وضو کیلئے ندی کے کنارے پہنچ کر جیسے ہی حضرت خواجہ گیسو دراز رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے پانی لینے کے لیے ہاتھ بڑھائے تو انہوں نے دیکھا کہ ندی کے کنارے ایک بچھو دریا سے نکلنے کی کوشش میں الٹے پلٹے کھارہا ہے مگر دریا کا تیز بہاؤ اسے نکلنے نہیں دیتا‘ خواجہ کو خیال آیا کہ یہ بچھو اللہ کی مخلوق ہے‘ مجھے اس کی مدد کرنی چاہیے‘ اس کو باہر نکالنے کیلئے بچھو کو پکڑا‘ جیسے ہی پانی سے اٹھا کر باہر لانے کی بچھو نے ہاتھ میں ڈنک ماردیا‘ شدت درد سے بچھو ہاتھ سے چھوٹ گیا‘ ہاتھ کو دبایا کچھ دم کیا‘ ڈنک نکالنے کی کوشش کی‘ تھوڑی دیر کے بعد نماز کا وقت قریب ہونے کی وجہ سے پھر وضو کا خیال ہوا تو پانی میں ہاتھ ڈالنے کا ارادہ کیا تو اب بچھو کو پھر اسی حالت میں پایا۔ ان کو پھر اس پر ترس آیا اور اس کو نکالنے کیلئے دوبارہ انہوں نے بچھو کو پانی میں پکڑ کر نکالنے کی کوشش کی، ذرا اٹھایا تھا کہ بچھو نے دوبارہ ڈنک مارا‘ دوبارہ ڈنک مارنے سے حد درجہ تکلیف ہوئی، درد کی شدت سے پھر دیر تک ہاتھ کو دباتے رہے اور دم کرتے رہے‘ کچھ دیر کے بعد پھر نماز کا خیال آیا‘ تیسری بار پھر خواجہ نے وضو کا ارادہ کیا اور جیسے ہی دریا میں ہاتھ بڑھایا تو بچھو کو پھر دریا کے باہر نکلنے کی کوشش کرتے ہوئے الٹتے پلٹتے دیکھا، خواجہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو رحم آیا اور تیسری بار پھر ہاتھ سے پکڑ کر اس کو نکالنے لگے وہ ٹھہرا بچھو اس نے پھر تیسری بار ڈنک مار دیا اور بچھو ہاتھ سے پھر پانی میں چھوٹ گیا،سامنے ایک نوجوان کھڑا دیکھ رہا تھا، خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کے پاس آیا، وہ خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کو پہچانتا نہیں تھا‘ بڑی عزت سے خواجہ سےبولا: بڑے میاں! آپ کا دماغ خراب ہے کیا؟ خواجہ بولے: بیٹا کیوں ایسا کہتے ہو؟ وہ نوجوان بولا کہ آپ جانتے ہوں گے یہ بچھو ہے‘ یہ بار بار آپ کے ہاتھ میں ڈنک مار رہا ہے اور آپ بار بار اس کو نکالنے کی کوشش کررہے ہیں‘ خواجہ گیسو دراز رحمۃ اللہ علیہ نے ٹھنڈی سانس بھر کر فرمایا: بیٹا تم اپنے لحاظ سےصحیح کہتے ہو‘ مگر میرا معاملہ یہ ہے کہ مجھے خیال آیا کہ یہ بچھو ہے اس کی سرشت اور فطرت میں اللہ نے ڈنک مارنا رکھا ہے اور میں نبی رحمۃ اللعالمین ﷺ کا غلام اور امتی ہوں، میری سرشت میں اللہ کی مخلوق کی خیرخواہی اور اس کو نفع پہنچانا رکھا ہے تو مجھے خیال آتا رہا کہ جب یہ اپنی بری خوا اور عادت سے باز نہیں آرہا ہے تو میں اپنی اچھی عادت اور خو کو کس طرح چھوڑ دوں۔بلاشبہ انسان کی اچھی خوا اور فطرت کا اصل امتحان، انفعال اور بدلہ کے جذبہ میں ہوتا ہے، جتنے لوگ ظلم اور زیادتی کرتے ہیں ان میں اکثر وہ ہوتے ہیں ج برائی اور ظلم کی اپنی طرف سے پہل نہیں کرتے بلکہ انفعال اور بدلہ میں آگے بڑھتے ہیں، اس لیے اسلام میں صبر کی اس قدر اہمیت ہے کہ قرآن مجید میں ایمان کے بعد سب سے زیادہ صبر کا ذکر کیا گیا ہے اور صبر کے اصل معنی غم کو برداشت کرنے کے نہیں بلکہ امید کے خلاف‘ چاہت کے خلاف‘ انفعال کی کیفیت میں اپنی خیر پر استقامت اور منفعل نہ ہونے کے ہیں، اسلام دین فطرت ہے، اس نے فطری تقاضا کے خلاف کہ کوئی گال پر مارے تو دوسرا گال اس کے سامنے کرنے کا حکم نہیں دیا ہے‘ بلکہ انسان کی فطرت کے مطابق برائی کا بدلہ برابر درجہ میں لینے کا حق اسے دیا ہے لیکن معاف کردینے کی بڑے دل کش انداز میں ترغیب دی ہے۔ ’’برائی کا بدلہ بالکل برابر برائی اور سزا سے دے سکتے ہیں‘ مگر جو معاف کردے اور اصلاح کرلے پس اللہ کے ذمہ ہے اس کا اپنے شایان شان بدلہ دینا، بے شک وہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ ‘‘ (الشوریٰ‘ 40)
اور دیکھو انسان کیلئے یہ بہت مشکل ہے کہ کسی نے آپ کو چاٹا مارا تو آپ اس کے برابر ہی اس کو چاٹا ماریں، ابھی تک بدلہ نہیں لیا تھا تو آپ مظلوم، اور فریق مخالف ظالم تھا‘ اب اگر آپ نے بدلہ میں چاٹا مارا تو یقیناً آپ اس سے زور سے ماریں گے تو آپ ظالم اور فریق مخالف مظلوم ہوجائے گا اس لیے فرمایا: ’’آپ کا رب اللہ وحدہ لاشریک ظالموں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔ حضرت لقمان کی وصیت کے واسطہ سے قرآن مجید میں ہے: واصبر علی ما اصابک، ان ذالک من عزم المور (لقمان17)۔ نبی رحمۃ اللعالمین ﷺ اپنے پورے اسوہ حسنہ میں برائی کرنے والوں کے ساتھ آخری درجہ کے انفعال میں بھی بھلائی کرنا سکھایا ہے اور آپ نے صحابہ کرام کے واسطہ سے امت کو اس کی ترغیب دی ہے‘ آپ نے وصیت فرمائی: ’’جو تم سے قطع تعلق کرے اس سے تعلق جوڑو‘ اور جو تم سے ظلم کرے اسے معاف کرو‘ اور جو تم کو محروم کرے اسے عطا کرو‘ اور جو تمہارے
ساتھ برائی کرے اس کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ سچی بات یہ ہے کہ کسی مومن کے ایمانی ظرف اور اس کی انسانیت کا اصل امتحان دوسروں کی طرف سے زیادتی، ظلم، بے وفائی اور حق تلفی کے بعد اس کی خیرخواہی، اخلاق اور اعلیٰ ظرفی پر استقامت سے ہی ہوتا ہے، کاش ہم اس امتحان میں کامیاب ہونے کی کوشش کریں!!!
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں