جب انسان سن بلوغ کو پہنچتا ہے تو عنفوان شبا ب، امنگ اور جنسی تعلق پیدا کرنے کے لیے حظ نفس کا بے پنا ہ تقا ضا اٹھنے لگتا ہے اور وہ اپنے اعضاءو جوا رح کو صحیح اور غلط طریقہ پر جو ش اور تلاطم کی حالت میں استعمال کرنے لگتا ہے ۔ اسے اندازہ بھی نہیں ہو تا کہ وہ کیا کر رہا ہے ؟ اور کیو ں کر رہا ہے؟ اس کی زندگی کے ایسے سنگین اور حساس موڑ پر اگر اسے صحیح رہنمائی نہ ملے تو وہ اپنی جوانی اور بقیہ عمر کو تبا ہ کن خراب راستے پر ڈال دیتا ہے ۔ اپنے جنسی جنو ن کے آگے پھر وہ کسی کی نہیں سنتا ۔ حالانکہ جس طر ح دنیا کے اور تمام کاروبار میں ایک انسان کا دوسرے انسان سے اختلاط ملا پ ضروری ہوتا ہے۔ اسی طر ح جنسی میدان میں بھی اختلا ط ضروری ہے لیکن اس جنسی میدانمیں عورت اور مر د کا اختلا ط معا شرہ کی ہم آہنگی کو ملحوظ رکھ کر قانونی حدود میں نکا ح کے ذریعہ ہی عا فیت کی ضمانت دے سکتا ہے ۔ بے نکا ح اختلا ط یا غیر ضروری طور پر عورت کے بغیر جنسی آسو دگی معا شرہ اور تمام انسانیت سے بغاوت ہے ۔ نکا ح کے ذریعہ اختلا ط جنسی، ایک پختہ کا ر اور ٹھوس خو ش حال زندگی کا اسی وقت ذریعہ ہو سکتا ہے جب کہ جانبین یعنی میا ں بیوی میں ہمدردی ، محبت ، باہمی تعاون کی خوب فراوانی ہو ۔ محبت کی فراوانی اسی وقت ممکن ہے جبکہ ہر شعبہ زندگی میں دونو ں ایک دوسرے کے حقوق ادا کر تے رہیں، اسی لئے کہا گیا ہے کہ نکا ح ایک معاشرتی مقدس معاہدہ ہے ۔ تاکہ اسکے ذریعے جا ئز قانونی افزائش نسل ہو سکے اور ہر طرف سے یکسو ہو کر ازدواجی راحت حاصل کر سکے اور لوگو ں کی نسل کا امتیا ز کیا جا سکے ورنہ کوئی اولاد اپنے باپ کو کبھی نہ جان سکے گی، بلکہ ہو سکتا ہے کہ باپ بننے اور باپ کہے جانے کا حوصلہ ہی ختم ہو جا ئے ۔ نہ کسی کی آبرو رہے اورنہ کسی کی جان کے تحفظ کی ضمانت ۔
آقائے نامدار سر کا ر ِ دو عالم فخرِ مو جو دات نو ر مجسم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرا می اسی لیے ہے کہ” نکا ح میر ی سنت ہے “
بہر حال جنسی تقاضو ں میں نا پختگی اور بے را ہ روی کی وجہ سے جنسی آزادی اور انارکی سی جنسی خرا بیا ں پیدا ہو گئی ہیں۔ لوگ نکاح کی افا دیت پر شک کرنے لگے ہیں ۔ خانگی زندگی کو وبال جان سمجھنے لگے ہیں اور جنسی تعلیم پر زور دیا جا رہا ہے۔ حالانکہ ہما رے اسلامی اور مہذب معاشرہ میں جہا ں قانو ن کی بالا دستی ہو، جہا ں اللہ پاک کے احکا م کا احترام ہو، جہا ں جنسی جرائم کی سز ا کوڑے اورسنگ ساری ہو ۔ وہاں جنسی تعلیم و تر بیت مغر بی بے دین سر پھرو ں کی الٹی منطق ہے۔ چور کو چوری کرتے ہوئے اور سزا دیتے ہوئے اس لئے ٹی وی اور اخبارات میں دکھا یا جا تاہے تا کہ لوگ عبرت پکڑیں ۔ لیکن بچگانہ ذہنیت کے لوگ جب چو ر کو دیکھتے ہیں تو وہ سب محض چوری کی مہارت کو اختیا ر کر تے ہیں۔ ان کی مشق ان کو زیا دہ مرغو ب ہو تی ہے ۔ بہر حال یہ منا ظرہ کرنے کی جگہ نہیں ۔ یہا ں تو صر ف تجربات او ر حقائق پیش کرنا مقصود ہیں ۔ اعداد و شمار اور حقائق کے پیش نظر محض دلائل اور لفظی تکرار کرنے سے کوئی رہبری یا معا شرہ کی تعمیر اور اصلاح نہیں ہو سکتی ۔ اس بحث اور تمحیص سے آج تک کوئی خا طر خوا ہ فائدہ تو ہوا نہیں ۔ ہا ں تجربہ شاہد ہے کہ جنسی غلط کاریوں کا سبب بری صحبت اور گندے خیالات کے لو گو ں سے اختلاط ہو تاہے اور انسان کے اندر خو ف کا جذبہ غالب آجا تا ہے۔ جو بڑھتے بڑھتے جنون اور پا گل پنے کا درجہ اختیار کر لیتا ہے۔ یا پھر یہی جنسی غلط کا ری ان کو بالکل آزاد بنا دیتی ہے اور اس قدر آوارہ مزاج کر دیتی ہے کہ درندو ں سے بھی زیا دہ غیر مہذب ہو جا تاہے بلکہ اکثر یہ بے را ہ روی ، خود کشی کرنے پر آما دہ کر دیتی ہے ۔ پہلے طبقہ کے لوگ جنسی اختلا ط سے گھبرانے لگتے ہیں۔ ان پر ہسٹریا کا دو رہ پڑنے لگتا ہے اور دوسرے گر وہ کے لو گو ں کو جنسی اختلا ط کی کثر ت کی وجہ سے عزت و نا موس اور تن بدن تک کا ہو ش نہیں رہتا۔ شریعت نے ہر قسم کے جنسی بحران کا سد باب کر دیا ہے ۔ نو جوانو ں کے خیا لا ت پا ک اور امنگیں پسندیدہ ہو جا تی ہیں اور عمر رسیدہ لو گو ں کے لیے بھی جنسی آسودگی کی حدود مقرر کر دی ہے ۔ اسلامی معا شرہ نہ کسی کو جنسی تقاضو ں سے بیزار کر تا ہے اور نہ ہی نکا ح سے قبل کسی غلط کا ری کی اجازت دیتاہے ۔ کوئی تصور ہی نہیں کر سکتا کہ بغیر نکا ح کے کوئی ما ں یا با پ بن جا ئے ۔ مغر بی معاشرے میں بلکہ غیر اسلامی معا شرہ میں تو لو گ ما ں باپ پہلے بنتے دیکھے جا سکتے ہیں اور بعد میں نکا ح ہو تا ہے اور اس کو کوئی گنا ہ تو در کنا ر کوئی عیب بھی نہیں سمجھا جا تا ۔ بلکہ ہم جنسی بھی قانوناً جائز قرار دے دی گئی ہے ۔ بہر حال ہم یہا ں پختہ کا ری پر غور کر رہے ہیں ۔
معاندانہ اور انتقامی جذبات سے اجتناب
پختہ کا ری اور سنجیدگی صر ف اسی وقت پید اہو سکتی ہے جب کہ انسان اپنی زندگی کی سطح کو معاندانہ شدت اور انتقامی جذبات سے بلند تر مقام پر پہنچا دے ۔ ان جذبات کو مثلا غصہ ، نفر ت ، ظلم و ستم اور جھگڑا فساد کے نام سے کو ن واقف نہیں ۔ اکثر لوگ ان جذبات ہی کو اپنی طا قت کا سر چشمہ سمجھتے ہیں حالانکہ یہ طاقت نہیںبلکہ یہ تو بچگا نہ ذہنیت، سخت اور سنگین قسم کی نا تجربہ کار ی ، نا پختگی ، احساس ،خوف ، احساس کمتری اور مایو سی کی کھلی ہوئی علا مت ہو تی ہے ۔ بچو ں کی بھی تو یہی حرکتیں اور ذہنیت ہو تی ہے ۔ہر وقت لڑائی جھگڑا۔ ذرا کمزور پڑ گیا تو رونے، چلانے اور واویلا مچانے لگ گیا ۔ دوسروں کے زیرپرورش اور سہا رے پر چلنے والا ہو تا ہے ۔ اب اس قسم کی ذہنیت اور افتاد طبیعت رکھنے والے انسان خوا ہ کتنے ہی بوڑھے اور عمر رسیدہ ہو جائیں ۔ ہمیشہ بچو ں ہی کی سی حرکت کر تے رہتے ہیں ۔ ان سے ان کو کبھی مفر نہیں خوا ہ وہ کتنی ہی بڑی سلطنت یا مملکت کے سر براہ ہو جائیں ۔ خو اہ وہ کتنے ہی صاحب اقتدار ہو جائیں ۔ ظالم کبھی شریف جذبات والا ہمدرد انسان نہیں ہو سکتا ۔ وہ اپنے کو لا کھ طا قت ور سمجھ لے لیکن وہ ناکام ہی کہلائے گا اور دنیا اسے برے نام سے یا د کر تی رہے گی ۔
وہم اور حقیقت میں امتیا ز
پختہ کا ری اور تجربہ انسان کو حقیقت اوروہم کے درمیا ن امتیا ز پیدا کر نا سکھا تا ہے ۔ ایک حقیقت پسند انسان خیالی تصورات کے قلعے نہیں بنا یا کر تا۔ یہ تو ایک بچے کی خاصیت ہو تی ہے کہ وہ ہر خیا لی چیز کو حقیقت مان لیتا ہے۔ چونکہ اسے اچھے اور برے اور نیک و بد کی کوئی تمیز تو ہو تی نہیں اس لیے اس کا فعل قابل سزا نہیں ہو سکتا ۔ لیکن وہی بچہ بالغ ہو کر جب تمیز کو پہنچتا ہے اور پھر بھی وہی بچگانہ حرکت کر تاہے تو نتیجہ ظاہر ہے وہ ایک اندوہ نا ک مصیبت میں اور غلط قسم کے جذبات میں مبتلا ہو جا تاہے اور اپنے مد مقابل دوسروں کی طر ف محض بد گمانی اور غلط فہمی کی وجہ سے طر ح طر ح کی افواہیں گھڑنا شروع کر دیتا ہے ۔ جس کو لو گ حقیقت سمجھنے لگتے ہیں اور اس کی کردار کشی کر کے اس کو ذلیل کرنے کے درپے ہو جاتے ہیں ۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں