اسلام کا ہر ہر اصول حکمت و دانش کا پہلو رکھتا ہے‘ یوم مسرت ہو یا غم‘ خوشی ہو یا الم‘ ہر موقع، ہر لمحہ جبھی با مقصد کہلائے گا جب خالق و مالک کو یاد کیا جائے‘ مسجودِ حقیقی کو یاد کیا جائے‘ اپنے پروردگار کو یاد کیا جائے‘ پالن ہار کو یاد کیا جائے‘ اس کا شکرادا کیا جائے۔
عید الفطر دراصل بہت سی خوشیوں کا مجموعہ ہے۔ ایک رمضان المبارک کے روزوں کی خوشی، دوسری قیام شب ہائے رمضان کی خوشی، تیسری نزول قرآن، چوتھی لیلۃ القدر اور پانچویں اللہ تعالیٰ کی طرف سے روزہ داروں کے لئے رحمت و بخشش اور عذاب جہنم سے آزادی کی خوشی۔ پھر ان تمام خوشیوں کا اظہار صدقہ و خیرات جسے صدقہ فطر کہا جاتا ہے، کے ذریعے کرنے کا حکم ہے تاکہ عبادت کے ساتھ انفاق و خیرات کا عمل بھی شریک ہو جائے۔ یہی وہ وجوہات ہیں جن کی بناء پر اسے مومنوں کے لئے ’’خوشی کا دن‘‘ قرار دیا گیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عید کا دن خوشی و مسرت کا دن ہے لیکن اس کایہ مطلب ہرگز نہیں کہ جو آپ کے دل میں آئے وہ آپ کر گزریں۔ اکثر لوگ عید کے دن کو تفریح اور خوشی و مسرت کا دن قرار دے کر شرعی حدود کو پامال کرتے ہیں، جن میں مرد وعورت دونوں شامل ہیں۔یعنی سارا رمضان روزے رکھے اور چاند رات کو ہی شاپنگ کے نام پر ساری رات بازاروں میں گھومتے ہیں وہ رات جو کہ انعام کی رات ہوتی ہے‘ مزدور کو مزدوری ملنے کی رات ہوتی ہے اس رات ہم اللہ کی ناراضگی مول لے لیتے ہیں۔عید کے دن اکثر لوگ یا تو سارا دن گھر پر بیٹھ مختلف چینلز پر لگے حیاز سوز پروگرامز دیکھتے ہیں‘ فلمیں دیکھتے ہیں یا پھر شام کو سینما گھروں میں جاکر ’’عید کی خوشی‘‘ مناتے ہیں۔بعض ہماری بہنیں سارا دن گھر میں ٹی وی پر میوزک سنتی ہیں۔حالانکہ یہ دن مغفرت و انعام ہے مگر ہم اسی دن اللہ کی شدید ناراضگی مول لے لیتے ہیں۔
بے پردہ ہو کر گھومنا:عید کے دنوں میں بہت سارے مرد اپنی بے پردہ خواتین کے ساتھ گھروں سے نکلتے ہیں۔ بے پردہ خواتین خوب سج دھج کر بازاروں‘ مارکیٹوں اورپارکوں میں جاتی ہیں اور بہت سے لوگوں کو فتنے میں مبتلا کرتی ہیں جبکہ اللہ اور اس کے رسولﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے اور عورتوں کو پردے کے بغیر گھروں سے نکلنے کی اجازت نہیں دی۔
فرمان الٰہی ہے: وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاھِلِیَّۃِ الْاُوْلٰی ’’ اور اپنے گھروں میں ٹک کر رہو اور قدیم زمانۂ جاہلیت کی طرح بنائو سنگھار کا اظہار مت کرو۔ ‘‘ (احزاب33:33)رسول اللہ ﷺکا ارشاد گرامی ہے: ’’عورت ستر (چھپانے کی چیز) ہے۔ اس لیے جب وہ گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اس کی تاک میں رہتا ہے اور وہ اپنے رب کی رحمت کے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتی ہے جب وہ اپنے گھر کے اندر ہوتی ہے۔ ‘‘ (صحیح ابن حبان: 5591)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’ جو عورت خوشبو لگا کر لوگوں کے پاس سے گزرتی ہے تاکہ وہ اس کی خوشبو محسوس کر سکیں تو وہ بدکار عورت ہے۔‘‘ ۔سنن أبی داود:4167
اسلام کا ہر ہر اصول حکمت و دانش کا پہلو رکھتا ہے‘ یوم مسرت ہو یا غم‘ خوشی ہو یا الم‘ ہر موقع، ہر لمحہ جبھی با مقصد کہلائے گا جب خالق و مالک کو یاد کیا جائے‘ مسجودِ حقیقی کو یاد کیا جائے‘ اپنے پروردگار کو یاد کیا جائے‘ پالن ہار کو یاد کیا جائے‘ اس کا شکرادا کیا جائے۔ ”عید“ منانے کا مقصد منعم حقیقی کا شکر بجا لانا ہے۔ اس کی نعمتوں کی عطا کی یاد تازہ کرنا ہے‘ اس کے کرم کا احسان ماننا ہے‘ اس کی نوازش کا دوگانہ ادا کرنا ہے‘اس کی عطا کا چرچا کرنا ہے‘
اسی کا فرمان ذی شان ہے:۔
وَاِن تَعُدُّوا نِعمَةَ اللّٰہِ لَا تُحصُوھَا (سورة النحل 18) اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو شمار نہیں کر سکتے‘. ہم ان نعمتوں کے ملنے پر احسانِ رب العالمین کا
تذکرہ تو کر سکتے ہیں۔
خوشی منانا سرشت انسانی کا لازمہ ہے‘ فطرت کا خاصہ ہے‘ عقل بھی اس کی تائید کرتی ہے۔ لیکن یہ سوال ہے کہ یہ کس طرح منائی جائے؟ اس کا پس منظر دیکھنا ہو گا۔ عید الفطر مسلمانوں کی عید ہے۔رمضان کو لیجئے جس کا پس منظر یوں ہے کہ اس ماہ میں روزے رکھے جاتے ہیں‘ روزے سے نفس کو لگام لگتی ہے‘ روزے سے فکری آوارگی دور ہوتی ہے۔ روزے سے تقوے کا حصول ہوتا ہے اور ذہن کے غبار دھلتے ہیں۔ کدورتیں دور ہوتی ہیں۔ اس کے سائنسی فوائد بھی ہیں اور روحانی و جسمانی بھی‘ تراویح، نمازوں کا اہتمام، تلاوتوں کی بہاریں یہ سب من کی دنیا کو مہکا جاتے ہیں‘ گناہوں کو مٹا دیتے ہیںاور اللہ کریم کا خوف خیالات کو پاکیزہ بنا دیتا ہےپھر ہلالِ عید نمودار ہوتا ہے۔
عید کا پس منظر یہی ہے کہ خوشی منائی جائے! لیکن اسلامی شان کے ساتھ۔سرور کائنات حبیب کبریا ﷺ کے احکام کے ساتھ‘رب کی رضا کے ساتھ‘ شریعت کی پابندی کے ساتھ‘ اعمالِ صالحہ کی تابندگی کے ساتھ‘ غریبوں کی خوشنودی کے ساتھ‘ مساکین کی دل جوئی کے ساتھ‘ مفلسوں کی مدد کے ساتھ۔نہ کہ تکبر کے ساتھ بلکہ خلوص کے ساتھ‘ للّٰہیت کے ساتھ‘محبت کے ساتھ‘ مروت کے ساتھ‘ حیا کے ساتھ‘شفقت کے ساتھ‘ تب بشارتوں کا آفتاب طلوع ہوگا اور گنبد خضرا سے نسیم سحر چلے گی‘ دل کی کلیاں کھلیں گی‘ من کی دنیا مہکے گی‘فضا روشن ہو اٹھے گی۔ تب پریشانیاں‘ تنگدستیاں‘ بیماریاں‘ گھریلو الجھنیں‘ الجھے روگ‘ غم ختم ہوں گے جب ہم سنت نبویﷺ پر چلتے ہوئے اپنے تہوار منائیں گے۔
امید ہے کہ قارئین اپنی اصلاح کی کوشش کریں گی اور ان عملی کوتاہیوں کو دور کریں گی۔ اللہ انہیں توفیق دے اور نیکی کے لیے ان کی کوشش و کاوش کو قبول فرما لے۔ آمین!۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں