حضرت ابوعبیدہؓ نے تیرہ آدمی لیے اور اس کی ایک آنکھ میں سب کو بٹھا دیا اور اس کی پسلیوں میں سے ایک پسلی لی اور اس کو کھڑا کیا پھر اونٹوں میں سے سب میں بڑے اونٹ کو اس کے نیچے سے گزارا وہ اس کے نیچے سے نکل گیا اور ہم نے اس کے گوشت سے بھنے ہوئے پارچوں کا توشہ بنایا
میرے لیے آسمان سے گرماگرم کھانا اترا
حضرت سلمہ بن نفیل سکونی رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں اور یہ صحابہ کرامؓ میں سے ہیں کہ ہم حضورﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ایک شخص آیا اور اس نے کہا اے اللہ کے نبیﷺ! کیا آپؐ کے پاس آسمان سے کھانا آیاﷺ آپﷺ نے فرمایا کہ میرے پاس آسمان سے گرما گرم کھانا لایا گیا اس نے دریافت کیا کیا اس میں سے کچھ آپ کےپاس بچ رہاہے؟ آپﷺ نے فرمایا ہاں! اس نے پوچھا وہ کیا ہوا؟ آپﷺ نے فرمایا آسمان کی طرف اٹھا لیا گیا، اور وہ کھانا مجھ سے کہہ رہا تھا کہ میں تم لوگوں میں ذرا دیر کے لیے ٹھہرونگا اور تم بھی میرے بعد تھوڑے دن ٹھہروگے بلکہ اتنے دن ٹھہرو گے کہ تم کہو کب تک یہ مصیبت رہے گی، پھر تم کھوسٹ ہو جائو گے اور تمہارا بعض بعض کو فنا کردیگا اور قیامت سے قبل دو موتیں سخت ہونگی اور اس کے بعد زلزلے کے سال ہونگے اور ایک روایت میں ہے کہ ہم حضورﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ایک آدمی نے کہا اے اللہ کے رسولﷺ! کیا آپﷺ کے پان جنت سے کھانا آیا؟(بحوالہ:کتاب:حیاۃ الصحابہؓ، حصہ دہم، صفحہ۷۲۵)
بھوک سے بےقرار صحابہ کرامؓ کی خدائی مدد
حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ ہم کو آنحضرتﷺ نے بھیجا اور ہم پر حضرت ابوعبیدہؓ کو امیر بنادیا کہ ہم قریش کے تجارتی قافلہ سے ملیں اور ہم کو توشہ میں ایک تھیلہ کھجوروں کا دیا ہمارے لیے اس کے علاوہ آپﷺ سے کچھ نہ ملا تھا تو حضرت ابوعبیدہؓ ہم لوگوں کو ایک ایک کھجور دیتے تھے راوی کہتے ہیں ہم نے دریافت کیا کہ تم اس ایک کھجور کا کیا کرتے تھے؟ انہوں نے کہا ہم اسی طرح پر چوستے جیسے کہ بچہ چوستا ہے اور اس کے اوپر پانی پی لیا کرتے تھے یہ بات ہمارے پورے دن اور رات تک کافی ہو جاتی اور ہم درختوں سے پتے جھاڑتے اور اس کو پانی میں بھگوتے اور اسے کھا جاتے تھے، ہم سمندر کے کنارے چلے ہمیں سمندر کے کنارے پر ایک اونچی سی چیز دکھائی دی جیسا کہ ایک بڑا ٹیلہ ہوتاہے ہم اس کے پاس آئے تو وہ ایک مچھلی تھی جس کو عنبر کہا جاتا ہے تو حضرت ابوعبیدہؓ نے فرمایا یہ مردار ہے پھر کہنے لگے ہم جناب رسول اللہﷺ کے بھیجے ہوئے ہیں اور اللہ کے راستہ میں ہیں اور تم سب بھوک سے بے قراری کی حالت میں ہو لہٰذا کھائو حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے ایک ماہ تک اسی پر گزر کیا اور ہم تین سو آدمی تھے یہاں تک کہ ہم موٹے ہوگئے اور ہم اس کی آنکھ کے سوراخ سے چلوئوں سے بڑے مٹکے میں چربی بھرا کرتے تھے اور اس سے اتنے بڑے بڑے ٹکڑے کاٹتے تھے جو بیل کے برابر ہوتے تھے اور حضرت ابوعبیدہؓ نے تیرہ آدمی لیے اور اس کی ایک آنکھ میں سب کو بٹھا دیا اور اس کی پسلیوں میں سے ایک پسلی لی اور اس کو کھڑا کیا پھر اونٹوں میں سے سب میں بڑے اونٹ کو اس کے نیچے سے گزارا وہ اس کے نیچے سے نکل گیا اور ہم نے اس کے گوشت سے بھنے ہوئے پارچوں کا توشہ بنایا جب ہم مدینہ آئے آپﷺ نے فرمایا وہ ایک رزق ہےجس کو اللہ پاک نے تمہارے لئے نکالا‘ کیاتمہارے پاس اس کے گوشت کا کوئی ٹکڑا ہے جس سے تم ہمیں کھلائو؟ حضرت جابرؓ کہتے ہیں تو ہم نے آپﷺ کی خدمت میں پیش کیا اور آپﷺ نے اس میں سے کھایا۔ (بحوالہ:کتاب:حیاۃ الصحابہؓ، حصہ دہم، صفحہ۷۲۷)
گھر میں غیبی طریقے سے رزق کا ڈھیر لگ گیا
حضرت ابوہریرہؓ نے بیان کیا کہ ایک شخص اپنے گھر والوں کے پاس آیا، جب ان میں تنگی دیکھی تو جنگل کی طرف چلا گیا۔ جب اس کی بیوی نے یہ دیکھا تو وہ چکی کی طرف کھڑی ہوئی اور چکی رکھی اور تنور کی طرف گئی اور اسے دہکایا اس کے بعد کہا اےمیرےاللہ! ہم کو رزق دے اس کےبعد جو نظر اٹھا کر دیکھا تو چکی کا گرنڈ (آٹے سے) بھر گیا تھا، حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ وہ تنور کی طرف گئی تو وہ بھی بھرا ہوا تھا یہ کہتےہیں کہ اس کاشوہر لوٹا اور اس نے پوچھا کیا تم نے میرے بعدکچھ پایا؟ اس کی عورت نے کہا ہاں! اپنے رب کی جانب سے (پایا) چنانچہ اس نے چکی وغیرہ کو دیکھا اوراس بات کاتذکرہ حضورﷺ سے کیا، آپﷺ نے فرمایا اگر وہ چکی کو نہ اٹھاتا تو قیامت تک وہ چکی پیستی رہتی۔ احمدؒ اور بزارؒ کی روایت میں اس طرح ہے اس کے بعد اس کی عورت نےکہا اے میرے اللہ! ہم کو وہ رزق دے جس کو ہم پیسیں ہم کو وہ چیز دے جس کو ہم گوندھیں اور روٹی پکائیںؒ، تو اچانک بڑا طباق روٹیوں سے بھر گیا اور چکی آٹا پیسنے لگی اور تنور کے کنارے بھنے ہوئے گوشت اور روٹیوں سے بھر گئے۔ اس کے بعد اس کا شوہر آیا اور اس نے کہا کیا تمہارے پاس کچھ ہے؟ بیوی نے کہا بے شک اللہ نے ہم کو رزق دیا، اس نے چکی اٹھائی اور اس کے آس پاس سے آٹا سمیٹا تو حضورﷺ نے فرمایا اگر تم اسی طرح سے (چکی کو) چھوڑے رکھتے تو قیامت تک آٹا پیسا ہوا نکالتی رہتی۔
جب فاقے زدہ کے گھر رزق کے ڈھیر لگ گئے
ایک انصاری آدمی صاحب حاجت تھے وہ نکلے اور ان کے گھر والوں کے پاس کچھ نہیں تھا ان کی بیوی نے سوچا اگر میں اپنی چکی کو چلانے لگوں اور تنور میں کھجور کی شاخیں جلائوں تو میرے پڑوسی چکی کی آواز سنیں گے اور دھواں دیکھیں گے تو گمان کریںگے کر ہمارے پاس کھانے کو ہے اور ہم پر فقر و فاقہ نہیں چنانچہ یہ اپنے تنور کی طرف اٹھی اور اسے دہکایا اور چکی کو چلانے بیٹھ گئی اس کا شوہر آیا او رچکی کی آواز سن لی یہ عورت شوہر کے لیے درواز کھولنے کھڑی ہوئی، شوہر نے کہا تو کیا پیس رہی تھی؟ اس نے پوری بات کہہ سنائی جب یہ دونوں اندر آئے تو ان کی چکی چکر کھا رہی تھی اور آٹا ڈال رہی تھی اور گھر میں کوئی برتن نہیںبچا تھا جو بھر نہ گیا ہو پھر وہ عورت اپنے تنور کی طرف گئی تو اسے روٹیوں سے بھرا ہوا پایا اس کا شوہر آیا اور اس کا تذکرہ حضورﷺ سے کیا آپﷺ نے دریافت کیا کہ چکی کا تو نے کیا کیا؟ اس نے کہا کہ میں نے اسے اٹھا دیا اور ات کا آٹا جھاڑ لیا تو آپﷺ نے فرمایا اگر تم اس چکی کو نہ اٹھاتے تو ہمیشہ تمہارے لیے میری زندگی بھریا یوں فرمایا تمہاری زندگی بھر آٹا دیتی رہتی۔ (بحوالہ:کتاب:حیاۃ الصحابہؓ،۔ حصہ دہم، صفحہ۷۲۸)
حضرت ابوبکرؓ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہﷺ کے ہمراہ مکہ معظمہ سے نکلا ہم قبائل عرب میں سے ایک قبیلہ پر پہنچے حضورﷺ نے ایک گھر علیحدہ دیکھا آپﷺ نے اسی گھر کا ارادہ فرمایا تو جب ہم وہاں اترے اس میں صرف ایک عورت تھی اس نے کہا اے اللہ کے بندے! میں عورت ہوں اور میرے ساتھ کوئی نہیں ہے تمہیں چاہیے کہ قبیلہ کے بڑے آدمی کے پاس چلے جائو، اگر تمہارا ارادہ ضیافت کا ہو، آپ ﷺ نے اس عورت کو کوئی جواب نہ دیا اور یہ شام کے وقت کاواقعہ ہے اتنے میں اس عورت کا لڑکا اپنی بکریاں ہنکاتا ہوا لایا تو اس نے اپنے بیٹے سے کہا! اے میرے بیٹے! اس بکری اور چھری کو ان دو آدمیوں کی طرف لے جا اور ان دونوں سے کہہ کہ میری ماں تم سے کہتی ہے کہ اسے ذبح کرو اور کھائو اور ہمیں کھلائو جب وہ لڑکا آیا تو اس سے حضورﷺ نے فرمایا چھری لے جا اور میرے پاس بڑا برتن لے آ، لڑکے نے کہا یہ دودھ سے سوکھ گئی ہے اور اس میں دودھ نہیں ہے، آپﷺ نے فرمایا جا وہ لڑکا گیا اور بڑا برتن لے آیا۔ حضورﷺ نے اسکے تھن پر ہاتھ پھیرا پھر دوہا، یہاں تک کہ وہ برتن دودھ سے بھر گیا اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا کہ اسے اپنی ماں کے پاس لے جا۔ چنانچہ اس کی ماں نے پیا یہاں تک کہ وہ سیراب ہوگئی پھر اس برتن کو آپﷺ کے پا س لایا۔ آپﷺ نے فرمایا اس بکری کو لے جا اور دوسری لے آ۔ آپﷺ نے دوسری بکری کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا۔ پھر حضرت ابوبکرؓ کو پلایا پھر ایک اور بکری طلب کی اور اس کے ساتھ ایسا ہی کیا۔ پھر آپﷺ نے پیا، اس کے بعد ہم نے اپنی وہ رات گزاری پھر ہم چلے، اور اس عورت نے آپﷺ کا نام مبارک رکھ دیا، اور اس عورت کی بکریاں بہت ہوگئیں یہاں تک کہ اسکا ریوڑ ایک دفعہ مدینہ لایا گیا تو حضرت ابوبکر صدیقؓ کا ادھر سے گزر ہوا ان کو اس عورت کے بیٹے نے دیکھا اور پہچان لیا اور کہا اے میری ماں! یہ وہی شخص ہے جو مبارک کے ساتھ تھا تو وہ عورت حضرت ابوبکرؓ کے لیے کھڑی ہوئی اور اس نے کہا اے اللہ کے بندے! وہ آدمی جو تمہارے ساتھ تھے کہاں ہیں؟ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کیا تو جنتی ہے وہ کون ہیں؟ اس نے کہا نہیں فرمایا وہ نبی اکرمﷺ ہیں۔ اس عورت نے کہاتو مجھے ان کے پاس لے چلو، حضرت ابوبکرؓ اس عورت کو آپﷺ کے پاس لائے آپﷺ نے اسے کھانا کھلایا اور اسے عطیہ دیا اس نے بھی آپﷺ کو ہدیہ میں کچھ پنیر اور دیہاتیوں کے سامان دیئے،آپ ﷺ نے اسے لباس دیا اور عطیہ دیا اور وہ مسلمان ہوگئی۔(بحوالہ:کتاب:حیاۃ الصحابہؓ، حصہ دہم، صفحہ۷۲۹)
گوشت میں برکت ہونا
مسعود بن خالدؓ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہﷺ کے لیے ایک بکری بھیجی پھر میں اپنی حاجت کے بارے میں حضورﷺ کے پاس گیا تو آپﷺ نے اس بکری کا کچھ حصہ واپس کیا اس کے بعد میں اپنی بیوی ام حناسؓ کے پاس آیا اس کے پاس گوشت تھا میں نے پوچھا اے ام خناسؓ! یہ کیا گوشت ہے؟ کہا ہماری طرف تمہارے دوستﷺ نے اس بکر میں سے جو تم نے حضورﷺ کے لیے بھیجی تھی واپس کیا ہے۔ حضرت مسعودؓ نے کہا تجھے کیا ہوا تو اسے اپنے بال بچوں کو کیوں نہیںکھلاتی؟ ام خناسؓ نے کہا یہ ان سے بچ رہا ہے اور سب کھا چکے ہیں (راوی کہتے ہیں) یہ گھر والے دو یا تین بکری ذبح کرتے تھے اور ان کے لیے یہ ناکافی ہوتی تھی۔
خالد بن عبدالعزیٰؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک بکری ذبح کی۔ خالدؓ کے بال بچے بہت تھے اور حضورﷺ نےاور آپﷺ کے بعض اصحابؓ نے اسے کھایا اور جو کچھ بچ رہا تھا خالد کو دیا ان کے سب گھر والوں نے اسے کھایا اور بچ بھی رہا۔(بحوالہ:کتاب:حیاۃ الصحابہؓ، حصہ دہم، صفحہ۷۲۴)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں