ایک لفظ پڑھا اور ابر رحمت چھاگئی:قارئین! آپ کو یاد ہوگا کہ بڑھئی جنتی روح کے ساتھ میں نے اپنی ملاقاتوں کے تذکرے میں ایک واقعہ کا ذکر کیا کہ پورے قبرستان میں ہلچل مچی‘ انوارات کی بارش ہوئی‘ برکات اور خیریں ابر رحمت کی طرح برس پڑیں‘ میرے سوال کرنے پر بڑھئی روح نے بتایا کہ دراصل کسی زندہ نے ان مُردوں کی روح کو ایصال ثواب پہنچانے کیلئے اللھم ارحم امت محمد ﷺ ایک بار کہا ہے‘ یہ اس ایک بار کہنے کی برکات کمالات اور ابر رحمت ہے۔ میں بہت حیران ہوا اور سوچتا رہا۔ تھوڑے دن پہلے‘ میرے پاس جنات بہت زیادہ بیٹھے تھے ہماری کسی علمی موضوع پر گفتگو ہورہی تھی‘ گُڑ سے پکے چاول اور دودھ ہمارے سامنے پڑا تھا‘ ہم نے گُڑ سے پکے چاول اور دودھ استعمال کیا‘ باتوں ہی باتوں میں مجھے اس لفظ کا خیال آیا کہ میں ان پرانے تجربہ کار اور صدیوں بڑی عمر کے جنات سے پوچھوں کہ کیا انہیں کبھی اس لفظ کا تجربہ اور مشاہدہ ملا؟ دعا کے کمالات اور میری حیرت:میں نے ان کے سامنے یہ لفظ پڑھا میری حیرت کی انتہا نہ رہی ان میں سے ہرجن اس لفظ کے فائدے جانتا تھا اور اس حرف کے کمالات جانتا تھا۔ پرانے تجربہ کار جن کا واقعہ: ایک پرانے تجربہ کار جن نے اپنا واقعہ سنایا‘ کہنے لگے یہ اس دور کی بات ہے جب بہادر شاہ ظفر کی حکومت تھی اور برصغیر میں آخری مغل بادشاہ کا تاج اور جھنڈا لہراتا تھا‘ شہنشاہ ظفر کے چچا کی بیوی فوت ہوگئی‘ وہ ایک نیک خاتون تھیں‘ بڑھاپے میں بہت زیادہ علاج معالجہ کیا آخر وہ فوت ہوگئیں‘ لیکن عجب واقعہ یہ ہوا کہ ان کو جب دفن کرنے لگے تو اس کی تدفین میں تمام راجے‘ مہاراجے بھی شامل ہوئے اور خود شہنشاہ ظفر بھی شامل ہوا‘ بہت اچھی قبر بنائی۔ قبر میں سرنگ نما کھڑکی: تدفین کرنے کے بعد جب فارغ ہوئے تو ایک دم قبر اندر گرگئی‘ بہت حیرت ہوئی‘ ایک شور اٹھا‘ شاہی گورکنوں نے فوراً قبر سے مٹی ہٹائی‘ میت کو نکالا‘ قبر کو صاف کیا‘ لیکن ایک بات دیکھ کر حیران ہوگئے کہ قبر کے دائیں طرف ایک کھڑکی تھی جیسے مٹی کی تازہ کھڑکی ابھی کسی نے بنائی ہے‘ اسے کھڑکی کہیں یا سرنگ کہیں‘ بادشاہ نے پوچھا یہ سرنگ کس نے بنائی ہے؟ گورکنوں نے کہا ہم نے تو نہیں بنائی تو سب کہنے لگے جس وقت دفن کیا اس وقت توسرنگ نہیں تھی اب سرنگ کیسے آگئی؟ متفقہ فیصلہ ہوا کہ گیلی مٹی سے سرنگ کو بند کردیا جائے قبر کو ازسر نو پھر بنایا گیا زیادہ وقت نہ لگا تجربہ کار اور تیزرفتار گورکنوں نے اس کو بند کیا‘ قبر کو ازسر نو پھر بنایا اور تدفین کرکے ابھی چند قدم ہی واپسی کی تھی ایک اونچی آواز سے قبر پھر گرگئی‘ اب تشویش بڑھ گئی فوراً درویشوں فقیروں بزرگوں اور وقت کے علماء کو بلایا گیا اور یہ سارا حال ان کے سامنے رکھا گیا کہ اس طرح ہم نے قبر بنائی اور قبر پھر گرگئی دوران گفتگو انہیں اس سرنگ کا حال نہ بتایا‘ ان بڑوں میں موجود ایک درویش نے سوال کیا: کیا دائیں بائیں آپ نے کوئی سوراخ یا کوئی غار تو نہیں دیکھی؟ تو تمام فوراً پکار اٹھے جب پہلی دفعہ قبر گری تھی تو دائیںجانب ایک سرنگ اور کھڑکی نما غار نظر آئی۔ تو وہ بزرگ فرمانے لگے تو آپ نے ہمیں واقعہ پورا کیوں نہیں بتایا؟ یہ میت یہاں دفن ہونے کی نہیں ہے۔ یہ بات کہتے ہوئے اس بزرگ اور پرانے جن کی باتیں ڈبڈبا گئیں اور اس کی گردن جھک گئی‘ حتیٰ کہ اس کے آنسو زمین پر گرنے لگے‘ وہ ہچکیوں میں ڈوب گیا ہم حیران کہ یہ کس بات پر رو رہا ہے؟ اور اسے کون سی چیز ایسی ہے جس نے اس کے دل کو موم کردیا ہے‘ تھوڑی دیر کے رونے کے بعد آخرکار وہ اپنے حواس کو بحال کرکے پھر سے گفتگو شروع کرنے لگا لیکن ابھی گفتگو شروع کی ہی نہیں تھی کہ دوران گفتگو ایک اور جن نے اسے متوجہ کیا کہ آپ کس بات پر روئے؟ کہنے لگا کہ اگر آپ میری پوری بات سن لیں تو میرے اس سوال کا جواب بھی اس میں مل جائے گا اب میں اور تمام جنات اس بات پر اور زیادہ متوجہ ہوئے ہم نے اپنے آپ کو سمیٹ لیا اور اس کی گفتگو پر ہماتن گوش ہوگئے‘ وہ پرانا تجربہ کار جن کہنے لگا: جس درویش نے اس سرنگ اور کھڑکی کا انکشاف کیا تھا وہ ایک بات پر بار بار اصرار کررہا تھا کہ یہ میت یہاں دفن ہونے کی نہیں ہے اس کو فوراً جنت البقیع مدینہ منورہ پہنچایا جائے۔ تمام حاضرین اس کی دونوں باتوں کو حیرت سےسن رہے تھے پہلی بات حیرت کی یہی تھی کہ صرف اس درویش نے انکشاف کیا تھا کہ قبر میں ضرور کوئی سرنگ ہونی چاہیے اور اس درویش کا انکشاف درست نکلا۔ لاش کو جنت البقیع کیسے پہنچایا جائے؟: لیکن دوسری بات حیرت کی یہ ہے کہ اس خاتون کو جنت البقیع میں کیسے پہنچایا جاسکتا ہے جبکہ اس دور میں مہینوں کا سفر تھا۔ اسی دوران میں گورکنوں نے قبر کو صاف کرکے میت کو پھر سے باہر نکال کرشاہی چارپائی پر رکھ دیا تھا۔ نامعلوم بادشاہ ظفر اور ان کے چچا کو کیا سوجھی کہنے لگے: کہ میت کے اردگرد چادریں تانی جائیں ہم اس کا چہرہ کھول کر دیکھیں گے‘ فوراً شاہی چادریں تانی گئیں‘ انہوں نے اس کا چہرہ کھول کر دیکھا چہرہ دیکھنے میں اس کی اولاد اور قریبی رشتہ دار بھی شامل تھیں جب چہرہ سے کپڑا ہٹایا اس میت کے چہرے پر مسکراہٹ تھی‘ حالانکہ دفن کرتے وقت ہونٹ بھی ملے ہوئے تھے‘ آنکھیں بھی ملی ہوئی تھیں مگر اب آنکھیں نیم کھلی ہوئی تھیں اور واضح محسوس ہورہا تھا کہ یہ میت اپنی آنکھوں سے کچھ دیکھ رہی ہے اور مسکراہٹ سے واضح محسوس ہورہا ہے کہ اس میت نے دفن ہوتے ہی کچھ دیکھا ہے اور اس کی مسکراہٹ بتارہی ہے کہ مجھے عام میت نہ سمجھا جائے بلکہ میرے ساتھ رب کا خصوصی معاملہ ہے اور میرے ساتھ رب کا خصوصی نظام ہے۔ آخر میت کا کفن لپیٹ دیا گیا‘ اور اب ہرطرف مشورے ہورہے ہیں کہ کیا کیا جائے؟ آخر مشورہ یہ ہوا کہ کچی اینٹوں سے میت کی قبر محرابی بنائی جائے اور اس میں دفن کیا جائے اور پھر کھڑے ہوکر اللہ سے دعا مانگی جائے کہ یااللہ! تو اپنی اس نیک بندی کیلئے یہیں اپنی رحمت کانظام بنا۔ اس کے بعد قبر نہ گری: آخر اسے دفن کیا اور پھر علماء‘ مشائخ‘ درویش اور فقراء نے بہت دیر تک کھڑے ہوکر نہایت گڑگڑا کر اللہ سے دعا مانگی‘ اس کے بعد قبر نہ گری‘ ایک تشویش‘ ایک بات اور ایک تحقیق سب کے دل میں تھی جو کہ زبان پر نہیں لارہے تھے آخر اس خاتون کا کون سا ایسا عمل ہے جس کی وجہ سے اس کے ساتھ یہ معاملہ ہوا اور وہ غار کیا تھی؟ اور وہ کھڑکی کیا تھی؟ کشف القبور میں باکمال مشائخ: آخر کار بادشاہ نے تمام مشائخ اور بزرگوں سے یہ سوال خود ہی کیا؟ یہ بات کہتے ہوئے وہ بزرگ جن خاموش ہوگیا اور تھوڑی دیر سر جھکایا‘ پھر خلاؤں میں گھورنے لگا جیسے کہ وہ سوچ رہا ہے کہ وہ بات ان سب کو بتاؤں یا نہ بتاؤں اور وہ تحقیق ان سب کے سامنے کھولوں یا نہ کھولوں‘ اس کے چہرے کی کشمکش‘ اس کی سانسوں کا تانا بانا‘ اس کے جذبات‘ کیفیات‘ خیالات یہ واضح بتارہے تھے‘ آخر تھوڑی ہی دیر میں خود بولا اور کہا کہ ان میں بہت سے ایسے مشائخ تھے جو کشف القبور میں باکمال تھے اور بہت سے درویش اور علماء ایسے تھے جو میت سے خواب کے ذریعے حال اور احوال پوچھ لیتے تھے‘ بادشاہ نے سب کو کہا کہ ہر شخص کشف القبور کے ذریعے یا خواب کے ذریعے اس خاتون سے حال پوچھے اور ہر شخص علیحدہ مجھے لکھ کر دے ایک کا دوسرے کو پتہ نہ چلے اور اس سب رزلٹ لانے کیلئے گیارہ دن کا وقت دے دیا۔ آخر اس راز سے پردہ اٹھ ہی گیا: گیارہ دن کے بعد سب اپنی کارگزاری لکھ کر بادشاہ کے پاس لے آئے جب اس کارگزاری کو پڑھا گیا تو ایک ہی بات تھی اور وہ بات یہ تھی کہ ’’میں اللہ کے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تمام امت کیلئے صبح وشام ایک تسبیح اول و آخر تین بار درودشریف اللھم ارحم امت محمدﷺ پڑھتی تھی اور دن میں باقی وقت بھی کھلا پڑھتی رہتی تھی‘‘ اور سب کو خواب میں اس خاتون نے تین واقعات سنائے، غربت اور تنگدستی میں گھرا ایک خاندان: پہلا واقعہ یہ سنایا میں اپنے محل کی بالکونی پر بیٹھی تھی ایک شخص کو دیکھا نہایت غریب‘ پھٹے پرانے کپڑے‘ بیوی اور بچوں کے ساتھ ایک گدھے پر کچھ سامان لادے جارہا تھا‘ نامعلوم میرے دل میں کیا بات آئی‘ میں نے اپنی باندیوں سے کہا اس سارے خاندان کو بلا کر میرے سامنے پیش کرو‘ باندیوں نے آناً فاناً غلاموں کو کہا اور غلاموں نے اس خاندان کو میرے سامنے پیش کیا‘ میں نے انہیں دیکھا کہ وہ پریشان ہیں‘ انہیں تسلی دی کہ آپ کو میں نے صرف باتیں کرنے کیلئے بلایا ہے نہ کہ قید کرنے کیلئے‘ انہیں کھانا پینا دیا پھر میں ان سے باتیں کرنے لگ گئی‘ مرد کو پردہ میں بٹھایا خاتون اور بچے میرے سامنے بیٹھ گئے‘ وہ کہنے لگے کہ ہم دہلی میں آئے ہیں‘ دراصل ہم دہلی سے ساڑھے تین سو میل دور ایک گاؤں کے رہنے والے ہیں‘ وہ خاتون کہنے لگی کہ میرے میاں کے دادا پڑدادا بہت مالدار تھے لیکن تقدیر کا نظام چلا اور حالات کم سے کمتر اور بد سے بدتر ہوتے چلے گئے‘ غربت اور تنگدستی نے ہمیں گھیر لیا فقر و فاقہ نے ہمیں لپیٹ لیا‘ پہلے ایک وقت کی ہوتی تھی پھر ایک وقت کی بھی نہ رہی‘ بچے بھوک سے بلکتے تھے‘ ہمیں اپنی بھوک کا احساس تو تھا ہی لیکن بچوں کی بھوک برداشت نہیں ہوتی تھی اور یہ بھوک اور تنگدستی بڑھتی چلی گئی اور حتیٰ کہ ہم اپنا سب کچھ بیچنے پر مجبور ہوگئے‘ گھر میں تمام برتن حتیٰ کہ چارپائیاں تک بیچ دیں‘ ابھی کچھ نہیں رہا سوائے اس گدھے کے‘ اس گدھے کو لے کر ہم نے دہلی کا رخ کیا کہ دہلی میں جاکر شہر کے کسی آخری کونے میں کسی کھنڈر میں پناہ لیں گے یا جھونپڑی بنا کر محنت مزدوری کریں گے کیونکہ ہم حیادار اور خاندانی لوگ ہیں‘ ہم سوال نہیں کرسکتے ہم بھیک نہیں مانگ سکتے‘ ان کی آنکھیں تر تھیں‘ بچوں کی ہچکیاں تھیں اور وہ اپنی داستان سنارہے تھے۔ وہ خاتون جو بہادر شاہ ظفر کی
چچی تھیں عالم ارواح میں اپنی داستان سناتے ہوئے مزید کہنے لگیں جب میں نے ان سے بات بڑھائی اور ان کی داستان سنی تو پتہ چلا کہ ان کے بڑوں میں پانچ درویش تھے جن کی اب اکٹھی پانچ قبریں ہیں اور یہ پانچ درویش وہ تھے جن کے پاس اگر بادشاہ اپنا لشکر اور طاقتور فوج لے کر بھی آجاتا تو ان کی دعاؤں کا سامنا نہیں کرسکتا تھا‘ وہ جن کو دعائیں دیتے تھے سوفیصد لگتی تھیں اور جن کو بددعائیں دیتے تھے ان کو بددعائیں بھی سوفیصد لگتی تھیں‘ وہ درویش وہ تھے جنہوں نے تمام زندگی میں رزق حلال اور سچ کے ساتھ اللہ کی عبادت کی اور اللہ کے تعلق میں بہت آگے نکل گئے جب یہ بات سن لی تو حیرت ہوئی۔ ہم نے اپنے بڑوں سے ایک لفظ سنا تھا: میں نے حکم دیا کہ اس خاندان کا وظیفہ لگادیا جائے اور اس کو گھر بنا کے دیا جائے‘ جب وہ خاندان جانے لگا تو کہنے لگا: ہم نے اپنے بڑوں سے ایک لفظ سنا تھا کہ جو شخص اللھم ارحم امت محمد ﷺ ایک تسبیح صبح و شام پڑھے اور سارا دن کھلا پڑھے تو دنیا میں اللہ تعالیٰ اس کو ہر مشکل میں کسی نہ کسی شکل میں اسباب ضرور پیدا کرے گا چاہے مشکلات کے پہاڑ ہوں‘ مصائب کے سمندر ہوں اوردکھوں کی آندھیاں ہوں لیکن اس کے پڑھنے والے کو کہیں نہ کہیں سے کوئی راستہ ضرور ملے گا۔ ہاں یہ وظیفہ ہمارا خاندانی طور پر چلا آرہا ہے‘ آج کے دن بھی ہم اس کو پڑھ رہے‘ ہر دفعہ پرامید تھے کہ کوئی نہ کوئی راستہ اللہ نکالے گا‘ دیکھیں اس لفظ کی برکت کہ اسی وقت میں آپ کو بالکونی پر بٹھایا اور اسی وقت پر ہم پردیسیوں کا خستہ حال خاندان آپ کے سامنے سے گزرا اور اللہ نے آپ کے دل میں بات ڈالی اور ہم آج سے خوشحال ہوگئے ہیں کیونکہ ملکہ کی نظر ہم پر پڑگئی ہے۔ ملکہ پہنچی دہلی کے بازار میں: اس خاتون نے دوسرا واقعہ اس سے بھی زیادہ انوکھا سنایا: کہا کہ میں ایک بار بھیس بدل کر دہلی کے بازار میں اپنی ایک باندی کے ساتھ کچھ سامان لے رہی تھی‘ برتنوں کی ایک دکان پر میرا جانا ہوا‘ وہاں میں نے عجیب منظر دیکھا ایک مرد کو رسیوں سے باندھ کر ایک ستون کے ساتھ بٹھایا ہوا ہے‘عورت کے پاؤں میں رسی ہے اور ان کے ساتھ تین بچے ہیں اور ان سب کے ہاتھوں میں رسی ہے اور وہ سب رو رہے ہیں اور ان پر الزام ہے کہ انہوں نے اس دکاندار سے سامان لیا تھا اور اکثر لے جاتے تھے اور گاؤں دیہات میں لے جاکر برتن بیچتے تھے‘ پہلے انہوں نے اپنا اعتماد اور اعتبار بڑھایا پھر قرض لینا شروع کیا اور بہت سا قرض لے کر آخر کئی سال تک یہ گم ہوگئے یعنی دکاندار کو اپنا چہرہ نہ دکھایا اب جب یہ اس دکان کے سامنے سے گزرے انہوں نے اپنے چہرے چھپائے ہوئے تھے‘ اچانک دکاندار کے پرانے ملازم کی نظر ان پرپڑی اس نے انہیں بلایا تو
انہوں نے بھاگنے کی کوشش کی سب نے مل کر انہیں پکڑلیا اب انہیں باندھا ہوا ہے کہ انہوں نے بہت زیادہ رقم لے لی ہے جو کہ ادھار ان کے پاس موجود ہے‘ اب کوئی ان کا ضامن نہیں جو کہ ان کا ذمہ لے اور دکاندار کی رقم چکائے۔ سردار کے تین بچوں کی شادی اور ادھار کے برتن: وہ شاہی خاتون کی روح کہنے لگی: کہ جب میں وہاں پہنچی میں نے یہ منظر دیکھا اور میں نے ان سے تمام واقعہ پوچھا تو میں ان کے ساتھ بیٹھ گئی کیونکہ میں نے ایک سادہ اور غریب خاتون کا روپ دھارا ہوا تھا میں زمین پر ان کے ساتھ بیٹھ گئی اور ان کا حال احوال لینے لگی کہ کیا ہوا؟ وہ کہنے لگے: ہماراکاروبار بالکل ٹھیک تھا اور ہم ان سے درست لین دین کررہے تھے‘ اچانک ایسا ہوا ایک سردار کے ہاںشادی تھی‘ اس نے اپنی ایک بیٹی اور تین بیٹوں کی اکٹھی شادی کرنی تھی اس نے ہم سے برتنوں کی بہت بڑی تعداد خریدی‘ ہمیں اس میں چونکہ بہت نفع نظر آیا‘ ہم نے وہ ساری ان کی ضرورت پوری کردی‘ ان کا وعدہ تھا اور لوگوں نے بھی کہا کہ یہ سردار بہت سچا ہے‘ کسی کا مال اور رقم نہیں کھاتا اور اپنا وعدہ پورا کرتا ہے اور سردار نے بھی وعدہ کیا کہ شادی کے بعد مجھے رقم گفٹ کی شکل میں ملے گی میں وہ ساری اکٹھی کرکے اتنی بڑی رقم برتنوں میں جہیز کی شکل میں بھی اور مہمانوں کے کھانے کی شکل میں لیے تھے وہ تمام رقم میں آپ کو واپس کردوں گا۔ سردار نے دیا غریب کو دھوکہ:شادی میں ہم بھی شامل تھے‘ شادی کے تیسرے دن ہم اس کےپاس گئے کہ ہماری رقم ہمیں واپس دی جائے (جاری ہے)
اس نے ایک کاغذ دکھایا کہ جس پر تحریر انگوٹھے اور گواہ موجود تھے پانچ گواہ تھے جو اس کے اپنے آدمی تھے اور ہماری تحریر میں ہمارے انگوٹھے موجود تھے‘ جوہم نے لگائے نہیں تھے اور یہ لکھا تھا تم رقم ہم سے لے جاچکے ہو اور بلکہ اس نے ہمیں ڈانٹا اور بے عزت کیا کہ ایک دفعہ رقم لےکر دوسری دفعہ لینے آئے ہو ہمارا رونا چیخنا چلانا ‘اس کا کوئی اثر نہ ہوا بلکہ اس نے دھمکی دی اگر تم نے زیادہ مطالبہ کیا تو کوتوال شہر کو بلا کر تمہیں اتنی خطرناک جیل میں ڈلواؤں گا جہاں تم شاید زندگی میں کبھی واپس نہ نکل سکو۔ ہماری کسی نے نہ سنی اور ہم روتے چیختے چلاتے واپس آگئے ہمارے پاس جو سرمایہ تھا ہم لگا چکے تھے اس دکاندار کا جو سرمایہ تھا وہ ہم سارا اس کو دے چکے تھے آئندہ کاروبار کرنے کیلئے سرمایہ نہیں اس کا لوٹانے اور اس کو منہ دکھانے کیلئے کوئی راستہ نہیں تھا‘ آخر کار میں نے مزدوری کی اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے لگا میں نے بہت کوشش کی لیکن اس سردار کے خلاف کسی نے نہ سنی وہ سردار طاقتور تھا اور اس نے اپنے طاقتور بدمعاش رکھے ہوئے تھے اس کا انکشاف مجھے بعد میں ہوا اور وہ جو تسلیاں دینے والے اور مجھے کہنے والے کہ یہ سردار بہت ایماندار ہے‘ اس نے کبھی کسی کا مال نہیں کھایا دراصل یہ اسی ڈاکو کے ساتھی تھے‘ میں نے جب ان کی درد بڑی کہانی سنی تو مجھے خیال ہوا کہ پہلے میں ان کی داستان کی سچائی کو جانچ لوں میں نے فوراً لونڈی کو بھیجا کہ فلاں کوتوال شہر اس اس پتے کے سردار کے بارے میں تحقیق کرکے فوراً مجھے اطلاع دینے کا کہو‘ میں بازار میں اپنے کام میں گھومتی رہی‘ کچھ ہی دیر کے بعد وہ لونڈی آئی تو اس نے اس سردار کے بارے میں بتایا کہ واقعی وہ سردار دو نمبر ہے اور لوگوں کے پیسے کھاجاتا ہے اور مزدور کی مزدوری مارجاتا ہے اور ظالم ہے اور جابر ہے میں فوراً ساری حقیقت تک پہنچ گئی میں واپس اس دکان پر پہنچی اور اس دکاندار کو کہا کہ میں اس کا ذمہ لیتی ہوں اور اس کے پیسے میں خود ادا کروں گی اس نے کہا آپ کو ہیں؟ میں نے کہا اس کو چھوڑو میں نے لونڈی کو بھیجا اور تمام پیسے میں نے ان کے ادا کردئیے انہیں چھڑوا دیا اور مزید اشرفیاں دیں کہ وہ اپنا کاروبار کریں۔ میں جب انہیں رخصت کرنے لگی تو اس کی بیوی مجھے بار بار گلے مل رہی تھی اور چوم رہی تھی اور چومتے چومتے اس کے ہونٹ ہل رہے ہیں۔ (جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں