چاند نظر آنے کا اعلان ہوتے ہی وہ تمام حدود و قیود توڑ دی جاتی ہیں جن کی رمضان المبارک کے مہینے میں خاصی حد تک پابندی کی جاتی تھی۔ الغرض کہ یہ مبارک رات اللہ سبحان و تعالیٰ کی نافرمانیوں کے آغاز کی رات بن جاتی ہے۔
ہم میںسے اکثر لوگ رمضان کی آخری رات جس کو چاند رات کہا جاتا ہے قرآن و سنت سے لاعلمی کی وجہ سے گمراہی میں گزاردیتے ہیں اور ان کی اصل اہمیت سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔ آج کا مضمون اس عنوان پر قرآن و سنت کی روشنی میں لکھا گیا ہے تاکہ ہم ان کی اصل اہمیت کا اندازہ کریں اور خود جائزہ لیں کہ ہمیں اس کو کس طرح سے گزارنا چاہیے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
رمضان مبارک کی آخری رات میں امت محمدﷺکی مغفرت کردی جاتی ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! وہ شب قدر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ کام کرنے والے کو مزدوری اس وقت دی جاتی ہے جب وہ کام پورا کرلیتا ہے اور وہ آخری شب میں پورا ہوجاتا ہے لہٰذا بخشش ہوجاتی ہے۔ (احمد عن ابی ہریرہؓ)
جو عیدین کی راتوں میں شب بیداری کرکے قیام کرے اس کا دل نہیں مرے گا جس دن کے سب لوگوں کے دل مردہ ہوجائیں گے۔ (ابن ماجہ)
ہمیں اس رات کو اللہ کے آگے گڑگڑانا چاہیے اور اپنی مزدوری مانگنے کے لئے بے قرار ہونا چاہیے ۔ زیادہ سے زیادہ استغفار و نوافل پڑھنے چاہئیں تاکہ اللہ تعالیٰ ہمارے روزوں اور عبادات کو قبول فرمائے۔ لیکن چاند رات کو ایک خرابی یہ کی جاتی ہے کہ ماہ مبارک کے وہ تمام انوار و برکات جو مسلمانوں نے حاصل کی ہوتی ہیں اس رات میں لہوولعب میں مشغول ہوکر ضائع کردی جاتی ہیں۔ وہ تمام خرافات جن سے عام مسلمان بچے رہتے تھے اس رات میں وہ سب خرابیاں پھر سے نمودار ہوجاتی ہیں۔ چاند نظر آنے کا اعلان ہوتے ہی وہ تمام حدود و قیود توڑ دی جاتی ہیں جن کی رمضان المبارک کے مہینے میں خاصی حد تک پابندی کی جاتی تھی۔ الغرض کہ یہ مبارک رات اللہ سبحان و تعالیٰ کی نافرمانیوں کے آغاز کی رات بن جاتی ہے۔ اس آخری رات کی فضیلت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ یہ محض ایک رواج ہے کہ عید کے دن نئے کپڑے اور نئے جوتے ہوں عید کی خوشی منانے کے لئے یہ لوازمات قطعاً ضروری نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے عیدالفطر کو بلاشبہ مسلمانوں کے لئے مسرت کا دن قرار دیا ہے اور اتنی بات بھی شریعت میں ثابت ہے کہ اس روز جو بہتر سے بہتر لباس کسی شخص کو میسر ہو وہ لباس پہنے، لیکن آج کل اس غرض کے لئے جن بے شمار فضول خرچیوں اور اسراف کے ایک سیلاب کو عید کے لوازم میں سے سمجھ لیا گیا ہے اس کا دین اور شریعت سے کوئی تعلق نہیں۔ آج یہ بات فرض و اجب سمجھ لی گئی ہے کہ کسی شخص کے پاس مالی طور پر گنجائش ہو یا نہ ہو لیکن وہ کسی نہ کسی طرح گھر کے ہر فرد کے لئے نئے سے نئے فیشن ایبل جوڑے کا اہتمام کرے۔ گھر کے فرد کیلئے جوتے، ٹوپی سے لے کر ہر ہر چیز نئی خریدے۔ گھر کی آرائش و زیبائش کے لئے نت نیا سامان فراہم کرے اور ان تمام امور کی انجام دہی میں کسی سے پیچھے نہ رہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہورہا ہے کہ ایک متوسط آمدنی رکھنے والے شخص کے لئے بھی ’’عید کی تیاری‘‘ ایک مستقل درد سر بن گئی ہے۔ اس سلسلے میں وہ اپنے گھر والوں کی فرمائشیں پوری کرنے کے لئے جب جائز ذرائع کو ناکافی دیکھتا ہے تو مختلف ذرائع سے دوسروں کی جیب کاٹ کر وہ روپیہ فراہم کرتا ہے جو ان کی غیر متناہی خواہشات کا پیٹ بھر سکے۔ اور اس ’’عید کی تیاری‘‘ کا کم سے کم نقصان تو یہ ہے کہ رمضان اور خاص طور سے اس کے آخری عشرے کی راتیں جو گوشہ تنہائی میں اللہ تعالیٰ سے عرض و مناجات کی راتیں ہیں، بازاروں میں بسر ہوتی ہیں۔ اللہ سبحان و تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اپنی نافرمانیوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین!
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں