ہم سٹیکر سے آم کا عیب چھپا کر بیچتے ہیں۔ کیا بنے گا ہمارا۔۔۔؟ عبقری کے ہی ایک شمارے میں پڑھا تھا کہ ایک صاحب جو کپڑا بیچتے تھے وہ بادل اور اندھیری میں جب روشنی کم ہوتی ہے اس روز کپڑا بیچنے نہیں نکلتے تھے کہ لوگ اس مال کو ٹھیک سے دیکھ نہیں سکیں گے۔
الحمدللہ! اللہ تعالیٰ نے زندگی دی اور آپ لوگوں کے ساتھ ہم نے بھی سال 2014ء کا رمضان گزارا۔ مسجدوں میں وہی منظر اور ترتیب رہی جوکہ ہمیشہ سے ہے کہ پہلے پانچ یا چھ روزے فل رش رہا اس کے بعد نمازی تیزی سے کم ہونے لگے اور آخری دس دنوں میں ایک بار میں نے دیکھا کہ نو عدد نوجوان لڑکے اپنے ایک دوست کی گاڑی کو جو سٹارٹ نہیں ہورہی تھی اسے سٹارٹ کرنے کیلئے جتے ہوئے تھے‘ کوئی ساڑھے تین بجے سے وہ اسی کام پر لگ گئے تھے ہر کوئی مکینک بن رہا تھا‘ ہر کوئی مشورہ دے رہا تھا‘ ہر کوئی حصہ ڈال رہا تھا حتیٰ کہ میں عصر کی نماز جماعت سے پڑھ کر واپس آیا تو واپسی پر انہیں وہیں کھڑے ہنسی مذاق کرتے اور گاڑی پر جھکے دیکھا۔ کسی کے دل میں ذرا خیال نہیں آیا کہ میں رمضان کے مہینے میں یہاں وقت ضائع کررہا ہوں اور عصر کی جماعت فوت ہورہی ہے۔
تب اللہ تعالیٰ کا وہ فرمان بڑا یاد آیا :۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ والعصر ان الانسان لفی خسر
عصر کے وقت کی قسم یا (گزرتے وقت کی قسم) تحقیق انسان خسارے میں ہے۔
ایک صاحب کو میں نے بارہا دیکھا کہ ہم مغرب کی نماز پڑھ کر واپس جارہے ہوتے تو وہ ہمیں ایک کونے میں چھپ کر سگریٹ پیتے نظر آتے۔ شاید گھر والوں سے چھپ کر افطاری کے بعد نشہ پورا کررہے ہوتے تھے۔ ایک بار میں تروایح پڑھ کر گھر جارہا تھا کہ ایک گھر کے باہر بہن بھائی کھیل رہے تھے’ چھوٹے بچے نے اچانک معصومیت سے پوچھا انکل آپ کہاں سے آرہے ہیں؟ میں نے جواب دیا میں تروایح پڑھ کر آرہا ہوں۔ بچہ اپنی بہن سے کہنے لگے ’’تو پھر ہمارے ابو کیوں تروایح پڑھنے نہیں جاتے‘‘۔ بہن بولی وہ ٹی وی جو دیکھتے رہتے ہیں۔ ایک صاحب نے سارا رمضان کبھی تروایح نہیں پڑھی۔ ایک روز میں پوچھ بیٹھا کہ آپ تروایح کیلئے کیوں نہیں آتے۔ ان کا جواب سنیں بولے ’’میرے مسلک کی مسجد بہت دور ہے میں وہاں جا نہیں سکتا اس لئے اس مسجد میں نہیں آتا‘‘۔ واہ مزا آگیا جواب سن کر آپ کو مزہ آیا؟ رمضان کے مہینے میں مَیں ہر شام عصر کی نماز پڑھ کر پھل وغیرہ لینے بازار جاتا۔ خصوصاً میں نے آم خریدنے ہوتے تھے۔ ہر روز میری دکانداروں سے بحث اور تلخ کلامی ہوتی تھی۔ وجہ سنیں ہر دکاندار کا حال یہ تھا کہ ان کے دو مطالبے ہوتے تھے جو میں کبھی نہیں مانتا تھا اور نتیجتاً بحث مباحثہ ہوتا ان کا مطالبہ نمبر ایک یہ ہوتا ’’قیمت ہم اپنی مرضی کی لیں گے۔ مطالبہ نمبردو آپ پھل کو ہاتھ بھی نہ لگائیں جو ہمارا دل کرے گا ہم دیں گے‘ بڑے اور اچھے آم کو وہ ہاتھ بھی نہیں لگانے دیتے اور خود سوراخ والا یا چھوٹے اور نرم آم اٹھا اٹھا کر ڈالتے۔ اتنے ایماندار لوگ تھے کہ جس آم میں سوراخ ہوتا اسے خوبصورت چھوٹا سٹیکر لگاکر چھپایا ہوتا تھا۔
کیا ہم انہی بزرگوں کے پیروکار ہیں جن میں امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ بھی گزرے ہیں جو اپنے شاگرد کو منع کرکے گئے تھے کہ اس کپڑے کے تھان میں ایک معمولی سوراخ ہے اس لئے اسے بیچنا نہیں اور خود کسی کام سے چلے گئے واپس آئے تو شاگرد بھول کر وہ تھان بیچ چکا تھا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کو بہت افسوس ہوا۔ گھوڑے پر گئے اور کئی گھنٹے ڈھونڈ کر اس آدمی کو تلاش کیا اور اس سے معافی مانگی اور فرمایا کہ لائیں وہ کپڑا واپس کرکے اپنے پیسے واپس لے لیں۔ وہ آدمی سخت متاثر ہوا اور کہنے لگا حضور ’میں راضی میرا رب راضی‘ مجھے کوئی اعتراض نہیں‘ آپ جائیں مگر حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ نہیں میں نے عیب والی چیز بیچنی ہی نہیں۔ بہت اصرار کے بعد کپڑا واپس لے گئے اور ہم سٹیکر سے آم کا عیب چھپا کر بیچتے ہیں۔ کیا بنے گا ہمارا۔۔۔؟ عبقری کے ہی ایک شمارے میں پڑھا تھا کہ ایک صاحب جو کپڑا بیچتے تھے وہ بادل اور اندھیرے میں جب روشنی کم ہوتی ہے اس روز کپڑا بیچنے نہیں نکلتے تھے کہ لوگ اس مال کو ٹھیک سے دیکھ نہیں سکیں گے۔
22 رمضان المبارک کی دوپہر مجھے لالہ موسیٰ تک جانا پڑا۔ ویگن اڈے پر پہنچا تو انتہائی سخت گرمی تھی وہاں بغیر اے سی والی ویگن 220 روپے کرایہ لے رہی تھیں اور اے سی والی ویگن 280 روپے کرایہ مانگ رہی تھی۔ میں اور دیگر مسافر سہولت کیلئے فوراً اے سی والی گاڑی کا کرایہ دے کر بیٹھ گئے۔ ڈرائیور اے سی آن نہیں کررہا تھا۔ سواریاں چیخیں کہ اے سی آن کرو تو پہلا بہانہ کیا کہ یہاں دھوپ سیدھی پڑ رہی ہے‘ گاڑی اڈے سے نکلتی ہے تو آن کرتا ہوں‘ لوگ چپ ہوگئے۔ ذرا دیر بعد گاڑی چل پڑی جس نے بھی کرایہ دینا تھا وہ تو اڈے پر دے چکا تھا‘ گاڑی اڈے سے نکل گئی تو اس نے اے سی نامی چیز کو آن کیا۔ دو منٹ تو لوگوں نے صبر کیا پھر سب کو اندازہ ہوگیا کہ اے سی حبس اور گرم ہوا پھینک رہا ہے۔ سواریاں بولیں ڈرائیور صاحب اے سی تو ٹھنڈا نہیں کررہا؟ ڈرائیور انتہائی بدتمیزی سے بولا اتنی جلدی گاڑی ٹھنڈی نہیں ہوتی جس نے اترنا ہے وہ اتر جائے۔ کوئی پاگل تھا کہ اکیلا چار پانچ میل واپس جاتا اور کس نے کرایہ واپس کرنا تھا۔ تو جناب۔۔۔!!! لالہ موسیٰ تک اے سی نے کام نہیں کیا۔ اے سی ٹھیک ہوتا تو کام کرتا۔ آدھے یا پونے گھنٹے بعد لوگوں نے تنگ آکر کھڑکیاں کھول لیں۔ باہر سے آنے والی گرم ہوا اندر کے حبس سے کہیں بہتر تھی۔ کیا ویگن والوں کیلئے یہ رمضان نہیں تھا، کیا انہیں رمضان میں مغفرت اور رحمت کی ضرورت نہیں تھی؟ ضرورت تو ہوگی مگر شاید رحمت اور مغفرت سے زیادہ انہیں کیش کی ضرورت تھی۔ کیا رمضان نے ہماری زندگیوں پر کوئی مثبت اثر نہیں ڈالا؟ کیا یہ رمضان بھی ہمارے لئے عام مہینوں جیسا ایک مہینہ تھا۔ کیا عالموں کی تقریروں نے، خطیبوں کے خطبوں نے، مصنفوں کی تحریروں نے، علماء شعلہ بیان کی ولولہ انگیز تقریروں نے ہمارے اندر ذرا بھی تبدیلی پیدا نہیں کی؟ کیا اپنے پیاروں کو اپنے سامنے دفن ہوتا دیکھ کر، کیا نوجوان لوگوں کو اچانک مرتا دیکھ کر ہمارا دل نہیں پگھلتا، کیا تبلیغیوں کی تبلیغ نے، کیا نعت خوانوں کی نعت خوانی نے، کیا میلاد کی محفلوں نے ، کیا پیروں کی بیعت نے، کسی چیز نے ہمارے معاشرے کو تبدیل نہیں کیا؟ آخر کیوں؟29 جولائی کو عید تھی 28 جولائی کو رمضان شریف ختم ہوا۔ چاند رات سے لے کر یعنی 28 جولائی سے لے کر 31 جولائی تک صرف چاردن کے چند ایک واقعات جوکہ یکم اگست کے روزناموں میں شائع ہوئے ہیں وہ آپ ضرور پڑھیں کیونکہ صرف چاند رات اور عید والے دن پورے پاکستان میں سینکڑوں قتل‘ خودکشیاں اور ڈکیتیاں ہوئیں۔۔۔ اور اپنے ذہن میں ایک تصویر بنائیں کہ رمضان ختم ہوتے ہی ہم نے کیا شروع کردیا؟ یہ تفصیلات ایک بار ضرور پڑھیں صرف یہ اندازہ لگانے کیلئے کہ کیا رمضان ہماری زندگیوں میں ذرا بھی تبدیلی نہیں لارہا؟ آخر کیوں۔۔۔؟؟؟
یہ ضرور یاد رکھیں کہ جو اخبارات میں چھپتا ہے وہ
پوری دیگ کے چند دانے ہوتے ہیں۔ تو اب یکم اگست تک رپورٹ ہونے والے صرف چار دن کے واقعات پڑھیں اور یہ چار دن رمضان کے فوراً بعد کے ہیں۔
یہ لگانا رسالے کیلئے موضوع نہیں ہے
۔1۔ مناواں میں عید کے دوسرے روز طارق عرف تارا نے اپنی بیوی چار بچوں کی ماں نسیم بی بی کو آہنی راڈ اور اینٹیں مار کر ہلاک کردیا۔ 2۔ پسرور میں خالہ کے گھر آئے 22 سالہ طالب علم معظم کو قتل کردیا گیا۔3۔ رائیونڈ میں نامعلوم افراد نے 35 سالہ عورت کو قتل کرکے لاش بوری میں بند کرکے پھینک دی۔ 4۔ غازی آباد میں جائیداد کے تنازع پر بھتیجے الطاف نے ساتھیوں مشتاق اور مقصود کے ساتھ مل کر اپنے چچا عبدالرزاق کو فائرنگ اور چھریوں کے وار کرکے قتل کردیا۔5۔ فیکٹری ایریا میں عید سے پہلے محلے داروں کے ہاتھوں زخمی ہونے والا 35 سالہ الطاف عید کے روز دم توڑ گیا۔6۔ شادباغ میں ملزموں نے فائرنگ کرکے 31 سالہ شخص کو قتل کردیا۔7۔ پاکپتن میں موبائل پر بہن کی گفتگو ریکارڈ کرنے پر مظہرہ وغیرہ تین افراد نے حمام پر بیٹھے تین افراد پر حملہ کردیا۔ کلہاڑوں اور ڈنڈوں کے وار سے ثناء اللہ اور سبحان شدید زخمی ہوگئے۔ ملزمان تیسرے شخص اقبال کے گلے میں پھندا ڈال کر گھسیٹ کر باہر لائے اور اس کے نازک حصوں پر تشدد کیا جس سے اقبال ہلاک ہوگیا۔8۔ اوکاڑہ میں سعدیہ کے ماں باپ نے اس کی منگنی آصف کردی مگر سعدیہ کہیں اور شادی کرنا چاہتی تھی اسی بات پر آصف نے فائرنگ کرکے سعدیہ کو ہلاک کردیا۔9۔ اوکاڑہ میں باپ نے بیٹے سے مل کر اپنی بیوی(جو اسی بیٹے کی ماں تھی) اسے ٹوکے کے وار کرکے ہلاک کردیا۔ گھر میں جھگڑا ہوا تو بیٹا بھی ماں کو سمجھاتا رہا جب جھگڑا طویل ہوا تو باپ بیٹے نے کوثر کو ہلاک کردیا۔10۔ حویلی لکھا میں ماموں نے بھانجے کو فصلوں میں پانی لگانے سے منع کیا تو بھانجے اقبال نے فائرنگ کرکے سگے ماموں اللہ یار کو ہلاک کردیا۔ 11۔ چیچہ وطنی میں ذوالفقار سویا ہوا تھا کہ نامعلوم افراد نے اسے اٹھا کر تشدد کیا رسیوں سے باندھ دیا پھر بجلی کا کرنٹ لگاکر ہلاک کردیا۔12۔ بچیکی میں مخالفوں نے فائرنگ کردی جس کی زد میں آکر راہ جاتا نوجوان جاں بحق اور عورت سمیت تین افراد شدید زخمی ہوگئے۔ یہ واقع چاند رات کو ہوا تھا۔13۔ گرین ٹائون میں چار افراد شراب پی کر عورتوں کو چھیڑ رہے تھے انہیں ایڈووکیٹ نعمان نے منع کیا تو ملزموں نے چھریاں مار کر وکیل کو زخمی کردیا۔14۔ آخری روز کے دن سفاک قاتلوں نے آموں کے باغ میں 6 سالہ بچی کے ساتھ زیادتی کرکے اسے قتل کردیا۔ 15۔ شہر کے مختلف علاقوں سے تین خواتین کو اغواء کرلیا گیا۔ 16۔ چاند رات کو اقبال ٹائون لاہور ستلج بلاک میں پراپرٹی کے جھگڑے پر فائرنگ کرکے سالے بہنوئی کو تین افراد نے قتل کردیا۔ قتل ہونے والوں کو عید کے روز سپرد خاک کردیا گیا۔ مرنے والوں نے دو سال قبل مکان خریدا تھا مگر مارنے والوں نے آج تک مکان کا قبضہ نہیں چھوڑا تھا۔ 17۔ پاکپتن میں بیٹی کے نکاح کے تنازع پر چار افراد نے فائرنگ کرکے کاشتکار کو زخمی کردیا۔18۔ پاکپتن میں دوستوں کے ساتھ زہریلی شراب پی کر سرفراز ہلاک ہوگیا۔19۔ گوجرہ میں مخالفین کی فائرنگ سے ایک سالہ بچی عدن سر میں گولی لگنے سے شدید زخمی ہوگئی۔
یہ واقعات صرف پنجاب کے ہیں سندھ خیبرپختونخوا بلوچستان کشمیر اور گلگت بلتستان میں جو ہوا ہوگا اس کا کوئی علم نہیں۔
اب یہ سارے واقعات پڑھنے کے بعد دل پر ہاتھ رکھ کر ذرا تصور کریں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کا جو آپ نے کئی دفعہ پڑھا اور سنا ہے جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ فرشتے نے کہا کہ ہلاک ہوجائے وہ شخص جس کو رمضان ملا اور وہ اپنی بخشش نہ کرواسکا۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں کا یہ واقعہ مشہور ہے کہ ایک بار وہاں خشک سالی ہوگئی بارش کی بہت سخت ضرورت تھی لوگوں نے امام صاحب سے کہا کہ نماز استسقا پڑھائیں تاکہ اللہ تعالیٰ بارش ڈال دے، ہم لوگ بہت تکلیف میں ہیں۔ مولی صاحب بہت نیک آدمی تھے وہ نماز پڑھانے کیلئے مصلے پر آئے پیچھے ڈیڑھ دو سو آدمی کھڑے تھے۔ مولوی صاحب نے نماز شروع کروانے سے پہلے اعلان کیا کہ جس کی بھی نہایت قیمتی گھڑی گم ہوگئی ہو وہ شخص نشانی بتاکر پہلے مجھ سے گھڑی لے جائے۔ باری باری 70آدمی نکلے مگر کسی نے صحیح نشانی نہیں بتائی اور نہ کسی کو گھڑی دی گئی۔ جب لوگ آنے بند ہوگئے تو مولوی صاحب بولے آپ لوگوں پر رحمت کی بارش کی بجائے پتھر نہیں برسنے چاہئیں؟ آپ میں سے 70 آدمیوں نے گھڑی لینے کیلئے جھوٹ بولا۔ اصل میں نہ کوئی گھڑی گمی تھی نہ مجھے ملی ہے۔ میں تو آپ لوگوں کا امتحان لے رہا تھا۔تو جو رمضان گزر گیا اس میں کتنی دعائیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں