ساگ گوشت کے ہمراہ پکا کر مکئی اور باجرے کی روٹی کے ساتھ بھی کھایا جاتا ہے۔ یہ انتہائی لذیذ اور مقوی غذا ہے۔ اطباء نے سرسوں کے ساگ، مکئی کی روٹی اور مکھن کو ایک عمدہ غذا قرار دیا ہے۔
انسان‘سبز پتوں والی سبزیاں اور ساگ
انسان، سبز پتوں والی سبزیاں اور سالگ دونوں کا ساتھ بہت پرانا ہے۔ ان کی غذائی اہمیت کے باوجود آج بعض لوگ ساگ کو معمولی درجے کی غذا سمجھتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ زندگی کی بنیاد انہی ساگوں اور سبزیوں پر قائم ہے۔ قدرت ان ہی کے ذریعے زندگی کی تعمیر کے لیے ضروری اجزاء تیار کرتی ہے ان کے بغیر زندگی زیادہ دیر تک صحت مند بنیاد و پراستوار نہیں رہ سکتی ہے۔ دودھ جسے ہم اعلیٰ درجہ کی غذا سمجھتے ہیں انہی ساگوں اور سبزیوں کا دوسرا روپ ہے۔ سائنسی اعتبار سے ساگ میں کیلشیم، سوڈیم ، کلورین، فاسفورس، فولاد، پروٹین(جسم کو نشوونما دینے والے اجزاء) اور وٹامن اے، بی اور ای کافی مقدارمیں پائے جاتے ہیں۔ ساگ کے بارے میں یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ساگ اور دودھ بڑی حد تک ایک دوسرے کا بدل ہوسکتے ہیں اور ساگ جسم میں بڑی حد تک دودھ کی کمی کو پورا کرسکتے ہیں۔ بچوں کی نشوونما اور پرورش میں بھی ساگ سے بہت مدد ملتی ہے اور اگر ان میں بچپن ہی سے ساگ اور سبزیاں کھانے کی رغبت پیدا کی جائے تو یہ عادت زندگی بھر انہیں بہت سی بیماریوں اور مشکلات سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔ بچے جب دودھ سے ٹھوس غذا یک طرف آنے لگتے ہیں اس وقت سے انہیں نرم ساگ اچھی طرح پکا کر اور خوب گھونٹ کرکے دیا سکتا ہے۔ ذیل میں ہم آپ کو ساگ کی چند مختلف اقسام اور ان کے طبی اور سائنسی خواص و فوائد سے آگاہ کررہے ہیں۔
جدید سائنسی تحقیقات اور سرسوں کا ساگ
طبی سائنس کی جدید تحقیق کے مطابق سرسوں کے ساگ میں حیاتین ب، کیلشیم اور لوہے کے علاوہ گندھک بھی پائی جاتی ہے۔ اس کی غذائیت گوشت کے برابر ہے۔ یہ ساگ خون کے زہریلے مادوں کو ختم کرکے خون صاف کرتا ہے۔ ساگ گوشت کے ہمراہ پکا کر مکئی اور باجرے کی روٹی کے ساتھ بھی کھایا جاتا ہے۔ یہ انتہائی لذیذ اور مقوی غذا ہے۔ اطباء نے سرسوں کے ساگ، مکئی کی روٹی اور مکھن کو ایک عمدہ غذا قرار دیا ہے۔ دارچینی، بڑی الائچی، کالا زیرہ پیس کا ساگ کے اوپر چھڑک کر کھانے سے گیس یا پیٹ میں مروڑ کی تکلیف نہیں ہوتی۔ حکماء کے مطابق سرسوں کا ساگ اپنی تاثیر کے لحاظ سے گرم خشک، قبض کشا اور پیشاب آور ہے۔ اس کے استعمال سے پیٹ کے کیڑے ہلاک ہو جاتے ہیں او ربھوک بڑھ جاتی ہے۔
بتھو ے کا ساگ نہ کھایا تو کیا کھایا!
بتھوا مشہور ساگ ہے۔ اطباء کے مطابق اس کی تاثیر سرد ہے۔ گرم مزاج لوگوں کے لیے خاص طور پر مفید ہے۔ بتھوے میں وہ تمام غذائی اجزاء پائے جاتے ہیں جو صحت اور توانائی کے لیے ناگریز ہیں۔ یہ قبض کشا ہوتا ہے۔ سینے اور حلق کو نرم کرتا ہے، پیشاب لاتا ہے، گرمی کو دور کرتا ہے۔ پیاس بجھاتا اور حلق کے ورم کے لیے بھی مفید ہے۔ اس کے بیج بھی دوا کے طور پر استعمال ہوتے ہیں اور اس کے تمام خواص بتھوا کے ساگ کے مطابق ہیں۔ اس کے پتوں کا نچوڑا ہوا پانی پیشاب لاتا ہے۔ حکماء اور اطباء کے مطابق برص کے مرض میں روزانہ دن میں چار پانچ مرتبہ بتھوے کے پتوں کا رس سفید دانوں پر لگائیں اور بتھوے کا ساگ یا بجھیا بناکر کھائیں۔ دو ماہ کے استعمال سے انشاء اللہ برص کے داغ دور ہو جائیں گے۔ بتھوے کو اگر چقندر کے ساتھ پکائیں تو اس کی اصلاح ہوجاتی ہے۔ بتھوے کا ساگ معدے اور آنتوں کو طاقت بخشتا ہے۔ جگر اور تلی کے امراض میں مفید ہے۔ ہر قسم کی پتھری اور پیشاب کی جملہ بیماریوں میں اکسیر کی حیثیت رکھتا ہے۔
مکو کا ساگ‘ طبی خواص سے مالامال
مکو کا ساگ: مکو کا ساگ اہم طبی خواص سے مالا مال ہے۔ اس کے پتوں کو کوٹ کر ان میں پانی ملا کر جگر، معدہ آنتوں، گردوں، پتے اور رحم کی سوجن دور کرنے کے لیے صدیوں سے استعمال کیا جارہا ہے۔ اطباء کے مطابق جب جگر بڑھ جائے، پیٹ پھول جائے اور اس سے اپھارہ ہونے لگے تو مکو کا ساگ پکا کر اس میں نمک کی (باقی صفحہ نمبر )
ّ(بقیہ: سا گ‘ لذت او رصحت ساتھ ساتھ)
جگہ نوشادر ملا کر چند دن سے چند ہفتوں تک کھانے سے پیشاب کے راستے جسم کا فالتو پانی نکل جاتا ہے۔ ورم دور ہو جاتا ہے۔ جگر اور گردوں کی خرابی میں بدن پھول جاتا ہے اور ہاتھ پائوں پر ورم آجاتا ہے تو ایسے میں چند روز مکو کے ساگ کے استعمال سے یہ تکلیف دور ہو جاتی ہے۔ خونی بواسیر، پتھری اور کھانسی میں بھی یہ ساگ صحت بخش ہے قبض کشا اور پیشاب آور ہے۔ یرقان کے مرض میں اس کا استعمال شفایابی کا عمدہ نسخہ ہے۔ ہچکی اور قے کو روکتا ہے۔ پالک کا ساگ: یہ سب سے زیادہ استعمال ہونے والا ساگ ہے۔ اس میں حیاتین الف اور لوہا وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔پالک زود ہضم اور پیشاب آور ہے اور اس کی تاثیر سرد ہے۔ معدے کی سوزش، جگر کی گرمی کو دور کرتا ہے۔ دماغ کی خشکی سے نجات کے لیے مفید اور آزمودہ ہے۔ غذائی ریشے کی خاصی مقدار کی وجہ سے قبض کُشا بھی ہے۔ اس کی مضرت کی اصلاح دارچینی سے ہو جاتی ہے۔ جو بچے مٹی یا کوئلہ کھاتے ہیں۔ پیٹ بڑھا ہوا ہوتا ہے اور ضدی ہوتے ہیں انہیں پالک، میتھی، بند گوبھی اور شلغم زیادہ کھلائیں۔ اس سے ان کا نظام ہضم درست ہوگا اور جسم میں طاقت آئے گی۔ پالک کے بیج دوا کے طور پر پیشاب لانے اور معدہ کی سوزش کو دور کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں پیاس کو بھی تسکین دیتے ہیں۔ جن لوگو ڈکو دائمی قبض کی شکایت رہتی ہو انہیں پالک کا باقاعدہ استعمال کرنا چاہئے اطباء کے مطابق پتھری، یرقان، مالیخولیا اور گرمی کے بخار میں بھی پالک کا استعمال فائدہ بخش ہے۔ غذائی ماہرین تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ چونکہ پالک میں فولاد اور کیلشیم کی مقدار قدرے زائد ہوتی ہے لہٰذا یہ خون بڑھاتا ہے اور جگر کو توقیت دیتا ہے۔ کیلشیم ہڈیوں کی ساخت کو مضبوط، سخت اور پائیدار بناتا ہے۔ جن لوگوں کے جسم میں خون کی کمی ہو وہ اسے ضرور استعمال کریں۔ مجرب اور بہترین قدرتی نسخہ ہے۔میتھی: میتھی میں تمام حیاتین ملی جلی شکل میں کافی مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ یہ غذائیت سے بھرپور ساگ، سبزی ہے۔ اس کے زرد رنگ کے بیج میتھی دانہ کہلاتے ہیں۔ اس کا مزاج گرم اور تر ہے۔ قدرت نے اس کے بیجوں میں حیاتین کوٹ کوٹ کر بھردیا ہیں۔ بیجوں میں پروٹین گوشت کے برابر مقدار میں شامل ہیں۔ اطباء کہتے ہیں کہ میتھی موٹاپا پیدا کرتی ہے۔ موٹا ہونے کے خواہشمند افراد کے لیے حکیم حضرات تجویز کرتے ہیں کہ ایک پائوں میتھی اور دو پائو منقیٰ اچھی طرح پیس کر ایک ایک تولے کے لڈو بنالیں حروزانہ ایک لڈو استعمال کرنے سے خاطر خواہ فائدہ ہوگا۔ میتھی جسم کے فاسد مادوں کو خارج کرتی ہے کیونکہ اس کا ذائقہ تلخ ہوتا ہے۔ میتھی دانہ کا استعمال تقریباً ہراچار میں ہوتا ہے۔ یہ خون صاف کرتی ہے۔ پھوڑے پھنسیوں سے بچاتی ہے۔ چہرے کی رنگت نکھارنے میں بہت مفید ثابت ہوتی ہے۔
میتھی کا سالن غذائیت کے لحاظ سے ہر طبقےکے افراد کے لیے بہت مفید ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں