کیرا و نزلہ کے مریضوں کیلئے
میں گزشتہ چار سال سے ”کیرا“ کے مرض میں مبتلا تھا۔ ساری ساری رات چارپائی پر پاﺅں لٹکا کر بیٹھا رہتا اور اپنی اس تکلیف کے باعث کئی بار روتا۔ بڑے بڑے ایم بی بی ایس حضرات سے دوائی لی۔ سب نے الرجی بتائی اور مہنگی سے مہنگی دوائی دیتے رہے اور یہی حال ہومیو پیتھک ڈاکٹر حضرات کا رہا۔ لیکن 5مئی کو میں اپنے قریبی قصبہ شیخ فاضل کی ایک دکان سے سبزی خرید رہا تھا کہ میرا ایک شاگرد محمد اسلم جو کہ ایم بی بی ایس تو نہیں بہرحال دیہاتی ڈاکٹر ہے۔ یہاں میں یہ عرض کرتا چلوں کہ میں نے 39 سال محکمہ تعلیم میں بحیثیت ٹیچر سروس کی ہے۔ یکم جنوری 2003ءسے 60 سالہ عمر کے تحت ریٹائر ہوا ہوں۔ بہرحال میرے اس شاگرد محمداسلم نے میرا حال احوال پوچھا۔ میں نے اسے بتایا کہ شوگر تورینڈم155 ہے جو کہ کنٹرول ہے لیکن مجھے کیرے کی بے حد تکلیف ہے تو اس نے مجھے ایک دیسی نسخہ لکھ کر دیا۔ جو میں گزشتہ پندرہ دن سے استعمال کر رہا ہوں اور مجھے 60فیصد فائدہ ہے۔ چار سال کے بعد آج کل میں رات کو آرام کی نیند سوتا ہوں اور ہر وقت تھوکتے رہنے کی بُری عادت سے بھی نجات مل چکی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ کے مو ¿قر ماہنامہ کی وساطت سے یہ نسخہ ہر قاری تک پہنچ جائے اوراگر کوئی (کیرا۔ نزلہ) کا مریض ہو تو خدا اسے شفا بخشے۔ نسخہ درج ذیل ہے۔
ہوالشافی: اسطخدوس 50گرام، سونف 50گرام، پستہ 50گرام، مغز بادام مقشر 100گرام ، چنے بریاں 100گرام، مغز چہار 50گرام، خشک دھنیا 50گرام، خشخاش 50گرام، الائچی خورد 20تا 30 گرام۔
اگر مریض کو شوگر نہ ہو تو ذائقہ کیلئے کوزہ مصری 100گرام ڈال لیں۔ ان سب اشیاءکو الگ الگ کوٹ کر مکس کر لیں اور کھانا کھانے کے بعد صبح، دوپہر، شام ایک ایک چمچ ہمراہ تازہ پانی استعمال کریں۔
دوسرا حصہ: فرائی پین میں ایک کپ پانی ڈال کر اس میں دو دانہ انجیر اور دو دانہ منقہ ڈال کر ابالیں جب آدھا کپ رہ جائے تو نیم گرم نوش فرمائیں لیکن یہ عمل رات کو سونے سے قبل کرنا ہے۔ خدا کی ذات بڑی شفا بخشنے والی ہے اور میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر کسی کو ہر مرض سے شفا بخشے۔ جیسا کہ اس نے مجھ پر کرم کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں اس نسخہ کو ہر خاص و عام تک پہنچانا چاہتا ہوں ۔ (دلشاد حسین شاہ)
تنگدستی انوکھے طریقے سے دور ہوئی
چند سال پہلے تک میں تنگدستی میں زندگی گزار رہا تھا۔ اچھا بھلا کاروبار تھا۔ جو مختلف وجوہات کی بنا ءپر ختم ہو گیا۔ سونے کو ہاتھ لگاتا تو مٹی بن جاتا۔ صدقہ خیرات بھی کرتا رہا۔ وظائف بھی پڑھتا رہا، مگر خاص فرق نہ پڑا۔ کسی محفل میں جانا ہوا تو وہاں ایک بزرگ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ کہنے لگے کہ کسی نے اللہ کا فضل حاصل کرنا ہو تو ایک انتہائی آسان نسخہ ہے۔ کسی نے پوچھا کہ اللہ کے فضل سے کیا مراد ہے۔ جواب ملا ! جب اللہ تعالیٰ فضل فرماتے ہیں تو حالات یکسر بدل جاتے ہیں۔ آمدنی میں برکت بڑھتی ہے اور غیر محسوس انداز میں اخراجات کم ہو جاتے ہیں۔ مقروض ہو تو اس جگہ سے مدد ملتی ہے جس کا وہم و گمان بھی نہ ہو۔ وہ بزرگ نسخہ بتاتے ہوئے کہنے لگے۔
جب بھی دعا مانگنے لگیں تو اپنے یا اپنے اہل خانہ کیلئے کچھ بھی نہ مانگاجائے اور بڑے خشوع و خضوع کے ساتھ اپنے دشمنوں اور حسد کرنے والوں کیلئے دعا مانگیں۔ جن لوگوں نے نقصان پہنچایا ہو، تہمتیں لگائی ہوں، تذلیل کی ہو، ان سب کی پچھلی خطائیں معاف کرکے ان کیلئے خیروبرکت، خوشحالی اور سکون کی دعائیں مانگی جائیں۔ ان لوگوں کے حق میں دعا قبول ہو یا نہ ہو، آپ کے رزق میں اس قدر اضافہ ہو جائے گا کہ سنبھال نہ سکیں گے۔
پھر وہ صاحب کہنے لگے کہ میں نے پہلی بار عشاءکی نماز کے بعد اس کا تجربہ کیا۔ میرے دشمنوں اور ناپسندیدہ افراد کی ایک لمبی فہرست تھی۔ پہلی بار تو ان کیلئے دعا مانگتے ہوئے میری زبان اٹک گئی۔ آہستہ آہستہ میں ان کیلئے دعا مانگنے تو لگ گیا مگر پہلے اپنے اور اہل خانہ کے معاملات نمٹا کر رسماً ان کے نام آخرمیں لے لیتا۔ آخر ایک دن میں نے پوری توجہ کے ساتھ نماز پڑھی اور تلاوت کی۔ پھر اپنے مخالفوں کیلئے پوری سچائی سے دعا کی۔ یقین کریں صرف ایک ہی ہفتے میںمیرے حالات بدلنا شروع ہو گئے۔ آج تک سمجھ نہیں آیا کہ ایسا کیسے ہوا۔ مگر جو لوگ پہلے میرا فون سننا پسند نہیں کرتے تھے وہ آرڈر لیکر گھر پہنچنے لگے۔ ایک سال کے اندر مختلف ممالک میں کام شروع ہو گیا۔ اللہ کا فضل شامل (میرے ساتھ) ہو چکا تھا۔ مٹی کو ہاتھ لگاتاتو سونا بن جاتی۔ اس وقت کروڑوں کا بزنس ہے۔ میرے دل میں نفرت، کینہ و بغض نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی۔ زہر نکل جانے سے میں خود کو بہت آسودہ محسوس کرتا ہوں۔ جو چاہے تجربہ کرکے دیکھ لے۔ مجھے یقین ہے کہ اللہ کا فضل اس کے ساتھ بھی شامل ہو جائے گا۔ (صفدرعلی )
نگاہ ولی کی تاثیر
میری امی جان کے دادا جی اپنے زمانے کے بہت نامور چور تھے۔ انہوں نے انگریز کے دور میں تقریباً ایک سال دہلی جیل کاٹی۔ ان کے ابا جان یعنی امی جی کے پڑدادا جی انہیں بڑا سمجھاتے کہ چوری نہ کیا کرو لیکن وہ بازنہیں آتے تھے۔ ایک دفعہ ایک اللہ والے محمد صدیق رحمتہ اللہ علیہ کہیں پڑدادا جی کو ملے ۔پڑدادا جی نے کہا کہ میرا بیٹا چوری نہیں چھوڑتا۔ انہوں نے فرمایا میں نے ابھی رکنا نہیں اس کو باہر لے کر آﺅ۔جب دادا جی تشریف لائے تو ان بزرگ نے کہا کہ مجھے تھوڑا آگے تک چھوڑ آﺅ۔ وہ چھوڑنے گئے تو حضرت جی نے پوچھا کہ تم چوری کیوں کرتے ہو؟ دادا جی نے کہا کہ چھوٹے بہن بھائی ہیں، ان کا پیٹ پالنا ہوتا ہے۔ حضرت جی نے فرمایا! میں آپ کا روزانہ خرچ تقریباً پانچ روپے لگا دیتا ہوں لیکن چوری نہ کرو۔ تو دادا جی نے کہا کہ حضرت مجھ سے چھوٹتی نہیں۔ حضرت نے فرمایا کہ اب کے بعد تو نے چوری نہیں کرنی اور آئندہ آپ کو کچھ نہیں ملے گا اور ایسا ہی ہوا ۔اس کے بعد جب وہ چور ساتھیوں کے ساتھ جاتے تو کوئی پتھر پھینک دیتااس سے مالک جاگ جاتا اور وہ بھاگ جاتے ۔ اس کے بعد انہوں نے چوری سے سچی توبہ کر لی اور جتنا مال لوٹا ہوا تھا وہ اپنے مال سے واپس کیا اور بہت اللہ والے بنے۔اور باقی زندگی اللہ اللہ کرنے میں گزار ی۔ ( فاروق ریحان)
بلیوں کی خدمت.... ایک توجہ طلب پہلو
محترم جناب حکیم محمد طارق محمود صاحب ! ماہنامہ ”عبقری“ کے پچھلے شمارے پڑھتے ہوئے مارچ 2008ءکے شمارے میں آپ کا بلیوں کی خدمت کے متعلق اداریہ پڑھا۔ آپ نے یہ بالکل درست لکھا ہے کہ بلیوں کی خدمت کرنے اور ان کی تکلیف دور کرنے سے اللہ پاک مدد فرماتے ہیں۔ آپ کا اداریہ پڑھ کر یقینا کافی خواتین و حضرات نے بلیوں کو دودھ پلانا شروع کر دیا ہوگا۔ مگر یہاں میں چند باتوں کی طرف معذرت کے ساتھ آپ کی توجہ دلانا چاہتی ہوں۔ (1) وہی لوگ جو بلیوں کوا تنی محبت اور ہمدردی سے دودھ پلاتے ہیں ان کے اپنے گھروں میں بوڑھے اور ضعیف والدین اور ساس، سسر ہوتے ہیں جن کیلئے کسی کے پاس ایک پیالی دودھ پلانے کو نہیں۔ اگر پلاتے بھی ہیں تو انتہائی ناگواری سے اور مصیبت سمجھ کر پلاتے ہیں۔ (2)ہمارے اپنے گھروں میں (اکثر گھروں میں ) غریب ماسیاں اور عورتیں کام کرنے آتی ہیں کئی دفعہ ان کے یہاں ولادت ہوتی ہے اور وہ گھر میں نومولود بچے کو چھوڑ کر آتی ہیں۔ کبھی اگر کوئی بیگم یا صاحب اجازت دے دیں تو بچے کو بھی لے آتی ہیں۔ ہم جو بلیوں کو اتنی محبت سے دودھ دیتے ہیں ہمارے پاس ان غریبوں یا ان کے بچوں کیلئے عمر بھر ایک پیالی دودھ پلانے کو نہیں ہوتا۔
بلیوں کو دودھ ضرور پلائیے۔ مگر ذرا اس طرف بھی دھیان کر لیا جائے تو رب کریم انشاءاللہ ہمارے گھروں میں دودھ کی نہریں بہا دے گا۔ (مسز ارشد حسین، گلشن اقبال، کراچی)
(ایڈیٹرصاحب: آپکی بات بالکل بجا ہے امید ہے قارئین اس طرف بھی توجہ فرمائیں گے ورنہ جانوروں کی خدمت بھی دین ہے)
کسی بھی مصیبت کیلئے
(1) کوئی بھی مصیبت یا دکھ تکلیف ہو، اچھی طرح وضو کرکے اوّل و آخر درود شریف ”سورئہ الرحمان“ پارہ 27 ۔گیارہ بار پڑھ کر دعا کریں۔ (2) ”یَاقَادِرُ“ مشکل آسان کرنے کیلئے مجرب ہے۔ لہٰذا جب کسی کو کوئی مشکل پیش آجائے تو اسے چاہیے کہ اس کو کثرت سے پڑھے اور جب تک مشکل حل نہ ہو اس کا ورد رکھے۔(3) ”یَامُق ±تَدِرُ“ جب ایسی مشکل آجائے کہ اپنے بیگانے سب ساتھ چھوڑ دیں تو اس اسم کو دن رات پڑھتے رہیں۔ اگر ہو سکے تو 21ہزار کی تعداد روزانہ پوری کریں۔ انشاءاللہ اس اسم کی برکت سے مشکل حل ہو جائے گی۔ (عدیلہ نسرین، فتح جنگ)
مقصد کی تکمیل کا سفر
ایک بار ایک شخص اپنے کسی بہت بڑے مقصد کی تکمیل کیلئے کسی نیک بزرگ کے پاس گیا۔ اس درویش نے اس شخص کو پڑھنے کیلئے ایک عمل بتایا۔ اس نے یہ عمل پورا کیا اور دوبارہ اس بزرگ کے پاس گیا اور بتایا کہ پڑھائی اور عمل تو اس نے کر لیا مگر اس کا مقصد پورا نہیں ہوا۔ اس بزرگ نے اسے کوئی اور عمل کرنے کو بتا دیا۔ اس شخص نے اس بار بھی بڑی دل جمعی سے وہ عمل کیا مگر اس کا مقصد اب بھی پورا نہ ہوا۔ اس طرح وہ شخص کئی بار اس بزرگ کے پاس گیا مگر اس کا کام نہیں ہوا۔ وہ شخص بے حد دلبرداشتہ ہوا۔ بزرگ نے اس کو سمجھایا کہ اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ تم جو پڑھائیاں اور عمل کر رہے ہو۔ تمہارا کام انشاءاللہ ضرور ہو گا۔ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ اس بار بھی بزرگ نے اسے کوئی عمل بتایا۔ اس شخص نے اس بار بھی وہ عمل کیا مگر اس کا کام نہیں ہوا۔
وہ شخص انتہائی مایوس ‘غمگین اور دلبرداشتہ ہو گیا۔ اس قدر کہ اس نے مذہب اسلام چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ اسی کشمکش میں وہ ایک کالا جادو کرنے والے ہندو کے پاس چلا گیا اور اپنا مقصد بیان کیا۔ کالے جادو کرنے والے نے اس سے ایک بہت بڑی رقم وصول کی اور اس سے کچھ عمل کرنے کو کہا۔ اس بار اس نے عمل کیا اور اس شخص کا کام ہو گیا۔ وہ شخص بہت خوش ہوا اور اس نے اس کالاعلم کرنے والے کی شاگردی اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس کی شاگردی اختیار کرنے کیلئے اس نے سب سے پہلے مذہب اسلام چھوڑ کر ہندوانہ مذہب اختیار کیا کیونکہ اس کے استاد کی سب سے پہلی شرط ہی یہ تھی۔ وہ چند دن اپنے استادکی شاگردی میں رہا مگر بہت جلد اس کا دل اس سے اچاٹ ہو گیا۔ اس نے سوچا کہ اس پہنچے ہوئے بزرگ کے پاس جاکر اسے بتلائے کہ اس کے بتائے ہوئے کسی وظیفے سے اس کا کام نہیں ہوا تھا جبکہ ہندو کے عمل سے چند روز بعد ہی اس کی امید بر آئی تھی۔ بہت سارے گلے شکوے لے کر وہ ان بزرگ کے پاس چل دیا اور بزرگ کے سامنے بیٹھ کر اس نے بہت سارے گلے شکوے کیے۔ یہ بھی بتایا کہ وہ مذہب اسلام چھوڑ کر ہندو بن گیا ہے اور ہندو بن جانے کی وجہ بھی بتا دی۔ بزرگ نے تسلی او رسکون سے اس کی ساری کہانی سنی اور اپنے کندھے پر پڑی ہوئی چادر اس شخص کے کندھوں پر ڈال دی۔ اس چادر کا کندھوں پر ڈالنا تھا کہ اسرار ورموز کھلنے لگے اور کشف کی روشنیوں نے اس شخص پر واضح کر دیا کہ وہ جس کام کیلئے عمل اور وظائف کرتا رہا تو اس کام کے ہونے کا اصل وقت وہی تھا جب وہ کام انجام پذیر ہوا۔ پھر اس بزرگ نے اس شخص کو سمجھایا کہ مجھے روحانیت اور کشف کی وجہ سے بہت پہلے سے یہ علم تھا کہ تمہارا کام فلاں وقت پر ہونا ہے میں تمہیں وقت نہیں بتلا سکتا تھا۔ اس لیے کہ مجھے اجازت نہ تھی مگر تم بے صبرے نکلے، اتنے زیادہ کہ تم نے اللہ پر بھروسہ ترک کرکے ایک ہندو پر بھروسہ کیااور اس سے بھی بڑا یہ گناہ کیا کہ تم نے مذہب اسلام ہی چھوڑ دیا۔ اب میں نے صرف تمہیں یہ سبق دینے کیلئے اپنا دوشالہ پہنایا تھا۔ ورنہ مجھے تو یہ اپنا دوشالہ کسی کو پہنانے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ وہ شخص فوراً بزرگ کے قدموں میں گر پڑا۔ زارو قطار روتا رہا‘ منتیں کرتا رہا کہ اللہ پاک سے مجھے ایک بار معافی دلوا دیں۔ بزرگ نے اسے کلمہ پڑھایا اور زندگی بھر توبہ استغفار کرنے کی تلقین کی ۔
پیارے بہن بھائیو! میں نے بھی اور آپ نے بھی غور کیا ہو گا کہ حکیم محمد طارق صاحب کی روحانی محفل میں زیادہ زور استغفار اور وظائف ذکر اور اعمال پرہی ہوتا ہے۔ ہم لوگ جانے انجانے میں شعوری، غیر شعوری طور پر دانستہ، نادانستہ نہ جانے کیا کیا اور کیسے کیسے گناہ اور خطائیں کرتے ہوں گے۔ جن سے وہی دوجہاں کا مالک آگاہ ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم حکیم طارق صاحب کی روحانی محافل میں زیادہ سے زیادہ شریک ہو کر خود کو برائیوں سے محفوظ رکھنے کی کوشش کریں۔ آپ میں سے اگر کوئی حکیم صاحب کے پاس کسی مقصد کیلئے آتا ہے اور حکیم صاحب اسے کوئی وظیفہ پڑھنے کو بتائیں تو یہ ہرگز مت سوچیں کہ بس اس وظیفے کے پڑھتے ہی آپ کا کام ہو جائے بلکہ یہ دعا کریں کہ اے پروردگار! میرے اس کام کا ہونا یا نہ ہونا سب تیری ہی رضا سے ہے۔ تو اس وظیفے کی برکت سے میرے لیے بہتری کے اسباب پیدا کر دے۔ بعض اوقات ہم جس کام کو اپنے لیے اچھا سمجھ رہے ہوتے ہیں،اللہ پاک کی نظر میں اس کا نہ ہونا ہمارے لیے اچھا ہوتا ہے، ہم سب کو بزرگوں کی دعاﺅں اور نظر کرم سے استفادہ حاصل کرنا چاہیے اور اللہ کی رحمت سے بالکل بھی مایوس نہیں ہونا چاہیے کہ اس پر اعتقاد اور اعتماد کرنے والوں کیلئے وہ بہتر راستے کھول دیتا ہے۔ (خورشید اختر، لاہور)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں