میں نے والدین کو کچھ نہ سمجھا‘ بڑوں کو کچھ نہ سمجھا‘ اپنی زندگی خود سے جینے کا شوق تھا‘ سب کچھ اجڑ گیا‘ اب موت مانگتی ہوں تو موت بھی نہیں ملتی۔ بہن بھائیوں نے میرا بہت ساتھ دیا اب میں تھک گئی ہوں بے بس اور لاچار ہوگئی ہوں
شاید قیامت تک یہ سزا بھگتوں
محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! میری زندگی کی ابتداء ایک عام سے گھرانے میں ہوئی ‘اب تک سوائے دکھوں کے کچھ حاصل نہیں ہوسکا ‘ مجھے کیا کہنا ہے اور کہاں سے شروع کروں کچھ سمجھ نہیں آرہی ہے۔ زندگی کی ابتداء سے ہی حالات بہت عجیب قسم کے رہے ہیں میں تعلیم میں اچھی تھی مگر دوران تعلیم مجھ سے خطاء ہوگئی جس کی سزا میں آج تک بھگت رہی ہوں اور نجانے کب تک یا شاید قیامت تک بھگتنا پڑے گی۔میں نے آج قلم صرف آج کی نوجوان نسل کیلئے اٹھایا ہے‘ جو نوجوانی کے نشے میں کچھ ایسی غلطیاں کر بیٹھتے ہیں جس کا خمیازہ انہیں اور پھر ان کی نسلوں کو بھی بھگتنا پڑتا ہے‘ والدین کی رسوائی الگ ہوتی ہے۔ اب میں واپس اپنی کہانی کی طرف آتی ہوں۔ جانے انجانے بنا سوچے‘ بنا سمجھے پتا نہیں کیوں اور کیسے میں نے ایک لڑکے سے چھپ کر نکاح کرلیا۔
یہ شادی نہیں ہوسکے گی
مگر میرا نکاح ایک لڑکے(م) سے ہوگیا۔ اس بات سے گھر والے 2سال تک لاعلم رہے‘ حالات گزرتے گئے پریشانیاں ‘ دکھوں اور ضمیر کی ملامت نے مجھے اندر ہی اندر مار ڈالا تھا مگر جیسے ہی میری سرکاری نوکری لگی اس لڑکے نے گھر والوں سے رابطہ کیا اور رخصتی کی بات کردی۔ اس طرح سے گھر کے چند افراد کو اس بات کا پتا چل گیا۔ نکاح کے اس عرصے کے دوران میری منگنی میرے ماموں زاد سے ہوگئی۔ لڑکا مجھ سے عمر میں کافی چھوٹا تھا اور اس رشتے پر راضی بھی نہیں تھا لگتا تھاکہ یہ شادی نہیں ہوسکے گی اس منگنی کا انجام ٹوٹنا ہی ہوگا مگر شاید قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔ گھر والوں نے اس نکاح کو ختم کرنے کا کہا تب میں نے بھی گھروالوں کی ہاں میں ہاں ملادی کیونکہ میرے اندر کے دکھ اور درد سے میں تنگ آچکی تھی مگر وہ لڑکا کسی صورت نہیں مان رہا تھا اور نہ ہی اس کے گھر والے۔ حالات خراب سے خراب تر ہوتے گئے انہوں نے ہمیں بہت پریشان کیا دھمکیاں دیں کیونکہ وہ کافی اثر و رسوخ والے لوگ تھے۔ کورٹ میں خلع کا کیس کرنا پڑا اور جلد ہی خلع ہوگئی مگر ان لوگوں نے بہت بدنام کیا ‘ سارا مسئلہ وقتی طور پر ختم ہوگیا۔ تقریباً اڑھائی سال بعد میری شادی بخیر ہوگئی میں صرف سات دن ہی سسرال میں رہی‘ پھر چھٹی نہ ہونے کی وجہ سے مجھے گھر واپس آنا پڑا۔ خلع کے بعد نوکری اور گھر کے کاموں میں اس قدر الجھ گئی تھی کہ اللہ سے مزید دور ہوگئی نماز تک پڑھنے کا وقت نہیں ملتا تھا اسی لیے میرا زوال ایک بار پھر سے شروع ہوگیا۔ شادی کروانے والے رجسٹرار نے مسئلہ بنادیا کہ مجھے فون آرہے ہیں۔ پولیس آئی ہے درخواست ہوئی ہے تھانے میں کہ نکاح پر نکاح ہوا ہے پھر بعد میں کہ پہلے سے نکاح ہوا تھا طلاق یافتہ ہونے کے باوجود نکاح نامے پر کنواری لکھا گیا ہے اس طرح سے یہ باتیں پھیلتی گئیں اور میرے سسرال والوں تک بھی پہنچ گئی ہم نے بات سنبھالنے کی بہت کوشش کی مگر انہیں پہلے سے نکاح اور طلاق کا پتا چل ہی گیا۔
میرے ساتھ مکافات عمل چل رہا ہے
خاندان والےآئے بات چیت کرکے چلے گئے انکے سامنے خاندان برادری اور لوگوں نے بہت غلط اور گندی باتیں کی تھیں۔ جیسے ہی میں اپنے والدین کے گھر آئی۔ میرے بھائی کے سسرال والے آئے اور اس کی بیوی کو لے گئے ہم ایسے گھر میں اپنی بیٹی نہیں رکھ سکتے‘ میں سسکتی‘ روتی‘ رب سے اپنے گزشتہ گناہوں کی معافی مانگتی مگر بعض گناہوں کی سزا دنیا میں ملتی ہے‘ مکافات عمل چلتا ہے‘ جو کہ میرے ساتھ ہورہا تا۔
اب تقریباً ایک سال ہوگیا ہے‘ در در کی ٹھوکریں کھارہی ہوں‘ گھر میں ہر طرف پریشانی ہی پریشانی ہے۔ زندگی ویران اور اجڑ گئی ہے سوچاتھا کہ پہلے بہت پریشانیاں دیکھی ہیں اب زندگی میں شادی کے بعد سکون آجائے گا مگر شاید قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ خاندان والے اب کہتے ہیں کہ آپ ہمیں پہلے بتا دیتے تو ہم شادی ہی نہ کرتے ۔
اپنی زندگی خود سے جینے کا شوق
پہلا نکاح ختم ہوا جوکہ میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی‘ میں نے والدین کو کچھ نہ سمجھا‘ بڑوں کو کچھ نہ سمجھا‘ اپنی زندگی خود سے جینے کا شوق تھا‘ سب کچھ اجڑ گیا‘ اب موت مانگتی ہوں تو موت بھی نہیں ملتی۔ بہن بھائیوں نے بہت ساتھ دیا میرا اب میں تھک گئی ہوں بے بس اور لاچار ہوگئی ہوں۔
اب عبقری پڑھتی ہوں تو کچھ حوصلہ ملتا ہے‘ دل کو سکون سا میسر آتا ہے‘ اس میں موجود وظائف پڑھتی ہوں‘ رات کو نیند آنا شروع ہوگئی ہے‘ اب سمجھ آئی کہ گھر میں دین ہونا سب سے ضروری چیز ہے‘ کاش میرے والدین نے مجھے دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی دی ہوتی‘ کاش مجھے پردہ اور محرم نامحرم کا علم ہوتا تو میری زندگی یوں اجڑ نہ گئی ہوتی۔
لکھتے ہوئے میرے آنسو نہیں رک رہے‘ جسم کانپ رہا ہے‘ مگر میں لکھوں گی شاید کوئی بہن پڑھ لے‘ شاید کوئی زندگی کی اس نہج پر پہنچ کر فیصلہ نہ کرپارہی ہو‘ شاید اس کی نظرمیں میری تحریر آجائے اور وہ واپس پلٹ آئے‘ والدین کی چھاؤں میں آجائے‘ بڑے بھائی اور بہنوں کی پناہ میں بیٹھ جائے۔شیخ الوظائف کے درس سنتی رہتی ہوں اور رب کریم سے اپنے گزشتہ گناہوں کی معافی مانگتی ہوں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں