”میرے پاس گنتی کے چند روپے تھے اور ویسے بھی ہم جیسے لوگوں کے پاس ہوتے ہی گنتی کے ہیں۔ میں یہاں آٹا خریدنے آیا تھا اور اب واپس جا رہا ہوں“۔ میں اسے جانتا تھا۔ اس لئے کہ وہ ایک ایسے دفتر میں کام کرتا تھا جہاں میرا اکثر آنا جانا رہتا۔ میں نے سوال کیا۔ آٹا نہیں ملا‘ کہنے لگا‘ آٹا موجود ہے لیکن میں خرید نہیں سکتا‘ میں ہر ماہ اپنا سودا سلف لینے کے بعد آخر میں آٹا خریدنے آتا ہوں بس گنتی کے پیسے میرے پاس ہوتے ہیں ۔آج یہ پیسے کم پڑ گئے۔ مجھے معلوم تھا اس کی غیرت یہ گوارا نہیں کرے گی کہ میں اسے پیسے دوں۔ اس لئے میں اسے شرمندگی سے دیکھتا رہا‘ پھر میں نے کہا تم نے یوٹیلٹی سٹور سے پوچھا‘ کہنے لگا محلے میں ایک سٹور تھا‘ جیسے ہی مال آیا ‘ تین کونسلر صاحبان آئے اور مال لے گئے‘ اب ان کے دروازوں پر کون دستک دیتا پھرے‘ میں نے اسے گاڑی میں بٹھا لیا‘ کہا آﺅ آج آٹا تلاش کرتے ہیں‘ سیٹ پر بیٹھ کر اس نے میری جانب دیکھا اور ایک ایسی ہنسی اسکے لبوں پر تھی کہ اگر ذرا ضبط کا دامن ہاتھ سے چھوٹتا تو آنکھوں کے کنارے سے آنسو پھسل۔ جاتے‘ اس مسکراہٹ کے ساتھ اس نے کہا ‘ یہ تلاش بھی آپ کےلئے ایک کالم کا موضوع بن جائے گی اور آپ مزے سے ایک کہانی بنا لیں گے۔ میں نے اس سے وعدہ کیا کہ میں اس سارے سفر کو کالم کا موضوع نہیں بناﺅں گا‘ ہم اس شہر کے چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے دکاندار کے پاس گھومنے لگے لیکن اس شخص کی جیب میں موجود پیسوں کے مطابق کوئی آٹا دینے کو تیار نہ تھا۔ میں نے کہا یار تم سمجھنے کی کوشش کرو۔ یہ آٹا اتنے پیسوں میں نہیں ملے گا اور پھر ایک دم وہ پھٹ پڑا۔ ابھی پچھلے مہینے کی تنخواہ میں اتنے پیسوں میں آٹا خریدا ہے۔ اس مہینے بھی اتنے ہی پیسے لے کر آیا ہوں‘ آٹا کیسے مہنگا ہو سکتا ہے؟ مجھے ملے گا‘ آپ مجھے اتار دو میں تلاش کر لوں گا۔ مجھے بہت عجیب لگا ‘ یہ ابن بطوطہ بننے کا شوق میرا اپنا تھا۔ آخر میں نے کہا چلو میں تمہارے ساتھ ہوں ۔ ہم ایک نسبتاً زیادہ ٹریفک والی سڑک پر آئے‘ بار بار ٹریفک جام میں پھنسے‘ پھر ایک جگہ ایک سڑک کے کونے پر ایک مکان کی بیٹھک میں دکان بنی ہوئی تھی‘ اس ہائی وے نما سڑک پر یہ ایک چھوٹی سی آبادی تھی‘ دکان میں ضرورت کی چھوٹی موٹی سب اشیاءموجود تھیں‘ ایک بابا جی اس دکان پر بیٹھے تھے ۔میرے ساتھ آئے نوجوان نے یہاں گاڑی رکوائی اور مجھے ساتھ چلنے کو کہا‘ نوجوان نے پوچھا آٹا ہے بابا جی‘ انہوں نے ہاں میں گردن ہلا دی۔ ایک بیس کلو کا تھیلا دے دو۔ بابا جی اندر سے تھیلا لے کر آئے۔ نوجوان نے مٹھی میں بند روپے ان کے ہاتھ میں تھما دیئے۔ بابا جی نے نوٹ گنے اور کہا تمہیں معلوم ہے آٹے کا کیا ریٹ ہے ؟نوجوان نے کہا معلوم ہے اور یہ بھی پتہ ہے کہ آپ اتنے روپے میں ہی آٹے کا تھیلا دے دیں گے۔ ایک مسکراہٹ ان کے چہرے پر آئی ‘ تم کیسے جانتے ہو۔ نوجوان نے کہا آپ میرے محکمے میں ایک مناسب سطح کے افسر تھے۔ آپ مجھے نہیں جانتے‘ میں جانتا ہوں۔ آپ نے زندگی بھراس محکمے میں رزق حلال کمایا جہاں کی ایک برانچ میں حرام رچا بسا ہواہے ۔ مجھے کسی نے بتایا تھا کہ آپ نے یہاں اس بستی میں کریانے کی دکان کھول لی ہے‘ پھر نوجوان میری طرف متوجہ ہوا‘ میں نے کہا تھا اتنے پیسوں میں آٹا ملے گا۔ میرا تجسس بڑھ گیا‘ میں نے بابا جی سے پوچھا لوگ آپ کی دکان پر ٹوٹ کیوں نہیں پڑے۔ کہنے لگے اگر ٹوٹ پڑتے تو اس جیسے لوگوں کو آٹا کہاں سے ملتا۔ میں نے سوال کیااس میں ایسی کیا خاص بات ہے ۔ بابا جی نے کہا اس کا یقین‘ اسے یقین تھا کہ اللہ نے اس کے مہینے بھر رزق کے لئے اتنے ہی پیسے بھیجے ہیں اور ان پیسوں میں ان کا سارا سودا سلف آنا چاہیے لیکن آپ بھی تو مہنگابیچ کر اس کا اعتماد خراب کر سکتے تھے‘ میں نے سوال کیا۔اس کا اعتماد خراب نہ ہوتا ‘وہ آپ کے ساتھ اپنی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا لیکن میری عمر بھر کی کمائی لٹ جاتی‘ بھرے ہوئے دودھ کے پیالے میں گندگی کی چھینٹ پڑ جاتی‘ کیا ایسا دودھ کا پیالہ کسی کے سامنے پیش کیا جا سکتا ہے‘وہ بھی اس کے سامنے جو مالک کائنات ہے۔ میں حیرت میں گم تھا کہ نوجوان نے تھیلا گاڑی کی ڈگی میں رکھ کر چلنے کےلئے کہا ۔ میں نے پوچھا بابا جی ! کیا آپ اس نوجوان کو ضرور ملتے؟ کہنے لگے میں تمہارے دل کا چور سمجھتا ہوں۔ یہ نوجوان توکّل کی انتہا پر ہے۔ رزق حلال کماتا ہے اس لئے اسے اس سے آدھی تنخواہ بھی ملے گی تو اس کی ضروریات پوری ہو جائیں گی۔ کوئی میرے جیسا راستے میں بیٹھا اس کی راہ تک رہا ہوگا۔ یہ ہمارے اعمال ہوتے ہیں جو ہمارے نصیب‘ ہماری زندگی اور ہماری سیاست اور حکومت تک کے فیصلے کرتے ہیں۔ تم کیا سمجھتے ہو توکّل سرمائے پر ہو اور اللہ نیک حاکم ملائے گا۔ تکیہ عالمی طاقتوں پر ہو اور اللہ نصرت اور مدد بھیجے گا۔ اعمال بد سے بد ترین ہوں اور حاکم صالح اور پاکباز ہوں گے۔یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ نوجوان گاڑی میں بڑے اطمینان سے بیٹھ چکا تھا اور میرے ذہن میں سید الانبیاءکے وہ فرمان گونج رہے تھے۔ ” جس نے چالیس دن تک غلہ بند کیا اور اس کے مہنگا ہونے کا انتظار کرتا رہا وہ اللہ سے بیزار اور اللہ اس سے بیزار ہو گیا “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے چالیس د ن تک غلہ بند کیا پھر اگر وہ اس سے صدقہ بھی کرے تو اس کو اجر نہیں ملے گا ۔ آپ ا نے پھر کہا اللہ نے سوداگر کو رزق دیا اور جو اسے روک رہا ہے وہ ملعون ہے یعنی اللہ کا رسول ا اس پر لعنت بھیج رہا ہے ۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے تاجر کےلئے کہا کہ اللہ اسے افلاس اور جذام میں مبتلا کرے جو غلہ کو بند کر کے فروخت کرتا ہے ۔
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 934
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں