صحت ، قدرتِ کاملہ کی بہت بڑی نعمت ہے ۔ اس کے بغیر کوئی کا م سر انجام نہیں دیا جا سکتا اور ہر نعمت کی طر ح یہ بھی ہم سے چھِن سکتی ہے ۔ اس کے بعد اس کی قدر بھی ہو تی ہے ۔ اسی لیے فا رسی کا مقولہ ہے کہ ” قدرِ نعمت بعد از زوال “ یعنی زوال کے بعد ہی نعمت کی قدر ہو تی ہے ۔
آپ اگر صحت مند ہیں تو اس کی قدر کیجئے اور اگر یہ چھن رہی ہے تو اسے روکنے اور بحال رکھنے کی کوشش کیجئے ۔ میری صحت کی کہانی بھی یہی ہے ۔ جب تک صحت اچھی رہی ، میں اطمینان کے ساتھ اس کے تحفظ سے بے خبر رہا ۔ میرا تعلق تدریس سے تھا ، اس لیے جب تک یہ سلسلہ جا ری رہا میں صحت کے معاملے میں محتاط بھی رہا اور جسمانی اعتبا ر سے سرگرم بھی لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد خوا مخواہ یہ یقین کر بیٹھا کہ اب تو آرام کے دن آگئے ہیں۔ بے فکر ی اور آسودگی نے آرام کی راہیں سمجھائیں تو زندگی کانظام ہی بدل کر رہ گیا۔ جب تک جی چاہا بستر میں پڑا اینڈتا، بازار جانے آنے کے لیے پیدل چلنا، ریٹا ئرڈ لائف کی تو ہین لگنے لگا ۔ ذرا ذرا سی چیزو ں کے لیے گاڑی استعمال کرنا اور عمدہ قسم کی غذائیں بھی اطمینان کے ساتھ پیٹ بھر کر کھا تا، یہا ں تک کہ چر بی کے جمتے رہنے سے تو ند نکل آئی اور چلتے پھر تے سانس پھولنے لگی۔ سیڑھیاں چڑھنا دوبھر لگنے لگا ۔ یہ دیکھ کر میں نے اپنے معالج سے رجو ع کرنے کا فیصلہ کیا ۔ آج اندازہ ہو تا ہے کہ یہ ایک درست اور بروقت فیصلہ تھا۔
پتا چلا کہ مجھے ہا ئی بلڈ پریشر ہی نہیں ہے بلکہ قلب کو آکسیجن کم ملنے کی وجہ سے انجا ئنا کا مریض بھی بن گیا ہو ں اور اسی وجہ سے سانس پھولنے کی شکا یت لا حق ہے ۔ معالج کے سوال پر میں نے اپنی غذائی عادات کے علا وہ یہ بھی بتا یا کہ میں ورزش بالکل نہیں کر رہا ہو ں ۔ یہ سب سن کر وہ خاصا متفکر ہو گیا ۔ میں نے گھبرا کر اس سے پو چھا کہ کیا مجھے جو گنگ کر نا چاہیے یا پھر اس سے پہلے وا ک کو اپنا معمول بنا لینا چاہیے ۔ اس نے پہلے واک شروع کرنے کا مشورہ دیا ، لیکن اسی کے ساتھ غذائی احتیا ط کی تا کید کر تے ہوئے سر خ گو شت ، آلو ، میدے سے بنی ہوئی اشیا ء، مکھن اور چر بی سے پرہیز کرنے اور پھل ، سبزیاں، مچھلی زیا دہ کھا نے کا مشورہ دیا ۔ معالج نے الکحل والے مشروبات سے پرہیز ، چائے ، کافی کم اور دن میں کم از کم آٹھ گلا س پا نی پینے کی ہدایت کی ۔
یہ حال جاننے اور اس کا مشورہ گرہ میں با ندھ کر گھر کی طر ف چلا تو میں نے معمول سے آدھا گھنٹہ پہلے اٹھنے کے لیے الارم گھڑی سے کام لینے کا فیصلہ کیا اور روزانہ کی واک کو اپنا معمول بنا لیا ۔ آدھے گھنٹے کی واک کے بعد میں گھر لو ٹ کر بغیر با لائی کا دو دھ دلیے میں شامل کر کے شو ق سے کھا تا ۔ مٹھاس کی طلب پوری کرنے کے لیے پھل کھا تا ۔ کیک ، ڈ بل روٹی ، جام ، مکھن ، بالائی دار کافی پینے کا معمول تر ک کر د یا ۔
پیدل کے سلسلے میں یہ بتا نا ضروری ہے کہ ابتدائی آٹھ دس رو ز تک میں تیز نہیں چل سکتا تھا لیکن اس کے بعدمیں تیز رفتا ری سے ایک دو میل کا چکر لگانے کے قابل ہو گیا اور جب دو بارہ معالج سے رجو ع ہو ا تو وہ میری صحت یا بی کی رفتا ر سے بہت خو ش ہوا ۔ اب اس نے مجھے ایک سائیکل خریدنے کا مشورہ دیا ۔ میں نے ایک سائیکل خر ید لی اور صبح و شام ایک گھنٹہ سائیکل چلانے لگا بلکہ میں تو ہفتے میں ایک بار تیرا کی بھی کر نے لگا ۔ اس پروگرام پر عمل کرکے میں نے وزن میں نما یا ں کمی کی لیکن توا نا ئی اور صحت میں بڑا اضا فہ کرلیا ۔ میرے وزن میں ایک دو نہیں پو رے بائیس پاونڈ کمی ہو گئی ۔ اب مجھے گاڑی کی غلا می سے بھی نجات مل گئی ۔ میں سو چتا ہو ں کہ یہ سب پا پڑ مجھے کیوں بیلنے پڑے ؟ صر ف اس لیے کہ میں ریٹائر منٹ کوخوش وقتی اور خوش خوراکی کا عہد سمجھ بیٹھا ۔ اسی طرح مجھے اس عمر میں با قاعدگی سے چیک اپ کراتے رہنے کی اہمیت کا اندا زہ بھی نہیں تھا ۔
ا ب میں خود کو ایک مختلف انسان محسو س کر تا ہو ں ، میرے دوست بھی جب مجھ سے اس صحت کا را ز پو چھتے ہیں تو میں انہیں بتا تا ہو ں کہ صحت کا را ز ، درست غذا اور ورزش میں پو شیدہ ہے ۔ جو لو گ شروع سے اس کے عا دی ہوتے ہیں وہ آخر ی وقت تک صحت منداور توانا رہتے ہیں ۔ جو اسے نظر اندا ز کر تے ہیں انہیں اسے حاصل کرنے کے لیے محنت کر نی پڑتی ہے ۔چٹخارہ اور چٹور پن چھوڑنا پڑتا ہے ۔ صحت محنت اور کو شش مانگتی ہے ۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں