وہ نقشہ آج بھی پہاڑوں کو یاد ہوگا:کملی والے ﷺاپنی نہیں کسی اور کی بکریاں چرا رہے تھے ۔جبل ثور کا وہ نقشہ آج بھی ان پہاڑوں کو یاد ہوگا! آج بھی آسمان کو وہ حیرت انگیز منظر یاد ہوگا ۔ صدیاں گزرنے کے باوجود جبل ثور کا پہاڑ آج بھی ویسے ہی کھڑاہوا ہے کہ جہاںپرسرورکونین ﷺ اس امت کو یہ پیغام دے کر گئے ہیں کہ پاؤں میں جوتا نہیں لیکن شان یہ ہے کہ آپﷺ کے اشارے سے احد پہاڑ سونے کا بن جائے ! مبارک انگلیوں سے پانی کے چشمے بہہ نکلیں! جن کے ایک اشارے پر اللہ پاک بارہ ہزار کے لشکر کی خوراک ذخیرہ کردیں!غم گسار نبی ﷺ نے اپنی امت کے غریب کو یہ پیغام دیا ہے کہ اگر تیرے پاس غربت‘ تنگدستی ہے ،تیرےبچے زیادہ ہیں ،تیراگھر چھوٹاہے، تیری نوکری چھوٹی ہے اورتیرا ذریعہ آمدنی نہیں ہے تو تم نے پریشان نہیں ہونا، کوئی حرج نہیں ،تیرے حبیب ﷺکے پاؤں میں بھی جوتا نہیں تھا !ان کے سر پر بھی کپڑا نہیں تھا! لیکن کملی والےﷺ نے اپنے رب کونہیں چھوڑا تھا ۔
آج تو کملی والےﷺ کا وہ غلام بن جا کہ اگر تیرے ہاںتنگ دستی ہے ،فقرو فاقہ ہے،تیر ی ضرورتیں پوری نہیں ہوتیں، کوئی حرج کی بات نہیں!بس تو محمد ﷺ کی غلامی کو نہ چھوڑ ۔ایک وقت آئے گا!جب تیرا رب تیری نسلوں کو بھی پالے گا! تیرارب تجھے بہت عطا کرے گا!یہی پیغام ہمارے لیے بھی ہے کہ ہر حال میں آقاﷺ کی غلامی ہی سرخروئی کا باعث ہے ۔شادی ہے تو اس میں یہ پیغام ہے کہ جو خوشیاں تجھے رب نے دی ہیںتو ان خوشیوں میں آقا کملی والے ﷺ کوبھی یاد رکھ۔ ان کے احسانات کو بھی یاد رکھ اور تجھے جو غم دیاہے تو دیکھ کہ ہمارے آقاﷺنے بھی غم سہا ہے۔ آقاﷺ کوبہت سارے غم ملے ہیں۔ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیٹا ہے اس کی رحلت پر آنکھوں سے زاروقطار آنسورواں ہیں، اس کو ہاتھوں میں لیا ہواہے، دل میں غم واندوہ کی کیفیت طاری ہے، سرورکونین ﷺ کی بیٹیاں، سرورکونین ﷺ کے بیٹے ان کی زندگی میں فوت ہوئے ہیں۔آپ ﷺکوامّ المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکا غم زندگی میں ہی ملا ہے۔آخر وہ سارے غم جو سرورکونین ﷺ کو ملے ان غموں میں آپﷺ نے اپنی کیفیت کیسے رکھی؟خوشی میں آپ ﷺکی کیفیت کیسی تھی؟ اللہ جل شانہٗ کے ساتھ تعلق کیسا تھا؟ بازار میں کیسے تھے؟ گھرمیںکیسے تھے؟زندگی میں کیسے تھے؟ہمہ وقت کیفیت کیسی تھی؟ ان ساری کیفیات کو مد نظر رکھ کر چلنا ہی غلامی ہے۔
؎ ’’غلام مصطفیٰ ﷺ بن کر بک جاؤ ں مدینے میں‘‘
اس لیے غلام مصطفیٰ ﷺبنیں،غلام رسولﷺ بنیں، غلام محمدﷺ بنیں،غلام احمد ﷺبنیں ۔
ضروریات زندگی: میرے محترم دوستو!کچھ چیزیں ضرورت کی ساتھ لگا کر دی گئی ہیں۔ کھاناہماری ضرورت ہے، پینا ہماری ضرورت ہے، شادی ہماری ضرورت ہے، لباس ہماری ضرورت ہے، سردی سے بچنا ہماری ضرورت ہے،گرمی سے بچنا ہماری ضرورت ہے ۔یہ ساری ہماری ضرورتیں ہیں اور اللہ نے یہ ساری ضرورتیں ہمارے ساتھ لگا دی ہیں۔ پھر ضرورت لگا کر اللہ نے ہمیں ان ضرورتوں کا محتاج اورغلام بھی بنا دیا کہ کھانا نہیں کھائیں گے تو پیٹ کیسے بھرے گا۔ پانی نہیں پئیں گے توپیاس کیسے بجھے گی۔ اب رب اور ضرورت آمنے سامنے ہے ۔
انسانی مزاج:انسان کا اپنا ایک مزاج ہے جہاں سے اس کی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں وہ کہتا ہے میں یہاں سے پل رہا ہوں۔ بیوی کہتی ہے میاں اگر دکان پر نہیں جائیں گے توبچے کیسے پلیں گے۔ میاں دفتر میں نہیں جائیں گے تو بچے کیسے پلیں گے۔ میاں اپنی صنعت اور تجارت میں نہیں جائیں گے تو بچے کیسے پلیں گے اور پھر میاں کا بھی خیال یہی ہوتا ہے کہ مجھے اور میرے بیوی بچوں کو، میری دکان، دفتر، تجارت اور صنعت اور تنخواہ پال رہی ہے۔
پرندوں جیسا یقین:حدیث کے الفاظ ہیں سرور کونینﷺ نے فرمایا ،مفہوم ہے: ٍاگر انسان کا یقین ان پرندوں کی طرح ہو جائے کہ پرندے صبح توخالی ہاتھ جاتے ہیں پھرشام کو ہرے بھرے آتے ہیں، اللہ غیب سے ان کو پالتے ہیںاسی طرح اللہ پاک اپنے بندے کوبھی دست غیب سے عطا فرماتے ہیں۔ اللہ ضرورتیں پیدا ہونے ہی نہیں دیتا، ضرورتیں پیدا ہونگی تو انسان محتاج بنے گا کھانے کا محتاج، پینے کا محتاج، اٹھنے کا محتاج، بیٹھنے کا محتاج، گرمی کا محتاج، سردی کا محتاج، پیاس کا محتاج۔ ایک دست غیب یہ بھی ہے کہ اللہ بغیر طلب عطا کر دیتا ہے، اللہ بغیر خواہش کے پورا کر دیتا ہے۔ اللہ پاک پھر خواہش کو بھی پیدا نہیںہونے دیتا، اللہ اس کے بغیر ہی زندگی کا نظام چلا دیتا ہے۔اور ایسااس وقت ہوتا ہے جب بندہ اللہ کا بن جاتا ہے۔ ہر پل، ہر لمحہ، ہر لحظہ اس کی نظر اللہ پر رہتی ہے۔
اللہ ،اللہ سکھادیں!: ایک اللہ والے کے پاس ایک مائی آئی کہنے لگی’’ حضرت مجھے اللہ اللہ سکھا دیں‘‘اللہ والے نے فرمایا:’’ تجھے سکھانا آسان ہے ‘‘انہوں نے مزیدفرمایا: ’’بچے کو مکتب، سکول، یا کالج میں پڑھنے کیلئے بھیجتے ہو؟‘‘ خاتون نے عرض کی’’جی حضرت بھیجتے ہیں‘‘تواللہ والے نے فرمایا:’’ بھیجنے کے بعدکیا تو اس سے غافل ہوجاتی ہے؟‘‘ خاتون نے عرض کی ’’نہیں‘‘ تواس اللہ والے نے فرمایا: ’’کیاکیفیت ہوتی ہے ؟‘‘خاتون نے عرض کیا:’’ حضرت ہر پل میرا دل اس کی کیفیتوں میں اٹکارہتا ہے کہ اب سو رہا ہو گا یاجاگ رہا ہو گا، کہیں چوٹ تو نہیں لگی، کہیں گر تو نہیں پڑا، کہیں کھانا، پیاس، پیشاب کی کیفیت ہو گی توچھوٹا بچہ ہے،اگر پیشاب آیاتو کون استنجا کرائے گا، اگر بھوک لگی تو کھانا کھلائے گا،اگر پیاس لگی توکون پیاس بجھائے گا، کون کیا کرے گا ہر وقت اس میں ہی دل اٹکارہتا ہے۔‘‘(جاری ہے)۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں