بے اولاد حضرات کیلئے جنات کا آزمودہ وظیفہ خاص: فرمانے لگے کہ میرا ایک بھائی جو کہ اب اس دنیا سے رخصت ہوگیا بہت لمبی عمرپاکر۔ جب اس کی شادی ہوئی تو اس کی اولاد نہیں ہوتی تھی۔ ہم نے بہت علاج معالجے کرائے کسی نے کہا کہ بھائی کے اوپر جادو ہے کسی نے کہا نظربد ہے کیونکہ جنات کی دنیا میں جادو بہت چلتا ہے اور جنات ایک دوسرے پر جادو بہت کرتے ہیں۔ ہر قسم کا علاج کیا اور ہر قسم کا ان کا علاج ہوا اور ہم پریشان اور مایوس ہوگئے۔ سالہا سال گزرتے گئے‘ میری بوڑھی والدہ دن رات دعائیں مانگتی تھی کہ کسی طرح میرے بھائی کی اولاد ہوجائے‘ ایک دن میری والدہ نے ایک خواب دیکھا خواب میں کیا دیکھتی ہیں کہ سات عورتیں آئیں اور سب کے ہاتھوں میں تنکوں سے بنی ہوئی سات ٹوکریاں ہیں اور ہر ٹوکری میں سات قسم کے پھل ہیں اور سب میری والدہ کو دینے کیلئے آئی ہیں۔ میری الدہ نے پوچھا آ پ نے مجھے یہ چیز کیوں دی ہیں تو وہ خواتین کہنےلگیں ہم آپ کو سات بیٹے دینے آئی ہیں‘ والدہ نے خواب میں کہاکہ میرے بیٹے کے بیٹے نہیں ہیں آپ کیسے دینے آئی ہیں جو ساتھی خاتون تھی وہ بڑی تھی محسوس ہوتا تھا کہ وہ سب ان کی ہیڈ ہیں۔ وہ کہنے لگیں کہ یہ سات ٹوکریاں آپ کو فائدہ اس وقت دیں گی جب آپ قرآن پاک کی وہ سورت پڑھیں گی اور قرآن پاک کی وہ آیتیں پڑھیں گی جن میں سب سے زیادہ آپ کو قسموں سے واسطہ پڑے گا اور وہ قسمیں بھی وہ جو اللہ کی قسمیں ہوں گی میری والدہ نے حالت خواب میں پوچھا وہ قسمیں کون سی ہیں وہ سورت وہ آیت کونسی ہیں تو ان سات خواتین نے بتایا کہ وہ قسمیں وہ آیتیں وہ سورۂ شمس ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعہ وظیفہ عطا کیا:اس سورۃ کو زیادہ سے زیادہ پڑھو اور جتنا زیادہ پڑھو گے اتنا زیادہ نفع ہوگا‘ ورنہ اس سورت کو چالیس بار صبح و شام ضرور پڑھو اگر تم مستقل ایسا پڑھتی رہی توانشاء اللہ سوفیصد تمہاری اولاد یعنی تمہارے بیٹے کی اولاد ہوگی اور تمہیں ناکامی نہیں ہوگی اور مسلسل کامیابی ہوگی۔ والدہ کی آنکھ جب کھلی تو والدہ نے بہت ٹھنڈی سانس لی‘ اور میں والدہ کے ساتھ دوسری جگہ سویا ہوا تھا‘ والدہ کی سسکی بھری آواز سن کر تو میں حیران ہوا‘ کہ والدہ کو کونسی تکلیف اور کونسی پریشانی ہوئی ہے جس کی وجہ سے ان کی آواز سسکیوں بھری ہوگئی ہے۔ میں نے جاکر والدہ کے پاؤں کو اپنے ہونٹوں سے چوما اور ان کے پاؤں دباتے ہوئے پوچھا کہ آپ کو ایسی کونسی تکلیف ہے جس کی وجہ سے آپ سسکیاں لے کر رو رہی ہیں۔ والدہ فرمانے لگیں بیٹا میں نے ایسے ایک خواب دیکھا ہے اور اس خواب میں مجھے حکم ملا ہے کہ تم چالیس بار سورۂ شمس پڑھو میرا رونا اس بات ہے کہ اللہ کی طرف سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری مشکل کٹ گئی ہے اور ہماری پریشانی دور ہوگئی اور ہم مسائل اور مشکلات سے نکل کر انشاء اللہ نعمتوں والی زندگی میں آگئے ہیں۔سورۂ والشمس پڑھی اور ملے سات بیٹے: میری والدہ نے اس دن سے سورۂ شمس کو بہت زیادہ پڑھنا شروع کیا اور حیرت انگیز تعداد میں سورۂ شمس کو پڑھتے ہوئے میری والدہ جب سورۂ شمس پڑھتی رہی پڑھتے پڑھتے میری والدہ اعتماد سے روزانہ نامعلوم کتنی زیادہ پڑھ جاتی اور جب زیادہ نہ پڑھتی تو کم از کم صبح و شام چالیس بار تو ضرور ہی پڑھتی تھیں۔ یہ اعتماد سے ان کا پڑھنا بہت عرصہ رہا حالانکہ اس دوران میرےبھائی کی کوئی اولاد نہیں لیکن میری والدہ مایوس نہیں ہوئی اور وہ مسلسل سورۂ شمس پڑھتی رہیں کچھ عرصہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے میرے بھائی کو خوشخبری سنائی خوشخبری سننے کےبعد بھی میری والدہ مسلسل سورۂ شمس پڑھتی رہیں ان کا یہ پڑھنا مجھے بہت بھاتا تھا‘ بہت اچھا لگتا تھا اور وہ مسلسل پڑھتی رہیں اور اس امید کے ساتھ کہ اگر اللہ تعالیٰ نے امید لگابھی دی ہے تو اللہ پاک ضرور بالضرور پھل پھول بھی لگائیں گے اور اللہ پاک بیٹے بھی عطا فرمائیں گے۔ وظیفہ سورۂ والشمس پڑھا ملے سات بیٹے:میری والدہ اس یقین کے ساتھ پڑھتی رہیں آخر کار اللہ پاک نے میرے بھائی کو بیٹا عطا فرمایا۔ لیکن اس کے باوجود بھی میں نے محسوس کیا کہ والدہ روز سورۂ شمس پڑھتی رہیں اور مسلسل پڑھتی رہیں میں نے ایک دو دفعہ پوچھا کہ اماں جان آپ سورۂ والشمس مستقل پڑھ رہی ہیں اور مسلسل پڑھ رہی ہیں تو سورۂ والشمس مستقل پڑھنے سے فائدہ تو ہوا کہ اللہ پاک نے میرے بھائی کوبیٹاعطا کیا تو پھر کیوں پڑھ رہی ہیں تو والدہ فرمانے لگیں: بیٹا میں سورۂ شمس اس لیے مسلسل پڑھ رہی ہوں میں نے تیرے بھائی کیلئے جو خواب دیکھا تھا اس خواب کے مطابق سات بیٹے ملنے ہیں اور یہ ساتوں بیٹے اللہ ضرور دے گا۔ مجھے مکمل یقین ہے۔ لہٰذا اس یقین کی بنیاد پر میں سورۂ والشمس مسلسل مسلسل پڑھے جارہی ہوں اور واقعی ایسا ہوا میری والدہ مسلسل پڑھتی رہیں اور اللہ پاک ہمیں بیٹوں سے نوازتا گیا۔ سات بیٹے ہوگئے‘ جب سات بیٹے ہوگئے میری والدہ نے اس سورۂ کو پڑھنا چھوڑ دیا۔اے نادان! سورۂ واشمس پڑھنا نہ چھوڑ!: کچھ عرصہ کے بعد ایک خواب دیکھا خواب میں کیا دیکھا کہ میری والدہ سے کسی نے کہا تم سے بڑا کون نادان ہے؟ تم نے سورۂ والشمس پڑھنا چھوڑ دیا اس سورۂ کو پڑھنا نہ چھوڑو۔ کیونکہ جب بھی سورۂ شمس کے پڑھنے سے تمہیں بیٹے ملے ہیں تمہارے بیٹے کے بیٹے اور ان کے بھی بیٹے بھی ہوں تو سورۂ شمس کو نہ چھوڑو۔ صحابی بابا پورے یقین اور اعتماد سے واقعہ سنارہے تھے اور اپنے زندگی کا مشاہدہ سنا رہے تھے۔ سورۂ والشمس پڑھنے سے بیٹے ملے‘ رحمت ملی‘ برکت ملی:صحابی بابا فرمانے لگے بس وہ یقین ہی تھا جس نے میری والدہ کو مسلسل سورۂ شمس پڑھنے پر مجبور کیے رکھا اور وہ دل کی گہرائیوں سے سورۂ والشمس پڑھتی تھیں اور سورۂ شمس کے پڑھنے سے واقعی ایسا ہوا بہت ہی عرصہ ہوا والدہ فوت ہوگئی لیکن اب ہمارے گھر میں بیٹے بہت زیادہ ہیں حتیٰ کہ اب تو عالم یہ ہے کہ ہم بیٹیاں مانگتے ہیں اور ترستے ہیں اور بیٹے ہمارے گھروں میں بہت زیادہ ہیں۔ صحابی بابا فرمانے لگے یہ عمل میں نے بہت اور لوگوںکو بھی بتایا جن کی صرف بیٹیاں تھیں یا جن کی اولاد نہیں تھی میں نے انہیں کہا کہ اس عمل کو سوفیصد پڑھیں اور مستقل پڑھیں اور واقعی اس کے پڑھنے سے بیٹے ملے اور بیٹوں کو بہت زیادہ رحمت ملی‘ صحت ملی‘ برکت ملی جس نے بھی اس کو پڑھا ان کوبیٹے ملے بعض ایسے تھے جو بالکل بانجھ تھے ‘ ان کا علاج کبھی نہیں ہوسکتا تھا ان کو بھی اس سورہ کی برکت سے بیٹے ملے۔حاجی صاحب نے سنائے اپنے تجربات و مشاہدات: صحابی بابا نے جب یہ بات سنائی تو حاجی صاحب نے کہا کہ اگر آپ نے سنائی ہے تو پھر میں بھی اس کا ایک عمل اور مشاہدہ بتادیتا ہوں‘ اس دوران میری کیفیت مسلسل یہ رہی کہ اب سورۂ شمس کے تذکرے ختم ہوں اور صحابی بابا کسی طرح کائنات کے پراسرار راز بتائیں اور وہ کائنات کے پراسرار راز جس سے کائنات کو بہت زیادہ جستجو ہے بہت سے لوگ ان رازوں کو جاننے کی مسلسل کوشش کررہے ہیں لیکن ان رازوں کو جان نہیں پاتے۔ اب محفل میں پہلے بیٹھے تھے‘ چھوٹے بیٹھے تھے اچھا محسوس نہیں ہورہا تھا‘ میں ان سب سے کہہ دوں کہ آپ یہ موضوع ختم کردیں اس موضوع کو نہ چلائیں لیکن بعد میں احساس ہوا کہ اچھا ہوا کہ حاجی صاحب نے بھی اپنی کیفیت بتادی اور سورۂ شمس کا اپنا مشاہدہ اور تجربہ بتادیا۔ اس کا احساس بعد میں ہوا اور یہ احساس بہت اچھا لگا۔ حاجی صاحب بتانے لگے یہ ان دنوں کی بات ہے جب میرا مستقل قیام بغداد میں ہوتا تھا اور میں نے بغداد میں زندگی کے بہت شاندار اور سنہرے دن گزارے۔چلو کوئی سوالی سوال کررہا ہے اس کا سوال پورا کرو: میں نے ایک دن محسوس کیا کہ میرے دل میں کوئی آواز دینے والا آواز دے رہا اٹھو چلو کوئی سوالی سوال کررہا‘ اس کے سوال کو پورا کرو‘ کوئی مشکل میں ہے اس کی پریشانی دور کرو‘ بس بے ساختہ میں چل پڑا۔ میں بغداد کی پرانی مشہور بازار میں چلتا رہا۔12 سال سے بے چین مالدار بھکاری کی فریاد: چلتے چلتے مجھے سوال کرنے والا سائل ملا اور بھکاری ملا اور وہ سوال کرنے والا سائل اور بھکاری ایک سوال لےکر آتا ہے مجھے مال نہیں چاہیے لوگوں مجھے درہم اور دینار نہیں چاہیے لوگو مجھے سونا اور چاندی نہیں چاہیے لوگو مجھے اپنے بیٹے کیلئےبیٹا چاہیے ‘ہے کوئی ایسا جو اللہ سے میرے بیٹے کیلئے بیٹا دلا دے؟ ہے کوئی ایسا جو میری نسلوں کی تکمیل کرادے ؟ہے کوئی ایسا جو مجھ پیاسے کو بیٹوں یعنی پوتوں کا ٹھنڈا پانی پلا دے؟ ہے کوئی ایسا جو مجھ بھوکے کو پوتے کے ہاتھوں لقمہ کھلادے؟ لوگوں میرا بیٹا ہے پوتا نہیں ہے۔ بارہ سال ہوگئے میں بارہ سال سے بے چین ہوں‘ لوگو! میں بھکاری نہیں ہوں لوگو میں سائل نہیں ہوں منگتا اور مستحق نہیں ہوں‘ لوگوں میں صاحب نصاب اور صاحب حیثیت ہوں‘ بیٹے کے حصول یعنی پوتے کےحصول نے مجھے بھکاری بنادیا اب میں مجبور ہوکر بازار کی طرف چل نکلاہوں۔ ہے کوئی ایسا شخص جو مجھے اللہ کی بارگاہ سے بیٹے دلادے اور میں بیٹوں والی نعمت سے مستفید ہوجاؤں۔ انوکھا سائل اور سوالی جو بیٹا مانگتا ہے: اس کی آواز رونے والی تھی‘ اس کی آواز میں درد کا جادو تھا اور غم تھا اور مسلسل وہ کہے جارہا تھا‘ لوگ اس کے دینے کیلئے ہاتھ آگے نہیں بڑھا رہے تھے لیکن ہر شخص کے چہرے پر سوچ تھی ان گنت اور ہر شخص سوچ رہا تھا کہ یہ عجیب انوکھا سائل اور سوالی ملا ہے جو مال نہیں مانگتا درہم ودینار نہیں مانگتا یہ صرف بیٹے مانگتا ہے۔ میں نے اس کے پیچھے چلنا شروع کیا اس وقت چاشت کاوقت تھا یعنی ابھی دن شروع ہی ہوا تھا ‘چاشت کے وقت سے لے کر دن ڈوبنے تک میں اس سوالی کے پیچھے پھرتا رہا لیکن وہ سوالی اپنا سوال کرتا رہا اور مسلسل کرتا رہا اور میں اس سوالی کو مسلسل دیکھتا رہا‘ کوئی بھی شخص ایسا نہ ملا جو اس کے سوال کو پورا کرتا‘ کوئی بھی شخص ایسا نہ ملا جو اس کے سوال کیلئے اس کا ساتھ دیتا۔ آخرکار وہ شخص تھک ہار کر ایک جگہ بیٹھ گیا۔عجیب بھکاری کی اللہ سے آہ و فریاد: ایک درخت کے سائے میںٹیک لگا کر وہ زارو قطار رونے لگا اور اپنے مولا سے بیٹھا باتیں کرنے لگا کہ یااللہ تو جانتا ہے میں نے ساری زندگی غریبوں کی مدد کی‘ یااللہ مجھے وہ وقت یاد ہے جس دن یہ میرا بیٹا پیدا ہوا تھا میں نے گیارہ سو غریبوں کوکھانا کھلایا تھا ‘میں نے سو غریبوں کو کپڑے پہنائے تھے‘ میں نے گیارہ غریبوں کو گھر بناکردئیے تھے اور یااللہ تو جانتا ہے میں نے کبھی اپنے منہ میں لقمہ نہیں ڈالا جس لقمے کیلئے کسی غریب نے سوال کیا ہو۔ یااللہ! میں اپنے آ پ کو سخی نہیں کہتا پر میںنے مستحق اور غریب لوگوں کے سوال انہوں نے کیا اور میں نے انکار کیا ہو مولا ایسا نہیں ہوا۔ آج تجھ سے سوال کررہا ہوں مولا تو میرے سوال کو پورا فرما اور مولا میں تجھ سے سوال کررہا ہوں تو میرے سوال میں میرا ساتھ دے۔ یااللہ! صبح سے لےکر شام تک میں سڑکوں پر پھرتا ہوں میں بھکاری بن کر سوالی بن کر اے اللہ! میرا سوال کوئی پورا نہیں کرتا کیامیری زندگی ایسے ہی گزرے گی اور میںسوالی بے نام اس دنیا سے رخصت ہوجاؤں گا۔حاجی صاحب کی کہانی نے سب کو رلا دیا: اے اللہ کسی خضر کو بھیج جو میرے سوال کو پورا کرے۔ حاجی صاحب یہ غم کی کہانی سنا رہے تھے ان کا انداز ایسا تھا میں بھی اور بیٹھنےوالے اور بھی رو رہے تھے‘ حاجی صاحب خود بھی رو رہے تھے۔ فرمانے لگے کہ میں یہ آواز سن کر گھبرا گیا‘ پریشان ہوگیا‘ شاید مجھے اس شخص کیلئے بھیجا گیا میرے اندر سے آواز آئی اس شخص کا سوال پورا کر‘ اس کی ضرورت میں اس کا ساتھ دے۔ حاجی صاحب فرمانے لگے مجھ سے وہ مالدار بھکاری کا درد اور غم ایسا تھا کہ میں خود حیران ہوا اور ایسا حیران ہوا اس کے سارے دن کی صدائیں میرے دل پر چوٹ لگاتی رہیں لیکن آخری لمحوں میں جب وہ درخت کے ساتھ ٹیک لگا کر رویا اور بہت جی بھر کر رویا اور اللہ کو اپنی دل کی کیفیتیں غم کے قصے اور اللہ کے ساتھ غربا فقرا اور مساکین کے ساتھ بھلائیاں یہ ساری چیزیں وہ بیان کرتارہا اس کی یہ کیفیت مجھے بہت بھاگئی مجھے احساس ہوا کہ شاید اللہ تعالیٰ نے مجھے اس بندے کی مدد کیلئے بھیجا ہے شاید اللہ تعالیٰ نے مجھے اس بندے کی ضرورت پوراکرنے کیلئے بھیج دیا ہے وہ بیٹھا رو رہا تھا اور اللہ سے باتیں کررہا تھا اسے کوئی احساس نہیں تھا کہ کوئی مجھے سن رہا یا میرے پیچھے صبح سے کوئی شخص لگا ہوا ۔حاجی صاحب ٹھنڈی آہ بھر کر کہنے لگے میں بھی سارا دن اس کے پیچھے لگا رہا نہ تھکا اور نہ اکتایا بلکہ میں اس جستجو میں رہا آخر اس مالدار بھکاری کا سفر کب ختم ہوتا اور وہ سفر اس وقت ختم ہوا جب وہ درخت سے ٹیک لگائے بیٹھا رو رہا تھا اب میں اس سوچ میں مسلسل پریشان تھا کہ میں اس کو کیا بتاؤں اور اس کو کون سا عمل بتاؤں؟اللہ نے مجھے مالدار بھکاری کی مدد کا ذریعہ بنادیا: کون سا ذکر کون سی تسبیح میں مسلسل سوچ رہا تھا اور پریشان تھا پھر دل میں خیال آیا کہ جنہوں نے مجھے اس کی مدد کیلئے بھیجا ہے وہ خود ہی اس کے بارے میں مجھے سجھائیں گے میں آنکھیں بند کرکے اللہ کی ذات کی طرف متوجہ ہوا میرےکانوں میں اس مالدار بھکاری کےرونے فریاد کرنے دکھ اور درد بھری اللہ کو داستانیں سنانے کی آوازیں آرہی تھیں لیکن میں مسلسل اللہ کی ذات کی طرف متوجہ تھا کہ یااللہ تو مجھے سجھا دے میں کیا کروں اورمیں کس طرح کروں میں اس کی مدد کیسے کروں یااللہ مجھے تو کچھ خبر نہیں کہ مدد کسے کہتے ہیں کہ مدد ہو کیسے سکتی ہے؟ بس! اچانک میری زبان پر ایک بات جاری ہوئی آج بھی میں سوچتا ہوں کہ وہ بات میں کیسے کرگیا تھا؟ پھر احساس ہوا دراصل جب بندے کا درد بڑھتا ہے غم بڑھتا ہے اور اس کا اللہ سے التجا کرنا عرش کو متوجہ یعنی عرش والے کو متوجہ کرتا ہے تو میرا اللہ کسی کو ذریعہ بنادیتا ہے شاید اللہ نے مجھے ذریعہ بنانا تھا۔باباجی ! آپ مایوس نہ ہوں‘ صرف سورۂ والشمس پڑھیں: میں منہ سے بولنا شروع ہوا کہ بابا جی! آپ مایوس نہ ہوں‘ مجھے اللہ نے آپ کی مدد کیلئے بھیجا ہے‘ میں صبح چاشت سے غروب آفتاب تک آپ کے پیچھے رہا میں نے اس کونشانیاں دیں فلاں جگہ سے گزرے فلاںجگہ یہ صدا لگائیں اور آپ مسلسل صدا لگارہے تھے میں اور میں آپ کی صدائیں سن رہا تھا اور میں مسلسل پیچھے چل رہا تھا اور جب آپ درخت کے نیچے آکر بیٹھے اور آپ نے درد بھری آوازوں سے جو اللہ کواپنا درد سنایا میں اس غم کو بھی سنتا رہا۔ باباجی آپ مایوس نہ ہوں آپ صرف اور صرف سورۂ شمس پڑھیں ۔خود بھی اور تمام گھر والے بھی ورنہ جتنے زیادہ سے زیادہ لوگ گھر والے پڑھ سکیں‘ بابا جی بہت زیادہ پڑھیں اور کم از کم سورۂ شمس چالیس دفعہ صبح و شام یا ایک بار چالیس مرتبہ ایک دن میں۔ سورۂ شمس پڑھیں بیٹا بھی ملے گااور پوتا بھی۔۔۔:اب یہ کتنے دن پڑھنا ہے یہ مجھ سے نہ پوچھیں جب تک مراد حاصل نہ ہو مسلسل پڑھتے رہیں اس سورت کو مسلسل دن رات پڑھتے رہیں‘ انشاء اللہ! آپ کی مراد پوری ہوگی‘ آپ کو بیٹا ملے گا آپ کو پوتا ملے گا جو آپ کے منہ میں لقمہ ڈالے گا بابا جی پھٹی پھٹی آنکھوں سے مجھے دیکھ رہے تھے‘ وہ مالدار بوڑھا پھٹی پھٹی آنکھوں سےمیری باتیں سن رہا تھا اسے کا انداز یہ تھا کہ اس یقین نہیں آرہا تھا کہ میری بھی مدد ہوسکتی ہے‘ میری صدا پر بھی کوئی امداد دینے والا ہے مجھے کہنے لگا آپ جو کہہ رہے ہیں سچ کہہ رہے ہیں میں نے یقین دلاتے ہوئے کہا کہ یہ سچ ہے کہ مجھے آپ کی مدد کیلئے بھیجا گیا۔میری آپ کی خدمت کیلئے باقاعدہ ڈیوٹی لگی آپ میری بات کو سنیںبھی‘ سمجھیں بھی اور میری بات کو آخر تک پہنچائیں۔میرابارہ سال کا رونا کام آگیا: بابا جی اٹھ کھڑے ہوئے مجھے گلے لگایا چوما اور چیخ چیخ کر رونے لگے اور کہنے لگے بس میرا دل مان گیا ہے میرا کام ہوگیا ‘میرے مال کا وارث مجھے مل گیا اور میری دعائیں پوری ہوگئیں‘ میرا بارہ سال کا رونا‘ میرا ایک ایک آنسو اللہ نے مجھے اس کا صلہ دےدیا میں مطمئن ہوں‘ میں مطمئن ہوں۔ بابا جی وجدانی کیفیات کے ساتھ یہ بات بار بار کہے جارہے تھے میں مطمئن ہوں میں مطمئن ہوں۔ مجھے اطمینان اعتماد اور تسلی ہے آپ کون ہیں؟ میں نے پوچھا بابا جی میرے حق میں دعا کیجئے گا میں تو آپ کی خدمت کیلئے آیا ہوں اور میں نے بابا جی کو عمل بتایا اور واپس آگیا ۔ایک دل میں اشتیاق اورشوق تھا کہ کیا ہوا؟ الہامی عمل سے اللہ نے پوتا دلادیا: اس الہامی عمل سے کیا اس کے واقعی بیٹا ہوا یا نہیں ہوا؟ کوئی ایک سال کے بعد میں بابا جی کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے ان کے گھر پہنچا میں نے پھر وہی روپ دھارا جو اس وقت دھارا تھا بابا جی بیٹھے تھے‘ دور سے مجھے پہچان گئے اور مجھے کہنے لگے کیا تم میرے وہی محسن ہو؟ جس نے مجھے اللہ سے پوتا دلا دیا تھا میں تمہیں تلاش کرتا رہا‘ تم کہاں غائب ہوگئے تھے؟ جب میرا بیٹا ہوا میں نے بہت دھوم دھام کی‘ تقریب کی‘ جس میں نوے فیصد غربا دس فیصد میرے رشتے دار اور مالدار تھے‘ اور میں نے ان لوگوں کو کھلایا پلایا غریبوں کو کپڑے دئیے‘ کچھ کو سواریاں لے کر دیں‘ کچھ کو روزگار مہیا کیا‘ کچھ کو رزق کیلئے باقاعدہ وظیفے لگائے اس پوتے کی خوشی میں۔ پھربابا جی اٹھےاور اپنےغلام کو آواز لگائی‘ اور پوتے کو باہر لایا خوبصورت ایک چھوٹا سا گول مٹول بچہ میں نے اس کو لیا چوما‘ اس کی بلائیں لیں‘ حفاظت کی دعائیں پڑھیں‘ ذکر تسبیحات کرکے ان کیلئے اور پھر اس کو ان کی جھولی میں ڈال دیا۔یٹوں کے خواہش مند افراد کو جن نے دیا الہامی وظیفہ: باباجی بہت خوش تھے انہوں نے میرے لیے بہت بہترین کھانے منگوائے اور مجھے حکم دیا کہ کھائے بغیر نہیں جانا‘ میں ان کو ساتھ اور وہ مجھے ساتھ لیے اپنے بہت بڑے مہمان خانے میں گئے‘ مہمان خانہ میں میرے لیے بہت بہترین چادریں بچھائی گئیں‘ تکیے لگائے گئے‘ اعلیٰ قسم کی چیزیں اہتمام کی‘ وہ بار بار ایک بات کہتے تھے کہ لوگو آؤ دیکھو یہی وہ شخص ہے جس کے ذریعے اللہ نے مجھے میرا وارث دیا۔ اسی اثنا میں بہت سے لوگوںبھی اکٹھے ہوگئے ان میں بیشتر ایسے تھے جو بے اولاد تھے‘ اور ان کی اولاد نہیں تھی‘ میں نے ان سب کو یہی عمل بتایا‘ سارے یہ عمل سن کر حیران ہوئے‘ میں نے بابا جی سے کہا آپ ہی انہیں یہ عمل بتادیں۔ کہنے لگے سچ پوچھو میں نے خیال نہیں کیا مجھے یادنہیں رہا۔ انہوں نے مجھ سے سوال نہیں کیا بس میں اتنا کہتا تھا کہ کوئی اللہ کی طرف سے ایک نیک بندہ حضرت خضر کی صورت بن کر آیا تھا اس نے مجھے بتایا تھا اللہ نے مجھے دیا میں نے دن رات پڑھا اور زور و شور سےپڑھا اور بہت زیادہ روتے ہوئے پڑھا اس کی وجہ سے اللہ پاک نے مجھے بیٹے والی یعنی پوتے والی نعمت عطا فرمائی۔ ان سب کو جتنے لوگ بھی آئے ہوئے تھے سب کو میں نے سورۂ شمس کے بارے میں بتایا اور اتنا ساتھ اضافہ کیا کہ یقین سےپڑھیے ‘بے یقینی سے نہ پڑھیے‘ اعتماد سے پڑھیں بے اعتمادی سے نہ پڑھیں اور ان سب کو کہا کہ اس کو مسلسل پڑھتے رہیں انشاء اللہ اس کے پڑھنے سے آپ کو ضرور بالضرور اولاد نصیب ہوگی اور بیٹا نصیب ہوگا۔ جس جس نے سورۂ والشمس کا وظیفہ کیا اللہ نے اولاد اور بیٹوں سے نوازا: بابا جی نے مجھے بہت تحائف دے کر رخصت کیا جو کہ میں نہیں لینا چاہتا تھا لیکن ان کے اصرار کہ میں ان سے تحائف لوں اور وہ باقاعدہ اپنے گھر جاکر گھروالوں کا بھی شکریہ ادا کروں۔ اب مجھے اگلا اشتیاق تھا کہ جن کو میں نے وہ عمل بتایا کیا ان کا بھی کام ہوا‘ یہ عمل میری زندگی میں پہلی دفعہ مجھے الہامی ملا تھا جو کہ میں پہلے آپ سے کہہ چکا اب اس الہامی عمل کیلئے میں پھر گیا جتنے لوگوں کو میں نے بتایا تھا سب لوگوں نے یہ عمل کیا‘ اور جتنوں نے بھی کیا اللہ پاک نے سب کو بیٹوں والی نعمت سے نوازا۔ ہاں ایک بندہ ایسا تھا جس کو اللہ نے بیٹی والی نعمت عطا فرمائی لیکن کوئی بے اولاد نہ ملا۔ سب کی اولاد ہوئی‘ سب خوش تھے۔ سب راضی تھے‘ اور سب اللہ کے سامنے سربسجود تھے۔بے اولادی ‘ بانجھ پن اور بیٹوں کی کمی کیلئے قابل رشک عمل: بے اولادی کیلئے‘ بانجھ پن کیلئے‘ بیٹوں کی کمی کیلئے نسلوں کی کمی کیلئے یہ عمل بہت بہت اور بہت زیادہ بہت ہی زیادہ قابل رشک ہے‘ اس عمل سے اللہ کی رحمت اللہ کا فضل اور اللہ کا کرم متوجہ ہوتا ہے اور اس عمل سے حیرت انگیز نتائج اور حیرت انگیز رزلٹ ملتے ہیں۔ حاجی صاحب نے یہ واقعہ سنایا ہم سب حیران اور بہت زیادہ حیران کہ اب تک بزرگ عالم جن نے واقعہ سنایا اوروں نے بھی سنائے لیکن اب سب سے زیادہ حیرت انگیز واقعہ حاجی صاحب نے سنایا اور حاجی صاحب فرمانے لگے اس دن سے لے کر آج تک مجھے کوئی بھی شخص ملے جس کی اولاد نہ ہو جس کی نسلیں نہ ہوں میں نےان سب کو یہی عمل بتایا اور تاکید کی کہ گھر کے سارے افراد ورنہ جتنے زیادہ افراد پڑھ سکیںاس کو ضرور پڑھیں اور یہ عمل بہت کمال کا عمل ہے اس عمل کی بہت تاثیر ہے جب واقعہ ختم ہوا۔صحابی بابا نے بتائے حیرت انگیز سربستہ راز جسے آج تک کوئی نہ پاسکا: میں نے صحابی بابا سے پھر اپنا پرانا سوال دہرایا کہ بابا جی آپ پھر اپنی شفقت فرمائیں اور ہمیں وہ پراسرار زندگی کی پراسرار کیفیتیں بتائیں اور ہمیں وہ زندگی کے حیرت انگیز سربستہ راز بتائیں جو کائنات میں آج تک چھپے ہوئے ہیں اور کوئی شخص ان کو پانہیں سکا‘ وہ چیزیں بتائیں جس کو آج تک لوگوں نے کوشش تو کی لیکن کامیاب نہ ہوسکےتو صحابی بابا نے پراسرار چیزیں بتاتے ہوئے عجیب بات فرمائی فرمانے لگے۔سمندر کی تہہ میں موجود مخلوق سے ملاقات: میں نے ایک دفعہ اللہ تعالیٰ سے عرض کیا: یااللہ! مجھے سمندر کی تہہ میں اگر کوئی بھی مخلوق زندہ ہے جانور اور مچھلیوں کے علاوہ تو دکھادے تو مجھے حکم ملا کہ آپ سمندر کی طرف چلیں اور سمندر کی طرف بڑھیں‘ میں حسب حکم سمندر کی طرف چل پڑا‘ آگے گیا تو ایک ملاح موجود تھا جس نے مجھے اپنی کشتی میں بیٹھنے کا اشارہ کیا‘ میں اس کی کشتی میں بیٹھ گیا‘ بہت بڑی کشتی اکیلا ملاح اور میں‘ اور رات خوفناک سیاہ‘ سناٹا‘ سمندر‘ مگرمیں گھبرایا نہیں‘ لیکن حیران ضرور تھا کہ اللہ کو کیا منظور اور میرے رب کی کیا قدرت اور میرے رب کی کیا چاہت۔ میں یہ ساری چیزیں سوچتا ہوا جارہا تھا اور سوچتے سوچتے میں حیرت میں سفر کررہا تھا۔ کئی گھنٹے سفر کے بعد اور حالانکہ کئی گھنٹوں میں وہ کشتی بجلی کی رفتار سے چل رہی تھی‘ ایک جگہ کشتی رک گئی اور ملاح مجھے سلام کرکے پانی میں اترا اور غائب ہوگیا اب بیچ سمندر کے میں تنہا اور کشتی۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں