ننھی چڑیا کی آزادی
ایک کھیت کے قریب درختو ں کی قطار تھی ۔ جہاں درخت پر ایک ننھی سی چڑیا نے اپنا گھونسلہ بنا رکھا تھا ۔ سال بھر یہ چڑیا ادھر ادھر دانہ دنکا چگتی پھر تی ، مگر جب مو سم بہا ر آتا تو یہ گھونسلا آبا د ہو جا تا ۔ اس گھونسلے میں اس سال اس نے چا ر انڈے دئیے ۔ ان انڈو ں پر بیٹھ کر گھنٹو ں انہیں سیتی ۔ انڈو ں کو سینے کی مدت ختم ہوئی تو انڈو ں سے چا ر بچے نکلے ۔چڑیا قریبی کھیت پر اتر کر پیٹ بھر تی اور اپنے چارو ں بچوں کو اپنی چو نچ سے دانہ کھلاتی۔ بچو ں کو ہر وقت بھو ک لگتی رہتی اور چڑیا تھوڑی تھوڑی دیر بعد انہیں دانہ کھلا تی رہتی ۔
اس کھیت کا ما لک ایک چھوٹے دل کا آدمی تھا ۔ جب بھی وہ اس ننھی سی چڑیا کو اپنے کھیت میں دانہ چگتا دیکھتا تو اسے غصہ آجا تا کہ میں تو محنت سے کھیت میں دن رات ایک کر کے فصل اگا تا ہو ں اور یہ کم بخت چڑیا میری محنت پر دن دہا ڑے ڈاکہ ڈالتی ہے ۔ کسان اس کو پکڑنے کی فکر میں لگ گیا ۔
آخر ایک دن اس کسان نے چڑیا کو جال میں پھنسا ہی لیا ۔ اگلے دن اس نے چڑیا کو پنجرے میں بند کیا اور شہر کی طرف چل کھڑا ہوا کہ اب تو اس ڈاکن چڑیا کا اور میرا انصا ف با د شا ہ سلامت کی عدالت میں ہی ہوگا ۔ چڑیا بے چا ری پنجرے کی سلا خو ں سے سرمار رہی تھی اور کسان سے التجا کر رہی تھی کہ مجھے چھوڑ دو ۔ میرے بچے بھو کے سے بلک رہے ہو ں گے ، مگر کسان نے ایک نہ سنی ۔ راستے میں ایک آدمی ملا جس کی گاﺅ ں میں دکان تھی ۔ وہ شہر سے دکان کا سامان لا رہا تھا۔ ننھی چڑیا کی فر یا د سن کر اسے بڑا تر س آیا ۔ اس نے کسان سے کہا : ” بھائی کسان ! میں تمہیں ایک جو ڑی جو تے دو ں گا ، اس چڑیا پر رحم کھا ﺅ اور اسے آزاد کر دو ۔ “
مگر کسان اپنی ضد پر اڑا رہا اور بو لا : ” اب اس بد ذات چڑیا کا اور میرا انصاف تو با دشا ہ سلامت کے در بار میں ہی ہو گا ۔ شہر کی طر ف آتا ہوا ایک اور تا جر ملا ۔ ننھی چڑیا کی فر یا دسن کر اسے بھی چڑیا پر رحم آگیا ۔ اس نے کسان سے کہا : ” بھائی کسان تمہارے بھی بچے ہیں ۔ اس چڑیا کو آزاد کر دو ۔ بدلے میں تم کو دو سیر گڑ دو ں گا ۔ “
مگر ظالم او ربے رحم کسان نے ایک نہ سنی ۔ کسان چلتے چلتے پہنچ کر با دشا ہ سلامت کے در بار میں حاضر ہو ا۔ کسا ن کی باری آئی اور حکم ملا کہ وہ بیا ن کرے کہ اس کا کیا مسئلہ ہے ؟ کسان نے اپنی شکایت بیان کی اور کہا : ” حضور والا ! اب اس چڑیا کا اور میرا انصاف آپ ہی کیجئے ۔ “
بادشا ہ نے حکم دیا کہ کسان کو پانچ اشرفیا ں دی جائیں اور ننھی چڑیا کو پنجر ہ کھو ل کر فوراً آزاد کر دیا جائے۔ مگر یہ بے وقوف کسان اپنی ضد پر اڑا رہا کہ میں تو حضور سے انصاف چاہتا ہو ں ۔
بادشاہ سلامت نے حکم دیا کہ کسان کو ایک من اناج دے کر ننھی چڑیا کو آزاد کر دیا جائے ۔ کسان ا ب بھی نہیں مانا تو بادشاہ سلامت کو غصہ آگیا ۔ با دشا ہ نے اپنے دانا وزیر کے کان میں کچھ کہا ۔ دانا وزیر اس کسان سے مخاطب ہوئے اور بولے : ” اے کسان ! تو نہ صرف ضدی ہے بلکہ بے وقوف بھی ہے ۔ یہ چڑیا تیرے کھیت میں جا کر چوری نہیں کر تی بلکہ تجھ پر بڑا احسان کر تی ہے ۔ یہ ان چھوٹے چھوٹے کیڑو ں کو چن چن کر کھا جا تی ہے ، جو تیری فصل کو نقصان پہنچاتے ہیں ۔ اے بے وقوف کسان ! تجھے تو اس ننھی چڑیا کا احسان ماننا چاہئے ۔ بادشا ہ سلامت کا انصاف یہ کہتا ہے کہ تجھے ایک ہفتے کے لیے جیل بھیج دیا جائے اور بے چاری چڑیا کو اسی وقت رہا کر دیا جائے ۔“کسان کھڑا پچھتا رہا تھا کہ کا ش وہ پانچ اشرفیا ں قبول کر لیتا ، مگر اسے وہ کہا وت یا د آگئی :
” اب پچھتائے کیا ہو جب چڑیا چگ گئیں کھیت “
(مر سلہ : عابد شبیر ۔ لاہور )
چالا ک کو ن ؟
ایک کوا روٹی کا ٹکڑا اپنی چونچ میں لیے ہوئے ایک درخت کی ٹہنی پر بیٹھا تھا ۔ ایک لومٹری کا گزر ادھر سے ہوا ۔ منہ میں پانی بھر آیا ( لو مڑی نے ) سو چا کہ کوئی ترکیب کی جائے کہ یہ اپنی چونچ کھو ل دے اور روٹی کا ٹکڑا میں جھپٹ لو ں ۔ اس نے مسکین صورت بنا کر اورمنہ اوپر اٹھا کر کہا : ” کوے میا ں ! سلام ۔ تیرے حسن کی کیا تعریف کرو ں ، کچھ کہتے ہوئے جی ڈرتا ہے ۔ واہ واہ ، چو نچ بھی کا لی ، پر بھی کا لے آج کل تو دنیا میں مستقبل کالو ں ہی کے ہا تھ میں ہے ۔ افر یقہ میں بھی بیداری کی لہر دوڑ گئی ہے ، لیکن خیر یہ سیاست کی با تیں ہیں ۔ میں نے تیرے گانے کی تعریف سنی ہے ۔تو اتنا خوب صور ت ہے تو گا نا بھی اچھا گا تا ہو گا ۔ مجھے گانا سننے کا شوق یہا ں کھینچ لایا ہے ، ہا ں تو ایک آدھ بول ہو جائے ۔ “ کوا پھو لا نہ سمایا ، لیکن کوے نے سیا نے پن سے کا م لیا ۔ روٹی کا ٹکڑا منہ سے نکال کر پنجے میں تھاما اور لگا کائیں کائیں کرنے ۔ بی لومڑی کا کام نہ بنا تو یہ کہتی ہو ئے چل دی : ”ہٹ تیرے کی بے سرا بھانڈ ۔ معلوم ہو تا ہے تو نے بھی حکا یا تِ لقمان پڑھ رکھی ہے ۔ “
(مر سلہ : سو نیا منیر ۔ سمندری )
اللہ کی را ہ میں خر چ کرنے کا اجر
حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک روز غلہ خریدنے کی نیت سے حضرت فا طمہ رضی اللہ عنہ کی ایک چا در بازار میں بیچنے کے لیے لے گئے اور چھ درہم کے بدلے ایک خریدار کے ہا تھ فروخت کر دی ۔ راہ میں ایک سائل کو سوال کر تا ہو ا دیکھا اور سب درہم سائل کو دے دئیے ۔ اس با ت کا خیال نہ کیا کہ گھر کیا لے کر جا ﺅ ں گا ۔ گھر میں سب بھو کے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی شان دیکھئے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام اعرا بی کی صور ت میں اونٹنی لیے آپ رضی اللہ عنہ کے سامنے آئے اور کہنے لگے علی تم اس اونٹنی کو خریدنا چا ہتے ہو تو خرید لو قیمت پھر دے دینا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سو درہم قیمت میں اونٹنی خرید لی۔ اتنے میں حضرت میکا ئیل علیہ السلام ملے اور کہا اگر تم اس اونٹنی کو بیچوتو ایک سو سا ٹھ درہم دیتے ہیں ، آپ رضی اللہ عنہ ہمیں دے دیجئے ۔ آپ رضی اللہ عنہ بہت خوش ہو ئے اور ایک سو ساٹھ درہم لے کر اونٹنی دے دی ۔ اس کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام ملے اور اپنے سو د رہم طلب کئے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے سو درہم دیدئیے اور ساٹھ درہم لے کر اپنے گھر میں واپس آگئے ۔ حضرت فا طمہ رضی اللہ عنہ نے در یا فت کیا کہ یہ ساٹھ درہم کیسے مل گئے ؟ فرمایا اللہ کریم سے تجارت کی تھی ، سا ٹھ درہم کا فا ئدہ ہو ا۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تمام ما جر ا بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اونٹنی بیچنے والے حضرت جبرائیل علیہ السلام، خریدنے والے میکائیل علیہ السلام اور اونٹنی وہ تھی جو قیامت کے دن حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی سواری میں ہو گی۔دیکھ لو بچو ! حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے چھ درہم اللہ تعالیٰ کی راہ میں صرف کئے تھے ۔ جس کے بدلے میں ساٹھ درہم ملے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ۔ مَن جَا ئَ بِالحَسَنَةِ فَلَہ‘ عَشرُ اَمثَالِھَا (ترجمہ ) یعنی جو ایک نیکی کر ے گا اس کے بدلے دس حصے پائے گا (سورئہ انعام آیت نمبر160)
(مر سلہ : علی حیدر)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں