آپ ﷺ کا جواب سن کر حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا واپس چلی گئیں آپؓ حضور ﷺ کے ان ارشادات سے حد درجہ مسرور تھیں پس آپؓ نے واپس جاکر ان خواتین کو بھی آپ ﷺ کے خوبصورت جواب سے مطلع کرکے انہیں بھی مسرور کیا۔
ابولبیب شاذلی
حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا جن کا پورا نام اسماء دختر یزید انصاریہ از بنو اشہل تھا۔ یہ وہ خاتون تھیں جنہوں نے بارگاہ رسالتﷺ میں عورتوں کی طرف سے نمائندگی کرتے ہوئے اس طرح سوال کیا کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین حیران و ششدرہ رہ گئے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ مکہ سے ہجرت کے بعد رحمت عالم ﷺ نے مدینہ منورہ میں قیام کیا تو اہل مدینہ (اوس وخزرج) میں جو لوگ بیعت عقبہ سے محروم رہ گئے تھے جوق در جوق آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر زیارت اور بیعت کی سعادت حاصل کرنے لگے۔ اسی دوران میں جب آپ ﷺ کے گرد صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا مجمع تھا تو حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کمال جرأت اور ہمت سے مدعا بیان کیا کہ جس کیلئے تشریف فرماہوئیں تھیں بولیں: ’’یارسول اللہ ﷺ! میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں۔ میں خواتین کی طرف سے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی ہوں۔ اللہ نے آپ ﷺ کو مردوں اور عورتوں‘ ہر دو کی طرف نبی بنا کر بھیجا ہے۔ ہم آپ ﷺ اور خدا پر ایمان لائیں مگر۔۔۔ ہم عورتیں ہیں جو گھروں میں بند ہیں اور آپ ﷺ کی محفل میں پہنچنے سے قاصر ہیں۔ ہم آپ (مردوں) کے گھروں میں بیٹھی ہوئی ہیں۔ آپ کی خواہشات نفسانی کو پورا کرتی ہیں اور آپ کی اولاد کو اٹھائے پھرتی ہیں۔ یہ ہے ہماری حالت جبکہ مردوں کو ہم پر فضیلت حاصل ہے کہ وہ مل بیٹھتے ہیں۔ ان کے اجتماعات ہوتے ہیں۔ وہ مریضوں کی عیادت کرتے ہیں‘ جنازوں میں موجود ہوتے ہیں۔ حج کرتے ہیں اور حج کے بعد جہاد میں شریک ہوتے ہیں اور جب مرد حج کے بعد جہاد میں شرکت کیلئے جاتے ہیں تو ہم ان کے مال و متاع کی حفاظت کرتی ہیں۔ ان کا لباس تیار کرتی ہیں۔ ان کی اولاد کو پالتی ہیں کیا ہم ان کے اجروثواب میں شریک ہوں گی۔‘‘
حضور نبی اکرم ﷺ نے جب اس خاتون کی زبان سے ایسی پراثر اور مدلل گفتگو سماعت فرمائی تو آپ ﷺ نے کوئی جواب دینے سے قبل اپنا چہر ہ مبارک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرف پھیرا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مخاطب ہوکر فرمایا: کیا تم نے کبھی بھی کسی عورت کی دین کے بارے میں اتنی عمدہ گفتگو سنی ہے جس طرح کہ اس خاتون نے کی ہے؟‘‘ صحابہؓ نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ ﷺ! ہمیں تو کبھی خیال بھی نہیں آیا تھا کہ کوئی عورت دین کے معاملات تک اس طرح رہنمائی حاصل کرسکتی ہے؟‘‘ اس کے بعد رحمت عالم حضرت محمدﷺ نے اس خاتون سے مخاطب ہوکر اس کی تشفی و تسلی کیلئے نہایت جامع جواب دیا اور فرمایا: ’’اے خاتون! تو میری بات کو غور سے سن اور اپنے بعد آنے والی خواتین کو بھی یہ بات بتادے کہ عورت کیلئے شوہر کی رضاجوئی بہت ضروری ہے‘ اگر عورت فرائض زوجیت ادا کرتی ہے اور شوہر کی موافقت اور فرمانبرداری کرتی ہے تو اس کو بھی مرد کے برابر اجر ملے گا۔‘‘
آپ ﷺ کا جواب سن کر حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا واپس چلی گئیں آپؓ حضور ﷺ کے ان ارشادات سے حد درجہ مسرور تھیں پس آپؓ نے واپس جاکر خواتین کو بھی آپ ﷺ کے خوبصورت جواب سے مطلع کرکے انہیں بھی مسرور کیا۔مسند احمد حنبل رحمۃ اللہ علیہ میں مذکور ہے کہ حضرت اسماء کے ساتھ اس وقت ان کی خالہ بھی حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تھیں۔ انہوں نے ہاتھوں میں سونے کے کنگن اور انگوٹھیاں پہن رکھی تھیں۔ (ایک روایت میں ہے کہ خود حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے یہ زیور پہن رکھے تھے اور حضور ﷺ کا ارشاد سن کر انہوں نے فوراً تمام زیور اتار دئیے تھے۔) حضور ﷺ کی نظر مبارک ان پر پڑی تو دریافت فرمایا: ’’ان کی زکوٰۃ دیتی ہو؟‘‘ بولیں: ’’نہیں‘‘۔ حضور ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تم کو پسند ہے کہ آخرت کے دن اللہ ان کے بدلے تمہیں آگ کے کنگن پہنائے؟‘‘ آنحضورﷺ کی بات سن کر انہوں نے سارے کنگن اتار دئیے۔ پھر حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ ﷺ اگر ہم زیور نہ پہنیں تو شوہر کی نظروں سے گر جائیں گی۔‘‘ حضورﷺ نے فرمایا: ’’تو پھر چاندی کے زیورات بنواؤ اور ان پر زعفران مل دو کہ سونے کی چمک پیدا ہوجائے۔‘‘ اس کے بعد حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے دوسری خواتین کےہمراہ سرور عالم ﷺ کی بیعت کرنا چاہی اور عرض کی کہ یارسول اللہ ﷺ اپنا دست مبارک بڑھائیے۔ حضور ﷺ نے فرمایا: ’’میں عورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتا‘ البتہ تم ان باتوں کا اقرار کرو تو بیعت ہوجائے گی۔ 1۔ اپنی اولاد کو قتل نہ کروگی۔ 2۔چوری نہ کروگی۔ 3۔کسی کو خدا کا شریک نہ بناؤگی۔ 4۔زنا سے بچوگی۔ 5۔کسی پر جھوٹی تہمت نہ لگاؤ گی۔ 6۔اچھی باتوں سے انکار نہ کروگی۔
حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا سمیت دیگر خواتین نے صدق دل سے ان باتوں کا اقرار کیا اور اپنے گھر واپس چلی گئیں۔ حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں مزید یہ کہ آپ وہ صحابیہ تھیں جنہوں نے ہجرت سے قبل ہی اسلام قبول کرلیا تھا۔ حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور ان کے تمام اعزّہ و اقارب اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ سے والہانہ محبت کرتے تھے اور دین حق کی خاطر وہ اپنی جان اور مال ہر شے قربان کرنے کیلئے ہروقت کمربستہ رہتے تھے۔ سنہ ۲ ہجری میں غزوہ بدر پیش آیا تو سارے بنو عبدالاشہل اس میں جان بازانہ شریک ہوئے ان میں حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے کئی قریبی عزیز بھی تھے۔ غزوہ اُحد میں بھی یہی کیفیت تھی۔ اس لڑائی میں حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے چچا حضرت زیاد رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اور چچا کے بیٹے حضرت عمارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بن زیاد نے اس شان سے اپنی جانیں رسول اللہ ﷺ پر قربان کیں کہ تمام صحابہ اکرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ان پر رشک کیا کرتے تھے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں