یہ واقعات جو میں آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں ، اس طرح کے متعدد واقعات ہما رے شہر دنیا پور کے گورنمنٹ پرائمری گر لز سکول میں پیش آچکے ہیں ۔ جن میں سے ایک واقعہ میرے بڑے بھائی امجد علی شہزاد کے ساتھ اس طر ح پیش آیا ۔ آئیے اسی کی زبانی سنتے ہیں۔میں اور میرے دوست ہر اتوار کو صبح کے وقت کرکٹ کھیلنے چھوٹے سکول جا یا کر تے تھے ۔ ایک اتوار ہم حسبِ معمول کرکٹ کھیلنے گئے اور ہم نے کر کٹ کھیلنا شروع کر دی۔ میں اس وقت فیلڈنگ کر رہا تھا کہ اچانک میرے ساتھی کی شار ٹ پر گیند سکول کے کمروں کی پچھلی دیوار کے پیچھے چلی گئی ۔ میں نے گیند کو پکڑنے کے لیے بھا گنا شروع کر دیا ۔ جب میں گیند والی جگہ پرپہنچا تو یہ دیکھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے کہ وہا ں کوئی گیند نہ تھی اور اس جگہ بہت ساری کھوپڑیاں پڑی ہوئی تھیں اور ان کھو پڑیو ں کے اوپر با ل بھی تھے ۔ یہ دیکھ کر مجھ پر دہشت طا ری ہو گئی اور خو ف کے ما رے میری چیخ نکل گئی۔ میری چیخ سن کر میرے سارے ساتھی میری طرف بھا گے آئے ۔ اس وقت تک میں بے ہو ش ہو چکا تھا ۔ یہ سارا خوفنا ک منظر دیکھ کر ان پر بھی دہشت طا ری ہوگئی ۔ وہ سب مجھے چھوڑ کر خوف کے ما رے باہر کی طرف بھا گے اور سکول کے باہر سے چند لو گو ں کو وہاں لے آئے ۔ جب وہ وہا ں پہنچے تو انہو ں نے کیا دیکھا کہ وہا ں کوئی کھوپڑی نہ تھی اور میں وہیں بے ہو ش پڑا ہو اتھا اور گیند میرے پا س پڑی تھی ۔ میرے دوست مجھے فوراً قریبی ڈاکٹر کے پا س لے گئے جہا ں تقریبا ً ایک گھنٹے کے بعدمجھے ہو ش آیا۔ میرے ساتھ میرے والدین بھی وہیں کھڑے تھے ۔ وہ مجھے گھر لے آئے اورمجھے سخت ڈانٹا کہ آج کے بعد تم کہیں نہیں کھیلنے جائو گے۔ آج میں گورنمنٹ ڈگری کا لج شیخوپورہ میں گریجویٹ کا طا لب علم ہو ں لیکن آج بھی جب مجھے یہ وا قعہ یاد آتا ہے تومجھ پر دہشت طاری ہو جا تی ہے ۔
انسان کی زندگی میں بے شمار ایسے وا قعا ت پیش آتے ہیں ، جنہیں انسا ن چاہے بھی تو نہیں بھلا سکتا ۔ یہ واقعہ 2002 ءکو میرے ما موں جان کے ساتھ پیش آیا ۔ قریباًدو سال پہلے میرے ما موں ہا رون الرشید کی شا دی تھی اور انہو ں نے شا دی کے مو قع پر ہمیں یہ وا قعہ سنایا ۔ ما مو ںکپاس کی خریداری کر تے ہیں اور اس وا قعہ کا تعلق بھی اسی کارو بار سے ہے ۔ مامو ں کہنے لگے میں کپا س کا کا رو بار تقریباً 1989 ءسے کر رہا ہو ں او ر الحمد اللہ علا قے میں اچھے تعلقات بھی ہیں ۔ میں گلزار پو ر شا م کو گیا ۔ راناعلی شیر عر ف لیلا کی کپاس خریدنا تھی۔ تقریباً 300 من کپاس میں نے خریدی اور ٹرالے پر لو ڈ کر ا دی اور خود موٹر سائیکل لے کر چلنے کے لیے تیا ر ہوا لیکن رانا علی شیر نے مجھے روکنے کی کوشش کی کہ را ت کافی ہو چکی ہے۔آج رات یہیں میرے پا س گزار لو لیکن اس کے اصرا ر کے با و جو د میں نہ رکا اورمیں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور چل پڑا۔ سر دی بہت زیا دہ تھی ۔ میںنے ہا تھو ں پر دستانے چڑھائے ہوئے تھا اور شال کو اوڑھ رکھا تھا ۔ آہستہ آہستہ سفر گزرتا رہا۔ اسی راستے میں ایک دربارآتا ہے ۔جسے پیر حمیدالدین کا دربار کہتے ہیں ۔یہ بہت پرانا در بار ہے ۔ سنسان علا قے میں درختو ں کے جھرمٹ میںاور سڑک کے بالکل کنار ے پر یہ واقع ہے ۔ میں جیسے ہی دربار کی حدود سے نکلا تو میرے سامنے ایک بکری کا بچہ آگیا ۔دور نزدیک کوئی مکان نہیں تھا ۔ میں نے مو ٹر سائیکل کو رو کا اور اس بکری کے بچے کو اٹھا کر اپنے آگے بٹھا لیا ۔ ابھی جمالا پہنچنے میں تھوڑا سفر باقی تھا کہ بکری کا بچہ انسانی بچے کی شکل میں آگیا۔ میں نے زور سے جھٹکا دے کر اسے ایک طر ف پھینک دیا جیسے ہی وہ نیچے گرا اچانک اس نے ایک عورت کی شکل اختیا ر کر لی اور مجھے کہنے لگی کہ تمہا ری قسمت اچھی تھی کہ تم بچ گئے ۔ میں نے جلدی سے مو ٹر سائیکل بھگا یا اور گھر آکر ہی بریک لگائی۔ میں بجائے سر دی کے کا نپنے سے، خوف سے کانپ رہا تھا اور اتنی سر دی ہونے کے با وجود مجھے پسینے آئے ہوئے تھے ۔ میں جلدی سے آکر بستر میں گھس گیا ۔ اب مجھے نیند نہیں آرہی تھی ۔ اتنا خو ف مجھے زندگی میںکبھی نہیں آیا ۔ اس وا قعہ کے بعد میں تین دن تک بخا ر میں مبتلا رہا ۔ آج وہ واقعہ یا د کرتا ہو ں تو میرے رونگھٹے کھڑے ہو جا تے ہیں ۔ ماموں سلامت مو ضع جمالا تحصیل دنیا پو ر میں مقیم ہیںاور نمازپنجگانہ بڑی پابندی سے ادا کر تے ہیں ۔ خداان کے رزق میں برکت دے۔ (آمین )
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں