قارئین! حضرت جی کے درس‘ موبائل (میموری کارڈ)‘ نیٹ وغیرہ پر سننے سے لاکھوں کی زندگیاں بدل رہی ہیں‘ انوکھی بات یہ ہے چونکہ درس کےساتھ اسم اعظم پڑھا جاتا ہے جہاں درس چلتا ہے وہاں گھریلو الجھنیں حیرت انگیز طور پر ختم ہوجاتی ہیں‘ آپ بھی درس سنیں خواہ تھوڑا سنیں‘ روز سنیں ‘ آپ کے گھر‘ گاڑی میں ہروقت درس ہو۔
یہ کہانی سچی اور اصلی ہے۔ تمام کرداراحتیاط سے دانستہ فرضی کردئیے گئے ہیں‘ کسی قسم کی مماثلت محض اتفاقیہ ہوگی۔
محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! عبقری رسالہ پڑھتے ڈیڑھ سال ہوگیا ہے‘ اس میں موجود مضامین پڑھ کر دل پرسکون ہوجاتا ہے۔ کچھ عرصہ سے ایک سلسلہ ’’میری زندگی کیسے بدلی؟‘‘ پڑھ رہا ہوں‘ جب بھی پڑھتا ہوں اپنی بیتی زندگی فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے چلنا شروع ہوجاتی ہے اور رب کریم کی کریمی سے آنکھیں چھلک پڑتی ہیں کہ اس کریم نے مجھے کس طرح اس دلدل سے نکالا اور میں میرا کل کیا تھا اور آج میں کیا ہوں! کل ہر کوئی حقارت سے دیکھتا اگر کوئی عزت کرتا بھی تو ڈر کی وجہ سے کرتا‘ مگر آج جب مسجد میں صف اول میں کھڑا ہوکر تکبیر دے رہا ہوتا ہوں تو ندامت سے سر جھک جاتا ہے‘ لوگ آکر ادب سے سلام لیتے ہیں تو ڈاڑھی آنسوؤں سےتر ہوجاتی ہے۔ رات کو رو رو شکر کی تسبیحات پڑھتا ہوں کہ اس کریم نے مجھے کیا سے کیا بنادیا۔آج میں اپنا ماضی قارئین کو بتانا چاہتا ہوں تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ یہ رسالہ کیسے لوگوں کی زندگی بدل رہا ہے؟
لیجئے قارئین میری سچی داستان پڑھیے اور شیخ الوظائف اور ان کی آل اور اس دارہ کے تمام مخلصین کیلئے دعا کیجئے۔
جب ہوش سنبھالی تو گھر میں ماحول انتہائی خراب تھا‘ نہ کسی کو نماز پڑھتے دیکھا نہ قرآن کھولتے دیکھتے‘ ہر کوئی اپنی زندگی میں مست‘ کسی کو کسی کی کوئی پرواہ نہیں‘ سب اکٹھے بیٹھ کر ڈرامے دیکھتے‘ فلمیں دیکھتے‘کچھ شرم حیا والی کو ئی بات معلوم نہ تھی۔ میں ایسے ہی ماحول میں پروان چڑھا‘ آٹھویں کلاس میں پہلی مرتبہ بھٹکا اورکسی سے عشق کر بیٹھا‘ سارا دن اسی سے باتیں‘ اسی کے خیال‘ اکیڈمی اکٹھے پڑھتے‘ محلہ ایک تھا‘ اکٹھے جاتے‘ اکٹھے آتے۔ چند سال اس کے ساتھ بات چیت رہی‘ پھر اس کے گھر والوں کو معلوم ہوا‘ میرے گھر شکایت کی مگر میرے گھر والوں نے بات ہنسی مذاق میں اڑا دی‘ بس وہ ہنسی مذاق نے میری زندگی کونیا رخ دیا اور مجھے اس راہ پر ڈال دیا۔ ہر چند ماہ بعد نئی لڑکی سے معاشقہ میرا پسندیدہ مشغلہ بن گیا‘ میٹرک ہوا‘ میٹرک کے بعد کالج میںگیا تو دنیا ہی اور تھی‘ پیسہ خوب تھا‘ جتنے مانگتا مل جاتے‘ جو ملتا عیاشی پر اڑا دیتا‘ کبھی کسی نے سمجھایا ہی نہ‘ اگر کوئی والدین یا کسی بڑے بھائی سے میری حرکتیں بیان کرتا تو اسے یہ کہہ دیا جاتا کہ جوانی میں یہ کام نہیں کرے گا تو کب کرے گا؟ساری ساری رات پیکیج لگا کر لڑکیوں سے باتیں‘ میں نے چار سمز رکھی ہوئی تھیں‘ ایک سے بات ختم کرتا تو وہ نکال کر دوسری سم لگا کر دوسر ی لڑکی سے بات کرنا شروع ہوجاتا‘ نجانے کتنے دل توڑے‘ کتنے جذبات کو اپنی عیاشی کے پاؤں تلے روندھا‘ کتنوں کو شادی کے وعدےکیے اور ان کے آنسوؤں اور ہچکیوں پر قہقہے لگائے۔ اسی دوران گریجوایشن کرلی۔ بھائی کے ساتھ کاروبار میں شامل ہوگیا‘ اس دوران بھی میرے معاشقے کم نہ ہوئے‘ میں شکار پسند کرتا اور اسے پھانسنے کیلئے ایری چوٹی کا زور لگاتا اس کیلئے جان مال اور وقت خوب ضائع کرتا‘ میرے پاس ہر گن موجود تھا‘ ہر طریقہ واردات مجھے خوب آتا تھا۔ پھر جب کوئی میرے جال میں پھنستا تو اس سے خوب کھیلتا‘ خوب تڑپاتا اور جب دل بھر جاتا تو چھوڑ دیتا۔ مجھ سے والدین نے شادی کا پوچھا تو میں نے کہا: جہاں آپ کو پسند وہیں کرلوں گا ۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں