بڑی مخلوق بنائی ہے وہ خود رب کتنا بڑا ہوگا۔ (جار ی ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں