جب ہم ایک دن سکول آئے تو اسی 7th کلاس میں خون ہی خون تھا‘ راستے والی کھڑکی کھلی تھی جبکہ کمرے کا دروازہ لاک تھا۔ خون دروازے سے نکل کر لائن کی شکل میں دو تین سو گز دور تک بالکل سیدھ میں بورنگ والے کمرے کے اندر گیا ہوا تھا
محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! میں عبقری رسالہ بہت شوق سے پڑھتی ہوں اس رسالے سے مجھے روحانی و جسمانی طور پر بہت زیادہ فائدہ حاصل ہوا ہے۔ میں عبقری رسالہ میں ہر ماہ جنات کے حوالے سے ایک واقعہ جو چھپتا ہے وہ بہت شوق سے پڑھتی ہوں۔ میرے پاس بھی جنات کے حوالے سے ایک سچا چشم دید واقعہ ہے۔ میں آپ کو اپنے بچپن کا سچا واقعہ سناتی ہوں۔ میں جب چھ سال کی تھی تو راولپنڈی سے چکوال کے گاؤں جو میرا آبائی گاؤں چکرال ہے‘ پہلی کلاس میں داخلہ لیا جب چوتھی کلاس میں تھی تو اسی گاؤں کے سکول میں کچھ ایسے واقعات ہوئے کہ لوگ پہلے ہی اس سکول سے ڈرتے تھے مزید ڈرنا شروع ہوگئے۔ ہمارے گاؤں میں لڑکیوں کا سکول گاؤں سے باہر ہے۔ سکول کے اردگرد ویران جگہ ہے‘ اونچی نیچی چھوٹی چھوٹی مٹی کی پہاڑیاں ہیں ان کے درمیان سے ایک چھوٹا سا نالہ بھی گزرتا ہے اور پھلائی کے درخت ہی درخت ہیں۔ لوگ اس جگہ کو لمڑیاں کہتے ہیں۔ بچیوں کو ماں باپ گھر سے کہہ کر بھیجتے تھے کہ لمڑیوں میں ہرگز نہ جانا چونکہ سکول کی اس وقت چار دیواری نہیں تھی اور لڑکیاں وہاں درختوں کے نیچے کھیلتے کھیلتے پہنچ جاتی تھیں۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ 7th کلاس کی لڑکی جس کا نام (ث) تھا اچانک ٹیچر سے ڈنڈا کھینچ کر ٹیچر کو ہی مارنے لگ گئی‘ سارے سکول میں لڑکیوں کے پیچھے بھاگنا شروع ہوگئی‘ پرنسپل کے روم میں جاکر محترم پرنسپل صاحبہ کے منہ پر انتہائی زور سے تھپڑ مارا اور ٹیبل سے جوس کے ڈبے اور سیب اٹھا کر باہر پھینک دئیے‘ پورے سکول میں اودھم مچ گیا پھر اس کے گھر والوں کو بلایا اور وہ اسے بڑی مشکل سے لے کر گئے‘ گھر جاکر مقامی مسجد کے قاری صاحب آئے انہوں نے کچھ قرآنی آیات کا دم کیا تو اسے ہوش آیا۔ جب تقریباً دو ہفتے بعد وہ دوبارہ سکول آئی تو ہم نے پوچھا کہ تمہیں کیا ہوا تھا تو کہنے لگی مجھے بالکل بھی نہیں معلوم کیا ہوا تھا‘ میں ہوش میں نہیں تھی۔ اس سےچند دنوں بعد کی بات تھی کہ جب ہم ایک دن سکول آئے تو اسی 7th کلاس میں خون ہی خون تھا‘ راستے والی کھڑکی کھلی تھی جبکہ کمرے کا دروازہ لاک تھا۔ خون دروازے سے نکل کر لائن کی شکل میں دو تین سو گز دور تک بالکل سیدھ میں بورنگ والے کمرے کے اندر گیا ہوا تھا جبکہ بورنگ والے کمرے کا دروازہ بھی بند تھا۔ جب چوکیدار اور ٹیچرز نے مقامی پولیس اور کچھ علماء حضرات کو بلایا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ کسی انسان کا خون نہیں ہے بلکہ یہ معاملہ کچھ اور ہی لگتا ہے مطلب یہ کسی جن یا بھوت کا خون ہے۔ اس واقعہ کے بعد مجھے تین دن تک مسلسل تیز بخار رہا۔ آج بھی جب مجھے وہ واقعہ یاد آتا ہے تومیرے رونگٹے کھڑے ہوجاتےہیں۔ اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کی شیطانی چیزوں سےحفاظت فرمائے۔ آمین! (میمونہ یاسمین‘ راولپنڈی)
میری والدہ جنات سے باتیں کرتی ہیں
محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! اللہ آپ کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور لمبی عمر عطا فرمائے تاکہ آپ اسی طرح دکھی انسانیت کی خدمت کرتے رہیں۔ کچھ عرصہ قبل میری والدہ اور بھابی دونوں ملتان سے گجرات تشریف لے گئیں وہاں پہنچتے ہی میری والدہ کی طبیعت خراب ہوگئی اور ان کا جسم بالکل مفلوج ہوگیاحالانکہ کراچی میں وہ بالکل تندرست تھیں۔ یہاں پر ایک چیز جو غور طلب ہے وہ یہ ہے کہ میری والدہ انجانے میں خلا میں کسی سے باتیں کرتی رہتی تھیں اور وہ بھی بالکل عجیب سی زبان میں جو ہمیں بالکل بھی سمجھ نہ آتی تھی۔ بہرحال ہم والدہ کو ملتان واپس لے آئے اور ان کا طبی اور ایک عالم صاحب سے روحانی علاج کرایا دو سے تین ماہ میں ان کی حالت بہتر ہوگئی۔ ان کے صحت مند ہونے پر ہم نے پوچھا کہ آپ کس سے باتیں کرتی تھیں تو انہوں نے بتایا کہ انہیں صرف آواز آتی تھی کبھی بھی شکل دکھائی نہیں دی اور وہ میرے ساتھ سارے راستے ساتھ ساتھ رہتی اس کے بعد اکثر وہ ہمارے گھر بھی آتی ہیں‘ یہ بات سننے کے بعد ہم نے ایک نیک صالح متقی بزرگ سے روحانی عمل کروایا‘ جس کے بعد سے وہ چیزیں ہمارے گھر نہ آئیں اور نہ ہی میری والدہ کی طبیعت خراب ہوئی۔(عرفان خان)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں