حج کے سفر میں یہ بات کثرت سے دیکھی
سفر میں جانا ہوتا ہے تو بلڈنگ کی لفٹ کا استعمال ‘ سفر کا حصہ ہے۔ باقی ملکوں کی بات تو نہیں کرتا وہاں تو یہ معاملات کبھی کبھار ہی ہوتے ہیں لیکن حج کے سفر میں ایک بات میں نے اکثر دیکھی ہے کہ ہر فلور پر چند افراد لفٹ کے انتظار میں ہوتے ہیں۔ جب لفٹ کا دروازہ کھلتا ہے تو بہت تیزی سے اندر داخل ہوتے ہیں اور بعض اوقات یہ بھی احساس نہیں ہوتا کہ کسی کے پاؤں پر پاؤں آئے‘ کسی کو گھٹنا‘ کندھا لگے اگر وہ کسی وہیل چیئر سامان یا بیگ کو لارہے توپھر کوئی زخمی ہوجائے‘ بس کسی طرح لفٹ میں داخل ہوجائیں اور وہی لوگ لفٹ میں داخل ہونے کے بعد شکر ادا کرتے ہیں کیونکہ رش کے دنوں میں لفٹ بہت مصروف ہوتی ہیں‘ ہر لفٹ کے اندر لکھا ہوتا ہے گیارہ افراد‘ انیس افراد یا بڑی لفٹ پر چالیس افراد کی گنجائش بھی لکھی ہوتی ہے۔ اب وہی لفٹ جب اگلے فلور پر رکتی ہے‘ یہی بندہ(جو پہلے فلور پر بھاگ کر اندر گھسا تھا) کہتا ہے کہ جگہ نہیں ہے حالانکہ ابھی آدھے افراد بھی اس میںسوار نہیں ہوتے۔ لفٹ میں ابھی بہت زیادہ گنجائش باقی ہوتی ہے اور آوازیں لگنا شروع ہوتی ہیں کہ جگہ نہیں جگہ نہیں! (لوگ باہر کھڑے پریشان ہوتے ہیں)۔
ہمارا مزاج ‘ حال اور کیفیت
یہی حال ہمارا ٹرین کا ہے‘ اسٹیشن پر بھی ہماری کیفیت یہی ہوتی ہے کہ ٹرین رکتے ہی دروازہ کھلے‘ ہمیں برتھ یا کم از کم سیٹ تو ضرور ہی مل جائے پھر وہی شخص ہوتا ہے جو ڈبہ کا دروازہ بند کردیتا ہے اور آرام سے سیٹ پر بیٹھ جاتا ہے اور باہر سے لوگ دروازہ توڑ رہے ہوتے ہیں‘ سخت سردی یا سخت گرمی‘ چند منٹ کا اسٹاپ اور اندر سے آواز آرہی ہے کہ اگلی بوگی میں جا۔ حالانکہ تھوڑی دیر پہلے یہ وہی شخص تھا جو ٹرین کا دروازہ کھلنے کو سعادت سمجھ رہا تھا ور اپنی سیٹ اور برتھ کا حق دار تھا اور اس کے ملنے پر بہت مسرور اور مطمئن ہوا‘ ٹیک لگا کر بیٹھا اور کھڑکی سے باہر کی منظر کشی کی اور اب جب خود جگہ اندر مل گئی اب باہر سے آنے والوں کو کہتا ہے کہ اگلی بوگی میں جائیں‘ جگہ نہیں ہے۔ بالکل یہی حال میں نے دوران حج لفٹ میں محسوس کیا ہے۔
سب کے درد کو اپنا درد سمجھنا! نجانے ہم کب سمجھیں گے؟
سالہاسال کے تجربات میں ہماری طبیعت اور مزاج میں (سوائے چند لوگوں کے ) یہ ڈال دیا ہے کہ ہم دراصل وہ لوگ ہیں جو صرف اکیلے اپنی ذات کو لے کر چل رہے‘ انسانیت اور سب کے درد کو اپنا دکھ درد سمجھنا ‘نامعلوم ہماری طبیعتوں میں کب آئے گا؟ میں خود اس بات میں شامل ہوں اور ہر پل اپنی اصلاح کا محتاج ہوں۔ کئی بار تو کچھ لوگ میرے ساتھ جھگڑنے پر آگئے کہ جگہ نہیں ہے تم ہر فلور پر آنے والوں کو کہتے ہو ہاں ہاں جگہ ہے‘ جگہ بناؤ ‘میں انہیں بار بار درخواست کرتا ہوں کہ دیکھیں لفٹ میں افراد کی گنجائش لکھی ہوئی ہے ابھی تو آدھے بھی نہیں ہوئے اور جتنے افراد کی گنجائش لفٹ پر لکھی ہے۔ لفٹ اس سے زیادہ وزن اٹھانے کی گنجائش پہلے سے موجود رکھتی ہے۔چلو اس سے زیادہ نہ ہوں‘ جتنے لکھے اتنے تو آجائیں لیکن انہیں یہ بات سمجھ اس لیے نہیں آتی کہ اب وہ خود لفٹ پر سوار ہوگئے ہیں۔
لفٹ اور ٹرین ہمارا ہمیشہ امتحان لیتی ہے!
ایک مزیدار بات: ایک مزیدار بات اس سال سفر حج میں مجھے ملی‘ دبئی کے ایک صاحب حج پر تشریف لائے‘ کہنے لگے میں پہلے بھی آیا‘ میں نے ہمیشہ لفٹ پر سوار ہونے کے بعدیہ کہا کہ لفٹ میں جگہ نہیں‘ جگہ نہیں اب کی بار بھی یہی کچھ میں نے کہا؟ لیکن ایک صاحب زبردستی اندر گھس آئے حالانکہ جگہ بہت تھی قدرت کا نظام کہ لفٹ اچانک خراب ہوئی اور نیچے بیسمنٹ میں جاکر ٹھہر گئی اب ہم موبائل فون پر ہیلپ لائن کو کال ملائیں مگر نیچے سگنل ہی نہیں‘ ہماری آواز بھی کوئی سننے کو تیار نہیں‘ لفٹ کا انٹرکام وہ بھی خراب‘ دروازہ زور زور سے کھٹکھٹا رہے مگر کوئی نہ سنتا‘ تہہ خانہ میں کون آئے؟ جو سب سے آخر میں زبردستی ہمارے منع کرنے کے باوجود لفٹ میں گھساوہی شخص دراصل ایک مصری تھا اورلفٹ کا کام جانتا تھا۔ اس نے چابی نکالی اور لفٹ کے درمیان میں گھمانا شروع کردی ایک چھوٹی سی روزن اورجھری نظر آئی پھر اس نے زور زور سے آوازیں دیں تو ایک صفائی کرنے والا آیا تو وہاں سے اس نے کوئی چھری منگوائی‘ کسی طرح وہ چھری اندر آئی اس نے اپنے ہی انداز میں وہ چھری گھما ئی اور آہستہ آہستہ دروازہ کھلنا شروع ہوگیا اور ہم باہر نکل آئے۔ ہمارے ساتھ دو نوجوان تھے جو کہ لفٹ میں کھڑے مسلسل شور شرابا کررہے تھے‘ ہائے مرگئے کا سب سے زیادہ شور کرنے والے وہی تھے ۔وہی تھے جو لفٹ میں آنےوالوں کے بارے میں کہہ رہے تھے کہ جگہ نہیں ہے‘ لوگ ایسے ہی گھسے جارہے ہیں۔ جب مصری آیا تب بھی انہوں نے سب سے زیادہ شور مچایا تھا۔ اب وہی مصری کا شکریہ بھی ادا کررہے تھے‘ مصری دراصل انجینئر تھا۔ قارئین! زندگی میں انسانیت کیلئے سکون کا ذریعہ بن جائیں اور چین کا ذریعہ بن جائیں کیا خیال ہے؟ لفٹ اور ٹرین ہمارا ہمیشہ امتحان لیتی ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں