ان کے مجذوبانہ حال کی وجہ سے بادشاہ ہارون الرشید ان سے دلی عقیدت مندی کے باوجود دل لگی کرلیتا تھا مگر بادشاہ کے دل میں شاہ بہلول کا بڑا احترام تھا۔ انہوں نے اپنے درباریوں کو حکم جاری کیا تھا کہ شاہ بہلول کسی بھی وقت آئیں ان کو روکا نہ جائے بلکہ میرے پاس بلالیا جائے۔ ایک روز ہارون الرشید دربار میں بیٹھا تھا کہ شاہ بہلول آگئے۔ بادشاہ کو حسب معمول مزاح کی سوجھی۔ اس کے ہاتھ میں ایک خوبصورت چھڑی تھی‘ اس نے وہ شاہ بہلول کو دی اور کہا کہ اگر آپ کو اپنے سے زیادہ کوئی بے وقوف آدمی مل جائے تو یہ چھڑی آپ اس کو دے دیں۔ شاہ بہلول نے وہ چھڑی بڑے شوق سے قبول کی اور چل دئیے۔ تین سال کے بعد ہارون الرشید بیمار ہوا اور بستر مرگ پر پہنچ گیا‘ شاہ بہلول عیادت کیلئے تشریف لائے‘ مزاج پرسی کی‘ ہارون الرشید کو اندازہ ہوگیا تھا کہ وقت قریب ہے۔ اس نے کہا کہ مزاج کیا پوچھتے ہو‘ سفر کی تیاری ہے۔ شاہ بہلول نے سوال کیا: کہاں کا سفر درپیش ہے؟ ہارون الرشید نے جواب دیا کہ آخرت کا‘ شاہ بہلول نے پھر سوال کیا کتنے روز کا سفر ہے؟ ہارون الرشید نے جواب دیا: آپ بھی دیوانے ہی رہے‘ بھلا آخرت کے سفر سے بھی کوئی جاکر واپس آتا ہے۔ شاہ بہلول نے پھر سوال کیا؟ کتنا لشکر‘ سامان اور خدمت گزار آگے روانہ کیے؟ بادشاہ نے جواب دیا آپ کیسی احمقانہ بات کرتے ہیں‘ وہاں کے سفر میں کون لشکر سامان اور خدمت گزار بھیج سکتا ہے؟ شاہ بہلول نے اپنی عباء کے اندر سےوہ چھڑی نکالی جو تین سال قبل ہارون الرشید نے انہیں دی تھی اور یہ کہہ کر بادشاہ کو واپس کی کہ آپ کے حکم کی تعمیل میں تین سال سے میں کسی ایسے شخص کو تلاش کررہا تھا جو مجھ سے زیادہ احمق اور بے وقوف ہو مجھے اپنے سے زیادہ آپ کے علاوہ احمق اور بےوقوف آج تک نہیں ملا۔ اس لیے کہ آپ چند دن کے سفر پر جاتے ہیں تو جانے سے پہلے کتنا سامان سفر‘ لشکر اور کتنے خدمت گزار آگے روانہ کرتے ہیں اور آخرت کا اتنا اہم اور طویل بلکہ ہمیشہ کا سفر درپیش تھا آپ نے وہاں کیلئے کچھ بھی انتظام نہیں کیا۔ لہٰذا مجھ سے زیادہ احمق اور بےوقت آپ آج مجھے ملے ہیں۔ میں نے یہ چھڑی آج تک محفوظ رکھی تھی اور آپ کے حکم کی تعمیل میں یہ میں آپ کو دیتا ہوں۔ یہ کہہ کر چھڑی بادشاہ کے حوالہ کی اور چل دئیے۔
ہارون الرشید بہلول مجذوب کی حکیمانہ نصیحت سن کر بلک بلک کررونے لگا اور کہا: بہلول واقعی ہم ساری عمر آپ کو دیوانہ سمجھتے رہے مگر واقعی ہارون الرشید سے زیادہ کون احمق ہوگا جو اتنے اہم سفر کی تیاری سے غافل رہا۔حقیقت یہ ہے کہ انسان کی اس سےزیادہ بے وقوفی اور حماقت کیا ہوگی کہ اتنے اہم اور حقیقی سفر کی تیاری سے غافل رہے جبکہ ایک لمحہ اور ایک سانس کیلئے اس کا اطمینان نہیں کہ یہ سفر نہ جانے کس لمحے درپیش ہوجائے‘ کون بڑے سے بڑا شہنشاہ اور حکیم اس بات کی ضمانت لے سکتا ہے کہ انسان کا جو سانس اندر آگیا اس کے باہر نکلنے تک موت اس کو مہلت دے گی اور جو سانس باہر نکل گیا اس کے اندر آنے تک اس کی زندگی اس سے وفا کرے گی۔ پھر اس دھوکے کی زندگی پربھروسہ کرکے آخرت کے حقیقی گھر کو بھول جانا کیسا دیوانہ پن ہے۔ پیارے نبی کریم ﷺ نے کیسی سچی اور پیاری بات فرمائی: ’’عقل مند انسان وہ ہے جو نفس کو قابو میں رکھے اور مرنے کے بعد کی تیاری کرے۔‘‘اپنے ہاتھوں نہ جانے کتنے انسانوں کو ہم دفن کرتے ہیں۔ اپنی ان ہی آنکھوں کے سامنے کتنے عزیزوں‘ رشتہ داروں‘ دوستوں اور رفقاء کو اس دنیا سے خالی ہاتھ جاتا دیکھتے ہیں مگر پھر بھی اس حقیقی گھر آخرت کی تیاری سے غافل رہ کر اس دنیا کی رنگ و بو میں قیامت تک اس دنیا میں رہنے کی امیدوں کے ساتھ مست رہتےہیں اور اپنی عقل مندی اور دانائی پر فخر کرتے ہیں۔ امام حسن بصری نے کیسی پیاری بات کہی کہ اگر کوئی آدمی یہ نذر مان لے کہ وہ دنیا کے عقل مند ترین لوگوں کی دعوت کرے گا تو اسے زاہد فی الدنیا لوگوں کی دعوت کرکے یہ نذر پوری کرنی پڑے گی۔ اس لیے کہ زاہدین ہی دنیا کےعقل مند ترین لوگ ہیں جو آخرت کی فکر میں دنیا کو نظرانداز کرتے ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں