بچوں پر بے جا زبردستی ہرگز نہ کریں
بچوں کی نفسیات کو ہر کوئی آسانی سے نہیں سمجھ سکتا کہ وہ کیا چاہتے ہیں یا ان کا رحجان کس طرف ہے۔ میں آج تک اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ بچوں کو ان کی مرضی کے مطابق عمل کروانا چاہیے۔ ان پر بے جا زبردستی نہیں کرنی چاہیے۔ اس سے بچے باغی ہو جاتے ہیں۔ مثلاً اگر ایک بچہ ڈاکٹر یا انجینئر بننا چاہتا ہے۔ تو اس پر زبردستی کروا کر اس کو وکیل یا استاد نہیں بنانا چاہیے۔ اس طرح وہ کھل کر اپنی ذہنی صلاحیتوں کا استعمال نہ کرسکے گا۔
بہت سے سائنس دانوں نے بھی اس بات کا مشاہدہ کیا کہ بچوں پر بے جا زبردستی نہیں کرنی چاہیے ان کو جتنا جس بات سے منع کیا جائیگا وہ اتنا ہی اس بات کے قریب جانے کی کوشش کریں گے کیونکہ جس چیز کو ہم جتنا بند کرنے کی کوشش کریں وہ اتنا ہی باہر نکلنے کی کوشش کرتی ہے۔ مثلاً چائے کو جتنا ابالنے کی کوشش کی جائیگی وہ اپنی اصلیت کھو دے گی۔ اس کو ایک حدمیں رہ کر ابلنا چاہیے۔ نہ اتنا زیادہ ابالا جائے کہ اپنی اصلیت کھودے اور نہ اتنا کم کہ چائے نہ لگے۔ اس طرح کئی روز مرہ مثالیں دیکھنے میں آتی ہیں مثال کے طور پر ایک چھوٹا بچہ ہم اسے چولہے کی طرف جانے سے منع کرتے ہیں۔لیکن اس کے باوجود وہ جاتا ہے ہم روکتے ہیں۔ لیکن پھر بھی وہ جاتا ہے۔ بالاخر وہ ایک دن چولہے کے قریب جائیگا آگ کو چھوئے گا اور اسکا ہاتھ جل جائیگا۔ یہ اس کیلئے تجربہ تھا۔ اگلے دن وہ آگ کو دیکھے گا۔ مگر دور سے اس کے قریب بھی جانے کی کوشش نہ کریگا۔ کیونکہ اب اسے پتہ ہے کہ آگ کیا ہے۔
بچے بے وقوفوں جیسی باتیں کیوںکرتے ہیں؟
بچے جب بڑے ہو جاتے ہیں تو اپنے چند فیصلے خود کرنے لگتے ہیں۔ تو والدین کو اس بات پر ڈانٹنا نہیں چاہیے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور انہیں شاباش دینی چاہیے اگر ان کے فیصلے غلط ہوں تو انہیں پیار سے سمجھانا چاہیے بجائے اس کے کہ گالی گلوچ یا مار پیٹ سے کام لیا جائے کیونکہ یہ عمر جذبات کی ہوتی ہے اور بچے غصے میں آکر کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ جو بعد میں والدین کیلئے ساری عمر کا روگ بن جاتی ہے۔ اگر بچے کی بات کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے اور پیار سے اس کی بات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو وہ بہتر ہے۔ ورنہ والدین جان بوجھ کر اس بات کی ٹینشن لیتے ہیں اور بچوںکو بھی پریشان کرتے ہیں اور بچے ٹھیک طرح سے پڑھ نہیں پاتے۔ ایک دفعہ ان کے ذہن میں جو بات بیٹھ جائے وہ پھر جاتی نہیں۔ سوچ ، ٹینشن اور پریشانی ذہن پر بوجھ بن کر سوار رہتے ہیں۔ بچوں کی تعلیم پر برا اثر پڑتا ہے اور بچے بھی پھر غلط حرکتیں کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک خطرناک بات یہ کہ بچے نفسیاتی طور پر متاثر ہو کر بے وقوفوں جیسی باتیں اور پاگلوں جیسی حرکتیں کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کے ساتھ مکمل تعاون کریں۔ ان کے مسائل کو سمجھیں، انہیں حل کرنے کی کوشش کریں۔ اور بات بات پر طنز کرنے اور اپنی ہی اولاد کو بار بار شرمندہ کرنے سے گریز کریں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں