ایک روز میں نے سوچا کہ اس قبر پر کوئی آتا بھی نہیں ہے‘ قبر بھی کچی ہے‘ اس کو میں مسمار کردوں گا اور اس کی جگہ کسی اور کو دفن کردوں گا۔ اسی جذبہ کے تحت جب میں نے قبر کو کھودا تو دیکھا کہ وہ ایک عورت کی قبر ہے۔
محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! آپ کا جریدہ ’’عبقری‘‘ میں کافی عرصہ سے پڑھ رہا ہوں‘ اس کے مضامین بہت دلچسپ، روحانیت سے بھرپور اور نصیحت آمیز ہوتے ہیں۔ طرز تحریر اتنا دلچسپ ہوتا ہے کہ لوگوں کی توجہ مذہب کی طرف ہوجاتی ہے۔لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں اپنےعزیز و اقارب کی قبروں پر اکثر جایا کرتا ہوں اور فاتحہ خوانی کرتا ہوں‘ قبروں پر صفائی اور ان کی دیکھ بھال کیلئے ایک نیک دل آدمی شوکت ٹھیکیدار سے ملاقات رہتی ہے۔ ایک دن ان سے گفتگو ہورہی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ جدی پشتی اس کام سے وابستہ ہے اور رات کو قبرستان میں ہی سوتے ہیں۔ میں نے جب اس سے پوچھا کہ آپ کو رات کو قبرستان میں رہتے ہوئے خوف نہیں آتا تو اس نے جواب دیا کہ ہم عادی ہوگئے ہیں اور خوف کس چیز کا؟ میں نے اس سے پوچھا کہ اتنے عرصہ سے قبریں کھود رہے ہو اور یہ تمہارا آبائی کام ہے۔ اس حوالے سے کوئی واقعہ اور کوئی بات سناؤ۔ اس نے کہا کہ میرے بزرگ بھی بتایا کرتے تھے اور میں نے بھی محسوس کیا ہے کہ جب کوئی بہت نیک اور اللہ والی شخصیت آتی ہے تو ہمیں قبر کھودتے وقت کوئی جسمانی محنت نہیں کرنی پڑتی۔ زمین بڑی آسانی سے کھد جاتی ہے۔ زمین میں سے اکثر خوشبو آتی ہے۔ جب کوئی گنہگار آتا ہے تو زمین بڑی مشکل سے کھدتی ہے اور بڑی جسمانی محنت کرنا پڑتی ہے۔ بعض قبور ایسی ہیں کہ ہمیں دن کی روشنی میں بھی قبر کے پاس سے گزرتے ہوئے دہشت اور خوف کا احساس ہوتا ہے۔ اپنا ناقابل فراموش واقعہ سناتے ہوئے اس نے بتایا کہ چند سال پہلے رمضان المبارک کی ایک مبارک رات کو صرف چند لوگ ایک جنازہ لے کر آئے۔ دفن کرکے چلے گئے۔ اس کے بعد کافی عرصہ تک اس قبر پر فاتحہ خوانی کیلئے کوئی نہیں آیا۔ قبر کچی تھی بار شوں کی وجہ سے بالکل شکستہ حال ہوچکی تھی۔ ایک روز میں نے سوچا کہ اس قبر پر کوئی آتا بھی نہیں ہے‘ قبر بھی کچی ہے‘ اس کو میں مسمار کردوں گا اور اس کی جگہ کسی اور کو دفن کردوں گا۔ اسی جذبہ کے تحت جب میں نے قبر کو کھودا تو دیکھا کہ وہ ایک عورت کی قبر ہے۔ قبر میں سے انتہائی خوشگوار خوشبو کا جھونکا نکلا‘ اس عورت کی لاش بالکل تازہ تھی جیسے ابھی ابھی دفن کیا ہے۔ میں نے جلدی سے قبر کو بند کیا اور اس قبر کی حالت درست کی۔ اب بھی وہ قبر موجود ہے اور میں اکثر گزرتا ہوا اس قبر پر فاتحہ خوانی کرتا ہوں اور پانی وغیرہ کا چھڑکاؤ کرتا رہتا ہوں۔ مزید بتانے لگے جب ہم پرانی قبر کو کھودتے ہیں تو اس میں سے بڑی سخت بدبو آتی ہے لیکن اس عورت کی قبر سے جو خوشبو آئی وہ خوشبو میرے دماغ میں کافی عرصہ تک بسی رہی۔مزید بتایا کہ ایک روز میں حسب معمول قبرستان میں سے گزر رہا تھا کہ میں نے دیکھا کہ اسی عورت کی قبر پر ایک بڑا سوٹ بوٹ پہنے ’’باؤ‘‘ آدمی اور سر پر فلیٹ ہیٹ پہنے ہوئے قبر پر فاتحہ خوانی کررہا ہے اور قبر پر پھولوں کا گلدستہ پڑا ہے۔ میں اس قبر کے پاس جاکر کھڑا ہوگیا جب وہ آدمی فاتحہ خوانی سے فارغ ہوا تو میں نے اسے سلام کیا اور پوچھا بھائی! یہ کس کی قبر ہے؟ کیونکہ اس قبر پر کوئی نہیں آتا۔ آج میں نے پہلی مرتبہ کسی کو اس قبر پر فاتحہ خوانی کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس آدمی نے جواب دیا کہ یہ میری بیوی کی قبر ہے۔ چونکہ میں پاکستان سے باہر ہوتا ہوں اس وجہ سے اس کی قبر پر نہیں آسکتا۔ آج کل میں یہاں آیا ہوں تو فاتحہ خوانی کیلئے آگیا۔ میں نے اس کو ساری بات بتائی اور پوچھا کہ اس نے کونسا ایسا عمل کیا تھا جس کی وجہ سے اس کا کفن بھی میلا نہیں ہوا اور قبر نور اور خوشبو سے بھری ہوئی ہے۔ اس آدمی نے جب یہ بات سنی تو زارو قطار رونا شروع کردیا اس نے جو کہانی سنائی اس کے مطابق میں جوانی میں تعلیم حاصل کرنے یورپ چلا گیا‘ وہاں تعلیم مکمل کی اور ملازمت کرلی‘ جب میں پاکستان اپنے والدین سے ملنے آتا تو میرے والدین مجھ پر زور دیتے کہ شادی کرلو‘ تمہاری منگنی بچپن سے تمہاری خالہ کے گھر کردی تھی۔ وہ تقاضا کررہے ہیں۔ میں ہر دفعہ انکار کردیتا۔ ایک دفعہ جب میں یورپ سے پاکستان آیا تو والدین نے کہا کہ اس دفعہ تم نے شادی نہ کی تو ہمارا تمہارا کوئی واسطہ نہیں رہےگا۔ والدین نے مجھے اتنا مجبور کیا کہ مجھے شادی کرنا پڑی۔ میں والدین کو سمجھاتا رہا کہ کچھ مجبوریوں کی وجہ سے میں شادی نہیں کرسکتا‘ میری بہت بڑی مجبوری ہے۔ لیکن والدین نے میری شادی کردی۔ شادی کی پہلی رات میں نے اپنی بیوی کو بتادیا کہ میں تمہارے فرائض پوری طرح سرانجام نہیں دے سکتا۔ تم میری طرف سے آزاد ہو‘ تم اپنی مرضی سے جہاں چاہو شادی کرسکتی ہو۔ میں تمہارا گنہگار ہوں۔ اس نے کہا کہ اگر یہی میری قسمت میں تھا تو میں اس پر راضی ہوں۔ میں پوری زندگی تمہارے ساتھ گزارنے کو تیار ہوں۔ اسلام میں جو بیوی کو اس کے شوہر کیلئے ’’مجازی خدا‘‘ تصور دیا ہے اس نےپورا کردکھایا۔ کبھی میری اتنی بڑی کمزوری کا ذکر کسی سے نہیں کیا اور نہ ہی کبھی مجھے بلیک میل کرنے کی کوشش کی۔ والدین جب اولاد کا ذکر کرتے تو ہم ڈاکٹروں کو پیسے دے کر غلط رپورٹ بنوالیتے جس میں دونوں کو ٹھیک قرار دیا گیا ہوتا۔ اس نے میرے ساتھ بہت تعاون کیا۔ پاک دامنی‘ عبادت گزاری‘ غریبوں کے کام آنا اور فلاحی کاموں میں سب سے آگے رہتی۔ یہ وہ تمام خوبیاں تھیں جس کا اللہ تعالیٰ نے اسے انعام دیا۔ اس دنیا میں بھی وہ سرخرو ہوئی اور اس دنیا میں بھی۔ اللہ تعالیٰ اس کے درجات کو بلند کرے۔ اس کے علاوہ اس نے بتایا کہ یہ دنیا واقعی ایک کھیتی ہے یہاں جو بوؤ گے آخرت میں وہی پاؤ گے۔ اب تو ہمیں اتنا تجربہ ہوگیا ہے کہ میت کو دیکھ کر اندازہ لگ جاتا ہے کہ اس نے زندگی کیسی گزاری ہے۔؟
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں