حضرت مولانا دامت برکاتہم العالیہ عالم اسلام کے عظیم داعی ہیں جن کے ہاتھ پر تقریباً 5 لاکھ سے زائد افراد اسلام قبول کرچکے ہیں ۔ان نامورشہرہ آفاق کتاب’’نسیم ہدایت کے جھونکے ‘‘ پرھنے کے قابل ہے۔
مؤذن جو بہار کے رہنے والے تھے، ایک نوجوان کو گھر کے دروازہ پر کلمہ پڑھوانے کیلئے لے کر پہنچے اور گھنٹی دبائی‘ ایک چھوٹا بچہ حسن جس کی عمر چار سال ہے‘ اس نے دروازہ کھولا اور مؤذن صاحب نے بچہ سے کہا: ابا سے کہو‘ ایک صاحب کو کلمہ پڑھوانا ہے‘ ننھا بچہ دوڑا ہوا اپنے والد کے پاس پہنچا، روز روز کے ذکر و تذکرہ سے جو اللہ کے فضل سے گھر میں رہتا ہے اسے اندازہ تھا کہ یہ کام جلدی کرنے کا ہےوالد اپنے کسی لکھنے پڑھنے کےکام میں لگے ہوئے تھے، بے تابی سے بچہ نے والد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: بابا بابا جلدی چلئے‘ ملاجی ایک لڑکے کو کلمہ پڑھوانے لےکر آئے ہیں، والد جس کام کو کررہے تھے وہ پورا کرکے عشا کی نماز میں کسی کو دینا تھا اس لیے وہ بچہ کی طرف متوجہ نہ ہوئے‘ وہ بار بار تقاضا کرتا رہا، بابا بابا کلمہ پڑھوانا ہے۔ اپنی بساط بھر کوشش کے بعد جب اس کو شنوائی ہوتی محسوس نہ ہوئی تو وہ بے تاب ہوکر دروازہ پر پہنچا اور بولا: بابا کچھ لکھ رہے ہیں میں آپ کو کلمہ پڑھواتا ہوں، پڑھو، بابا بھی تو یہی کلمہ پڑھوائیں گے۔ پڑھو: لا الہ الا اللہ، مؤذن صاحب نے ہنس کر اس جوان سے کہا، بچہ سچ کہہ رہا ہے اسی طرح وہ بھی پڑھوائیں گے، آپ پڑھ لو، بچہ نے کہا: پڑھو میں پڑھواتا ہوں، اس کلمہ کو سچے دل سے پڑھ کر آدمی مسلمان ہوجاتا ہے، پڑھو‘ ملا جی آپ بھی پڑھو سب نے مل کر پڑھا: لا الہ الا اللہ، آگے پڑھو محمد رسول اللہ ﷺ۔ سب نے مل کر کلمہ مکمل کیا۔ بچہ بولا: آپ مسلمان ہوگئے‘ آپ اپنا نام بھی رکھو گے؟ مؤذن صاحب بولے ہاں نام بھی رکھیں گے مگر یہ تو تمہارا نام تم سے لے کر رکھیں گے۔ بچہ بولا ہاں میرا نام حسن ہے آپ اپنا نام حسن رکھ لو، بس آج سے آپ کا نام حسن ہے۔ پہلا نام تمہارا کیا ہے؟ اس نے کہا میرا نام رمیش چندر ہے، دیکھو وہ مسلمان نام نہیں ہے۔ حسن بہت اچھا نام ہے اب تمہارا نام حسن ہے، کلمہ پڑھوا کر خوشی خوشی بچہ اپنے والد کے پاس آیا اور بولا: بابا میں نے کلمہ پڑھوا دیا، اس کا نام رمیش تھا میں نے حسن نام رکھ دیا بس اب آپ کو جانے کی ضرورت نہیں، والد بہت خوش ہوئے‘ انہوں نے اپنا کام بند کیا، بچہ کو پیار کیا اور باہر جاکر ان سے ملے، ان کے اصرار پر ایمان کی تجدید کرائی اور حسن نام ہی تجویز کیا۔ کار دعوت کو خالق کائنات نے ختم نبوتﷺ کا فیصلہ فرما کر امت مسلمہ کا فرض منصبی اور اس کا دھندہ و پیشہ بنایا تھا اس کا حق تھا کہ بچہ بچہ کو دعوتی شعور ہوتا کہ ایک بڑھئی کا، ایک لوہار کا بچہ اپنے گھر میں ماں کا دودھ پیتے پیتے اپنے دھندہ اور پیشہ کی چیزیں سیکھ جاتا ہے جو کہ دوسرے پیشہ والے لوگ بڑے ہوکر سیکھ پاتے ہیں، اسی طرح ہر پیشہ والے کا معاملہ ہوتا ہے، خوش قسمتی سے اس بچہ کو اللہ تعالیٰ نے اس گھر میں پیدا کیا جہاں کچھ دعوت کا ذکر و تذکرہ ہوتا ہے۔ مگر روز روز کا تجربہ ہے کہ بعض ذمہ دار علماء اور ائمہ دور دور سے سفر کرکے، لوگوں کو لے کر آتے ہیں کہ فلاں کو کلمہ پڑھوانا ہے، ایک بڑے عالم دین جو ایک بڑے بزرگ کے خلیفہ و مجاز بھی ہیں، اس حقیر کے کرم فرماؤں میں ہیں، ان کا فون آیا کہ فلاں جگہ کے سابق ایم ایل اے مسلمان ہونا چاہتے ہیں ان کو لے کر پھلت آنا چاہتا ہوں، اس حقیر نے عرض کیا کہ آپ کلمہ پڑھوا دیجئے، بولے: میں عالم لوگوں کو تو کلمہ پڑھوا دیتا ہوں، اس حقیر نےعرض کیا کہ وی آئی پی کو بھی وہی کلمہ پڑھوایا جاتا ہے، اصل میں وہ عام کلمہ پڑھ کر وی آئی پی بنتا ہے آپ اتنے بڑےعالم ہیں، بتائیے کیا اسلام میں کوئی وی آئی پی کلمہ ہے، عام آدمی کو جو کلمہ پڑھوایا جائے گا وہی وی آئی پی کے لیے بھی ہے، بے تکلفی میں ہم دونوں ہی ہنسے اور ان کو بھی احساس ہوا، سال سال چھ مہینہ لوگ بھٹکتے رہتےہیں اور کلمہ پڑھوانے والا نہیں ملتا اور بعض ذمہ دار تک کلمہ نہیں پڑھواتے، کہاں کہاں سے سفر کرکے کلمہ پڑھوانے کیلئے خاص لوگوں کے پاس بھیجا جاتا ہے، حالانکہ امت دعوت اور خیر امت ہونے کا حق یہ تھا کہ امت کے بچہ بچہ کو ماں کے دودھ کے ساتھ گھٹی میں دعوت کے بنیادی نکات سمجھائے جاتے، اس کو شعور ہوتا کہ کلمہ پڑھوانے میں جلدی کروانی چاہیے اس میں تاخیر کی گنجائش نہیں، یہ کلمہ پڑھوانے کا شرف مجھے ملنا چاہیے، یہ میرا خاندانی کام اور دھندہ اور پیشہ دعوت اور اللہ کے بندوں کو کفر و شرک سے نکال کر انہیں اسلام میں لانا ہے، اپنے دھندہ اورپیشہ سے دور امت کے نوے فیصد لوگوں سے زیادہ لوگ اس غلط فہمی میں ہیں کہ کلمہ پڑھوانے کاکام تو بس کچھ خاص لوگوں کا ہے، ابھی چند یوم قبل ایک پس ماندہ آبادی کے تقریباً ڈیڑھ سو افراد جو شاید آبائی مسلمان رہے ہوں مگر نسلوں سے مرتد ہیں، اسلام کی طرف راغب ہوئے بستی کے لوگوں نے ایک عالم دین کو بلایا انہوں نے اسلام کے بارے میں سمجھایا وہ پہلے سے تیار تھے کلمہ کیلئے تیار ہوگئے تو مولانا نے ان کوکلمہ پڑھوانے کیلئے کہا بستی کے لوگوں نے کہا آپ کس طرح کلمہ پڑھوائیں گے، کلمہ فلاں صاحب پڑھواتے ہیں یہ کام تو ان کا ہے۔ مولانا صاحب جو خود بڑے عالم دین تھے وہ بھی بجائے اس کے کہ دیر نہ کرنے کیلئے سمجھاتے خاموش ہوکر واپس آگئے کہ ہاں بھائی یہ کام تو وہی کرتے ہیں۔ کاش امت! اپنے مقصود زندگی اور پیشہ کی لاج رکھتی اور گھروں میں اپنے نونہالوں میں دعوتی شعور بیدار کیا جاتا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں