قارئین! زخم چنبل ہو یا داد، شوگر کا ہو یا کینسر کا، چوٹ کا ہو یا کیڑوں کا، جسم کے کسی حصے میں پرانے سے پرانا زخم جو ناسور،بھگندر، یا فسچولہ کی شکل اختیار کرچکا ہو‘ نہایت آزمودہ سالوں سے نہیں صدیوں سے آزمودہ ایک بہترین مرہم ہے۔ آپ سوچ نہیں سکتے کہ اس کے کتنے کمالات ہیں۔
کینسر کا زخم کتنا دردناک اور شوگر کا زخم کتنا ہولناک ہو‘ آخر اس کا علاج یہی ہوتا ہے کہ اس حصے کو کاٹ دیا جائے کیونکہ کاٹے بغیر اس کا کوئی حل اور علاج نہیں ہے۔ پہلے دور میں سرجری کا کام نائیوں کے پاس ہوتا تھا اور بڑے بڑے گندے زخم بالکل تندرست ہوجاتے تھے۔ حتیٰ کہ انگریز سرجن جب علاج سے تھک جاتے تھے تو وہ کسی گاؤں یا دیہات کے نائی کے پاس اُس مریض کو بھیج دیتے تھے انہیں علم تھا کہ پرانے دور کی بنی ہوئی مرہمیں اس کو تندرست کرسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے قیمتی اوزار اور قیمتی دوائیں اس کا علاج نہیں ہیں۔ یہ مرہم دراصل ایک بہت پرانے نائی کی ہے جو زخموں اور خاص طور پر گندے اور بدبودار زخموں کے معالجے میں بہت بہت مشہور تھا۔ لوگ اس کے پاس بہت اعتماد سے علاج معالجے کے سلسلے میں آتے‘ دور دور سے چارپائیوں پر اٹھا کر حتیٰ کہ ایسے زخم جو گل سڑ چکے ہوتے‘ بدبودار ہوچکے ہوتے اور لوگ حتیٰ کہ گھر والے اس کے قریب نہیں آتے تھے۔ اس کا علاج ایسے انداز سے کرتے کہ زخم جو سالوں میں ٹھیک ہونا ہوتاتھا‘ وہ مہینوں میں اور جو مہینوں میں ٹھیک ہونا ہوتا وہ ہفتوں میں اورجو ہفتوں میں ٹھیک ہونا ہوتا‘ وہ دنوں میں ٹھیک ہوجاتا ہے۔ اپنے فن میں بہت کامل تھے اور صاحب کمال اور بہت ماسٹر تھے۔ یہ بات مجھے اس لیے یاد آئی کہ پچھلے دنوں قارئین کی تحریروں میں ایک تجربہ کار نے اس مرہم کا تذکرہ کیا تو مجھے پھر وہ پرانی باتیں یاد آئیںاور وہ سنے ہوئے تجربات اور مشاہدات ازبر ہونا شروع ہوگئے۔ جی میں خیال آیا کہ کیوں نہ یہ نسخہ اور مرہم کے فوائد اپنے عبقری کے قارئین کیلئے لکھوں اور عبقری قارئین کو اس کا تجربہ بتاؤں۔ ایک صاحب سول سرجن کے پاس گئے شوگر کی وجہ سے فیصلہ یہ ہوا تھا کہ ان کا پاؤں کاٹ دیا جائے‘ زخم بالکل گل چکا تھا حتیٰ کہ گھر والے بھی آہستہ آہستہ ساتھ چھوڑ گئے تھے۔ وہ سنی سنائی پر ان کے پاس مریض کو چارپائی پر لے آئے‘ مریض کے آتے ہی انہوں نے جب پٹی ہٹائی وہ دیکھ کر کہنے لگے: گوشت‘ رگیں سب کچھ گل چکی ہیں حتیٰ کہ اب تو ہڈی بھی آدھی گل گئی ہے لیکن کوئی حرج نہیں‘ انشاء اللہ اللہ کرم کرے گا۔ وہ مرہم لگا کرصبح و شام پٹی بدلتے تھے اور چند ہی ہفتوں کے بعد زخم بہتر ہونا شروع ہوگیا اور مریض جس کی آدھی پنڈلی گل چکی تھی اور ڈاکٹروں نے ٹانگ کاٹنے کا فیصلہ کرلیا تھاوہ مریض صحت یاب ہوگیا۔ قارئین! زخم چنبل ہو یا داد، شوگر کا ہو یا کینسر کا، چوٹ کا ہو یا کیڑوں کا، جسم کے کسی حصے میں پرانے سے پرانا زخم جو ناسور،بھگندر، یا فسچولہ کی شکل اختیار کرچکا ہو نہایت آزمودہ سالوں سے نہیں صدیوں سے آزمودہ‘ ایک بہترین مرہم ہے۔ آپ سوچ نہیں سکتے کہ اس کے کتنے کمالات ہیں۔ یہ اس دور کی بات ہے جب علامہ اقبالؒ مرحوم برصغیر کے چوٹی کے شاعر اور لیڈر تھے۔ سیالکوٹ سے ان کے ایک رشتے دار آئے‘ غریب تھے ‘علامہؒ مرحوم غریب پرور اورمخلص تھے۔ انہوں نے پاؤں پر پٹی باندھی ہوئی تھی پتہ چلا کہ کہیں سانپ کی ریڑھ کی ہڈی کاکانٹا یعنی سانپ کے گلنے کے بعد اس کی ہڈی کا کانٹا پاؤں کو لگ گیا اس کا زہر پاؤں کو چڑھ گیا‘ بہت علاج کیے لیکن پاوں گلتا گیا‘ اب لاہور کے سول سرجن جو کہ انگریز تھا کا مشورہ فوری طور پر اس کو کاٹنے کا ہے۔ چونکہ تین دن کے بعد پاؤں کٹنے کی باری تھی علامہ اقبالؒ مرحوم نے فوراً اپنے خادم علی بخش کو ایک جراح کے پاس بھیجا کہ اس کو لے آئے۔ علی بخش جراح کو لائے‘ جراح علامہ صاحبؒ کا ادب اور احترام کرتے تھے۔ جراح نے زخم دیکھتے ہی کہا کاٹنے کی ضرورت نہیں پڑے گی‘ ٹھیک ہوجائے گا۔ جراح نے بڑی محنت سے صبح و شام پٹی بدلی‘ زخم سے بہت گندگی نکلی‘ تین دن کے بعد جراح سول سرجن کے ساتھ مریض کو لے کر خود گیا‘ اپنا تعارف نہ کرایا۔ کہنے لگا: سر پٹی کھول کردیکھ لیں‘ لگتا ہے کچھ فائدہ ہوگیا ہے اگر فائدہ ہوا ہے تو اسے نہ کاٹیں‘ ورنہ کاٹ دیں۔ انگریز سرجن اپنی کرسی سے اٹھا اس کے کمپاؤڈر نے پٹی ہٹائی‘ اس نے جب زخم دیکھا تو بہت حیران ہوا فوراً مریض کو دیکھ کر کہنے لگاتم نے کیا علاج کیاہے؟ مریض بول اٹھا ساتھ جو آدمی ہے اس نے میرا علاج کیاہے۔ آخر جراح کو اپنا تعارف کرانا پڑا، انگریز ڈاکٹر بہت حیران ہوا اور کہنے لگا وہ مرہم مجھے بھی کچھ لادو۔ جراح نے انگریز کو جاکرمرہم دی۔ یوں کچھ ہی دنوں میں وہ مریض تندرست ہوگیا اور علامہ اقبالؒ کو بہت دعائیں دیکر واپس سیالکوٹ کی راہ لی۔قارئین! یہ مرہم آپ بھی بناسکتے ہیں۔ بس ایک چھٹانک ثابت گندم کے دانے لیں اور ایک چھٹانک ناریل یا خشک کھوپہ لیں اور ایک پاؤ دیسی گھی لیں۔ خشک کھوپہ کے ہلکے سے ٹکڑے کرلیں‘ گندم اور کھوپہ دیسی گھی میں جلائیں۔ جلنے کے بعد اس سب کو رگڑ دیں۔ بس مرہم تیار ہے۔ یہی مرہم زخموں پر لگائیں صبح و شام۔ پھر اس کا کمال دیکھیں۔قارئین زخم کتنا پرانا ہو‘ گندا ہو‘ گھٹیا ہو‘ آپ دنیا کی آخری سے آخری مرہم لگا کر تھک چکے ہیں۔ اور عاجر آچکے ہیں اور سمجھتے ہیں اس کا کہیں اور کوئی علاج نہیں‘ بس کچھ عرصہ لگاتار یہی مرہم استعمال کریں اور قدرت کا کرشمہ ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں