ہم اس کا علاج بھی کررہے ہیں۔ لیکن دراصل اس کی موت کا انتظار ہے۔ اس کی ڈیڈ باڈی کو ہم جراثیم کش دوا سے دھوکر آپ کو دیں گے ورنہ جو اس کو غسل دے گا یا ہاتھ لگائے گا اسے بھی یہی بیماری ہونے کا سوفیصد خدشہ ہے۔
محمد فاران ارشد بھٹی‘ خان گڑھ
بعض دفعہ انسان کو اچانک موت دبوچ لیتی ہے کہ وہ کوئی وصیت نصیحت بھی نہیں کرسکتا لیکن چند ایک واقعات ایسے گزرے ہیں کہ مریض آخری دموں تک پہنچ جاتا ہے۔ اسے بھی اور اس کے لواحقین کو بھی یقین ہوچکا ہوتا ہے کہ اس کا وقت ختم ہوچکا ہے‘ صرف سانسیں پوری کررہا ہے لیکن قدرت کو کچھ اور منظور ہوتا ہے۔ عبدالرحمان فرنیچر کا کاروبار کرتا تھا‘ ایک دفعہ وہ بازار سے کیلیں خرید کر آرہا تھا کہ کیلوں والا شاپر پھٹ گیا اور تمام کیلیں سڑک پر گرگئیں‘ سڑک پر گھوڑوں کی لید وغیرہ پڑی ہوئی تھی‘ کئی کیلیں وہاں جاپڑیں‘ عبدالرحمان نے جلدی جلدی تمام کیلیں سمیٹ لیں اس کے ہاتھوں کو لید لگ گئی وہ گھر آگیا ہاتھ منہ دھو کر سوگیا‘ صبح گھر والوں نے دیکھا تو اسے شدید ترین بخار تھا‘ وہ تقریباً بے ہوش تھا۔ اسے اسی وقت ہسپتال لے گئے‘ ایمرجنسی میں اس کے ٹیسٹ وغیرہ ہوئے ڈاکٹروں نے ٹیٹنس بخار بتایا جو گھوڑوں کی لید کے جراثیم سے ہوتا ہے‘ اردو میں اس بیماری کو بدکنار کہتے ہیں۔
عبدالرحمان کی انگلی پر ایک زخم کا نشان تھا یعنی تازہ نشان تھا جس کے ذریعے جراثیم اس کے جسم کے تمام حصوں میں داخل ہوگئے۔ ڈاکٹر حتی الامکان علاج تو کررہے تھے لیکن پُرامید نہیں تھے مریض کا جسم پھول کرکُپا ہوگیا تھا حتیٰ کہ ناک کے ذریعے خوراک وغیرہ دینی بھی مشکل ہوگئی تھی۔ گردن میں ایک کَٹ لگا‘ خوراک اور دوا کی نالی لگادی‘ اسی بے ہوشی اور پھول کر کپا ہونے کی حالت کو ایک ہفتہ گزر گیا۔ ڈاکٹروں نے مایوسی کا اظہار کردیا۔ مریض کے گھر والوں کو کہہ دیا کہ ان کا بچنا ناممکن ہے۔ اس کے بھائی بہن ماں وغیرہ سب مایوس ہوگئے اور رونے لگے‘ ڈاکٹر آخری دم تک تسلی تو دیتے رہے لیکن جب انہوں نے موت کی خبر سنا دی تو گھر والوں نے کہا اب آپ نے ہمارا مریض کس لیے رکھا ہوا ہے ہم اسے گھر لے جاتے ہیں۔ ڈاکٹروں نے کہا آپ کو کیا پتہ اسے کتنے زہریلے جراثیم چمٹے ہوئے ہیں‘ ہم اس کا علاج بھی کررہے ہیں۔ لیکن دراصل اس کی موت کا انتظار ہے۔ اس کی ڈیڈ باڈی کو ہم جراثیم کش دوا سے دھوکر آپ کو دیں گے ورنہ جو اس کو غسل دے گا یا ہاتھ لگائے گا اسے بھی یہی بیماری ہونے کا سوفیصد خدشہ ہے۔ اگر کفن لا کر دے دیں تو ہم جراثیم کش دوا گرم پانی میں ڈال کر نہلا کردے دیں تاکہ مزید بیماری پھیلنے کا خطرہ نہ رہے۔ لواحقین بے چارے بے حد پریشان ہسپتال کے برآمدوں میں براجمان میت کے انتظار میں بیٹھے تھے۔ ماں‘ بہنوں کی رو رو کر آنکھیں سوج گئی تھیں۔ ڈاکٹروں نے دوا اور خوراک کی نالیاں بھی ہٹا دی تھیں۔ مریض بے حس و حرکت لاش کی طرح پڑا تھا۔ بس اُس کی موت کا انتظار تھا۔ ایک ہفتہ مزید گزر گیا آہستہ آہستہ اس کی سوج اُترنی شروع ہوگئی۔ ڈاکٹروں اور لواحقین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اترتے اترتے سوج بالکل ختم ہوگئی اور مریض نے آنکھیں کھول دیں اور پانی مانگا‘ پانی کا گلاس دیا گیا مریض جو ناک سے بھی خوراک نہیں لے سکتا تھا غٹا غٹ پانی پی گیا۔ چند دن مزید ہسپتال میں رہنے کے بعد مکمل صحت یاب ہوکر گھر کو روانہ ہوگیا۔ مزید پانچ چھ سال وہ تندرستی سے زندہ رہا‘ ماں مرگئی‘ چھوٹا بھائی مر گیا لیکن عبدالرحمان اپنی طبعی عمر پاکر عالم بالا کو سدھارا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں