میں نے اس جن سے پوچھا کہ کیا وہ مسلمان ہے؟ مگر وہ بڑے دکھ کے ساتھ کہتا تھا کہ نہیں کیونکہ اس چڑیل نے مجھے بچپن میں اٹھا لیا تھا اور مجھے آج تک میرے والدین کا علم نہیں ہے اور نہ مجھے معلوم ہے کہ میں مسلمان تھا
واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ میں بچپن سے ہی اپنی نانی اماں کے پاس ہوں میں اپنے ماموں کے گھر میں وہاں ہی پلا بڑھا ہوں اور میری شادی بھی اپنی ماموں زاد سے ہوئی ہے اور تاحال میں اُسی گھرمیں رہ رہا ہوں۔ یہ واقعہ میری شادی سے بہت پہلے کا ہے۔ میں اور میراماموں زاد بھائی جو کہ عمر میں مجھ سے چھوٹا ہے وہ بھی اس وقت غیرشادی شدہ تھا۔ اب میرا بہنوئی ہے۔ ہم دونوں ایک کمرے میں سویا کرتے تھے۔ میرے ماموں زاد بھائی کو جنات کا اثر ہوا کرتا تھا۔ ایک رات میں عشاء کی نماز مسجد میں ادا کرنے کے بعد وہیں رک گیا اور مجھے آنے میں کچھ دیر ہوگئی۔ ہمارے راستے میں ایک پرانا قبرستان بھی آتا ہے۔ دسمبر کا ہی مہینہ تھا میں جب واپس گھر آرہا تھا تو میرا معمول تھا کہ میں سورۂ یٰسین کی تلاوت کرتا ہوا آتا تھا کچھ عادت تھی اور کچھ خوف… سورۂ یٰسین چونکہ مجھے زبانی یاد تھی میں مسلسل تلاوت کررہا تھا اور چل رہا تھا۔ مسجد سے میرے گھر کا فاصلہ تقریباً دس منٹ کا ہے جو کہ زیادہ قبرستان سے ہے۔ مجھے قبرستان سے دھیمی آواز ہنسنے کی آئی‘ میں نے توجہ نہ کی اور زیادہ دھیان پڑھائی پر رکھا‘ میں مسلسل سورۂ یٰسین کی تلاوت کررہا تھا جب میں گھر کے بیرونی دروازے پر پہنچا تو مجھے بچے کے رونے کی آواز سنائی دی تو میں نے سمجھا کہ پڑوسیوں کا بچہ رو رہا ہے بہرحال میں تلاوت کررہا تھا۔ گھر پہنچ کر جونہی میں نے اپنے کمرے کا دروازہ کھولا اور دروازہ کھول کر بند کردیا اور کنڈی لگادی اور ساتھ ہی میں نے کمرے کی لائٹ آن کردی۔ میراماموں زاد پہلے سے کمرے میں سورہا تھا مگر لائٹ کے آن ہوتے ہی وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور اس کی زبان بہت زیادہ لمبی ہوکر منہ سے باہر نکلی ہوئی تھی اور وہ ڈراؤنی آواز میں رو رہا تھا۔ مجھے نہیں پتہ کیا ہوا میں نے بھی اور زیادہ شور سے اسے چپ کرنے کو کہا اور ساتھ ہی ایک زور دار تھپڑ اس کو اپنے بائیں ہاتھ سے مارا۔ میرا اتنا شور تھا کہ ساتھ والے کمرے سے ماموں اور باقی لوگ اٹھ کر آگئے میں دوسری چارپائی پر پڑا ہوا تھا اور آیۃ الکرسی اونچی آواز میں پڑھ رہا تھا اور میرا ماموں زاد الگ رو رہا تھا۔
مجھے آج تک اس واقعہ کی حقیقت کا اندازہ نہیں مگر ایک بات ہے صبح میری ایک ٹانگ سامنے سے معمولی زخمی تھی اور مجھے نہیں پتا کہ ہمارے کمرے کی کنڈی اندر سے کس نے کھولی اور وہ شور کیسا تھا۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ میرے ماموں زاد پر جو جن حاضر ہوتا تھا ایک دن میری اس سے بات ہوئی تو اس نے اپنا نام ’’حیدر‘‘ بتایا اور وہ کہتا تھا کہ مجھے ایک چڑیل نے تمہارے ماموں زاد پر مسلط کررکھا ہے اور اس رات وہی چڑیل اُس کے سرہانے بیٹھی ہوئی تھی۔ تم نے سورۂ یٰسین پڑھتے ہوئے بائیں ہاتھ کا تھپڑ مارا ہے اگر دائیں ہاتھ سے مارتے تو وہ مرجاتی۔ میں نے اس جن سے پوچھا کہ کیا وہ مسلمان ہے؟ مگر وہ بڑے دکھ کے ساتھ کہتا تھا کہ نہیں کیونکہ اس چڑیل نے مجھے بچپن میں اٹھا لیا تھا اور مجھے آج تک میرے والدین کا علم نہیں ہے اور نہ مجھے معلوم ہے کہ میں مسلمان تھا۔ مگر اس کے بعد کبھی میرے ماموں زاد بھائی کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں ہوا اور نہ ہی ہم دونوں ایک کمرے میں سوئے ہیں اب تو ہماری شادیاں بھی ہوچکی ہیں۔میں آج تک اس ’’حیدر‘‘ نامی جن کے لیے کڑھتا ہوں کہ کسی طرح اس ظالم چڑیل سے اس کی خلاصی ہوجائے اور وہ اپنے والدین تک پہنچ جائے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں